بابا جی اپنے کنبے سمیت تمام شعبوں میں اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ ملک کے طول و عرض میں ان کے متاثرین و مریدین موجود تھے۔مذہبی ٹچ سے لے کر صحت کے مسائل اور کھانا پکانے سے خیراتی اداروں کی معیشت کا حل ان کے اسی انگوٹھے میں موجود تھا جس پر تھوک لگا کر وہ ہوائی مہریں لگایا کرتے تھے۔ علاقے کے چھوٹے موٹے ”پیروں“ کا کاروبار ان کی اسی ہوائی مہروں پر پھلتا پھولتا تھا۔سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ جنگل کے جانور بھی ان کے پاؤں چھونے آتے تھے اور ان سے ہوائی پرچیاں لے کر وظیفے کرتے تھے۔ ان وظائف سے کئی گدھے ہائنا hyena بن گئے اور کئی بندر چیتا بن کر خوب اودھم مچاتے پائے گئے۔ وظائف کی کامیابی کے لیے بابا جی کی واحد شرط احتیاطی تدابیر تھیں۔احتیاطی تدابیر کی بھی کئی کہانیاں تھیں۔ مثال کے طور پر وظیفہ کا ایک لفظ بتا کر احتیاطی تدابیر کا ضمیمہ ہمراہ کیا جاتا۔ بابا جی نے ہر مسئلہ کے متعلق ضمیمہ جات چھپوا رکھے تھے۔جس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں عمل الٹا پڑ سکتا تھا۔ ایک شخص پیٹ میں درد کی شکایت لے کر بابا جی کے پاس آیا تو بابا جی نے اسے لیموں پانی پینے کی ہدایت کے ساتھ ضمیمہ بھی عطا کیا۔اس شخص کے ذہن میں صرف لیموں پانی ہی یاد رہا۔پانچ دن کے بعد وہ بابا جی کے پاس گیا اور بتایا کہ اسے آرام نہیں آیا۔بابا جی نے سوالات کاضمیمہ کھولا۔کیا تم نے لیموں بوری سے لیا تھا؟ کون سی بوری؟ وہی بوری جو ضمیمہ میں درج ہے۔بابا جی گرجے۔ بابا جی کے ذاتی مرید نے وضاحت کی کہ اسے مکس سبزیوں کی بوری بھر کر ایک پاؤ لیموں اس میں رکھنے تھے۔بوری بابا جی کے گھر پہنچا کر لیموں نکال لینا تھے۔تبھی اسے آرام مل سکتا تھا۔ اگلی بار قدم گننے میں بے احتیاطی ہو گئی۔ اس سے اگلی بار آلو پرانے نکلے۔اس سے اگلی بار سبز مرچ موٹی نکلی۔ اگلی بار لہسن چائنا کا نکلا۔کئی بوریاں ڈھونے کے بعد بابا جی نے بڑے جلال سے پوچھا کیا تم نے گلاس میں پہلے ہانی ڈالا تھا یا لیموں؟ متاثر شخص کے پانی کہنے پر بابا جی نے اسے ایک چپت لگا کر کہا، مورکھ، نادان تم سے بنیادی غلطی ہوئی۔ پہلے لیموں ڈالنا تھا۔اگلی بار مرید نے اسے تھپڑ لگا کر بتایا کہ آدھا لیموں پہلے اور آدھا لیموں گلاس میں پانی بھرنے کے بعد ڈالنا تھا۔ کچھ سیانوں " نے تو ان کا نام ہی "احتیاطی تجاویز " رکھ چھوڑا تھا۔جب بھی کوئی بابا جی کی کرامت بیان کرتا، سننے والا ٹھٹھا لگا کر ہنستا اور کہتا کہ احتیاط و بے احتیاطی مل گئی ہو گی۔ متاثر شخص کی سمجھ میں کچھ نہ آتا اور وہ سر ہلا کر آگے بڑھ جاتا۔ ہماری نا سمجھی اور سر ہلا کر آگے بڑھنے کے چکر میں ایسے کتنے ہی ”بابا“ اور ”بابیوں“ کے کاروبار چمکے اور اندھے اعتقاد کے سہارے مضبوط ہو چکے ہیں۔ آج کل وہ تیز قدموں سے دوڑ رہے ہیں۔

حب ،پی بی 21 میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے دوران فائرنگ ، 2افراد جاں بحق، 12زخمی

آلو میں گوشت کی بوٹیوں کا سائز کیا ہونا چاہیے۔ مصالحے میں ٹماٹر پہلے ڈالنا تھے یا ادرک۔ کتاب دائیں ہاتھ سے پکڑ کر فیل ہونے کی بنیادی وجوہات۔ پنسل تراشنے کا طریقہ، سیاہی بھرنے اور ماتھے پہ محراب بنانے کے عملیات سے لے کر بستر سے اٹھنے اور پلیٹ میں چمچ رکھنے کا درست طریقہ۔ یوں لگتا ہے کہ اس سے پہلے انسان نے کبھی پکا ہوا کھانا نہیں کھایا تھا اور وہ جنگل کی تہذیب میں جی رہا تھا۔ زندگی مختصر ہے اور اس پہ دیسی، ولایتی، مذہبی، نیم مذہبی، بچگانہ، مردانہ، زنانہ کے تمام تر نیم جاہل بابائے ضمیمہ جات دیکھ کر خیال گزرتا ہے کہ یاں پاؤں کو رکھ دیکھ کر اور خوف سے گزران کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔سب سے خطرناک کم عمر" بابے اور بابیاں " ہیں۔گرگٹ اور ہشت پا کی طرح ہر پل رنگ بدلنے سے زیادہ رنگ دھندلانے والی حیرت انگیز تبدیلیاں ہمارے لیے عجوبہ ہیں۔ لفظوں سے زیادہ چیخ پکار کا گورکھ دھندا راج دھانی کا ہنر ہے۔ یہاں وہی سچ ہے جس کا اعتبار کیا۔ وہی پیر کامل کہلاتا ہے جسے مریدوں پہ پھونکے مار کر اندھے اعتقاد کا ہنر آتا ہو۔ چھہتر برسوں سے سر جھکائے ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کہاں جانا ہے اور جدید دور میں زرد صحافت یہ سکھا رہی ہے کہ دل میں خدا نہیں بلا ہونا چاہیے۔ غنودگی کے عالم میں بھی رنگ بدلتے سانپوں نے ہمارے رستے اور رشتے کھوٹے کر دیے ہیں اور ہم بابا جی کے احتیاطی ضمیموں پر کور چڑھائے جا رہے ہیں۔ شاید ہمیں آنکھیں کھول کر دماغ بند رکھنے کے تعویذ پلائے گئے ہیں۔

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ایک اور آزاد امیدوار دوبارہ گنتی میں ہار گئے

پشت ہا پشت تجھے خون پلایا لالہ

پھر بھی رہتا ہے ترا سود بقایا لالہ

سارے بھگوان ترے حق میں کھڑے رہتے ہیں

مجھ پہ رہتا ہے کسی بھوت کا سایہ لالہ

(راجیو ریاض)

QOSHE -              کرشماتی بابے  - ڈاکٹر سعدیہ بشیر
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

             کرشماتی بابے 

37 1
14.02.2024

بابا جی اپنے کنبے سمیت تمام شعبوں میں اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ ملک کے طول و عرض میں ان کے متاثرین و مریدین موجود تھے۔مذہبی ٹچ سے لے کر صحت کے مسائل اور کھانا پکانے سے خیراتی اداروں کی معیشت کا حل ان کے اسی انگوٹھے میں موجود تھا جس پر تھوک لگا کر وہ ہوائی مہریں لگایا کرتے تھے۔ علاقے کے چھوٹے موٹے ”پیروں“ کا کاروبار ان کی اسی ہوائی مہروں پر پھلتا پھولتا تھا۔سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ جنگل کے جانور بھی ان کے پاؤں چھونے آتے تھے اور ان سے ہوائی پرچیاں لے کر وظیفے کرتے تھے۔ ان وظائف سے کئی گدھے ہائنا hyena بن گئے اور کئی بندر چیتا بن کر خوب اودھم مچاتے پائے گئے۔ وظائف کی کامیابی کے لیے بابا جی کی واحد شرط احتیاطی تدابیر تھیں۔احتیاطی تدابیر کی بھی کئی کہانیاں تھیں۔ مثال کے طور پر وظیفہ کا ایک لفظ بتا کر احتیاطی تدابیر کا ضمیمہ ہمراہ کیا جاتا۔ بابا جی نے ہر مسئلہ کے متعلق ضمیمہ جات چھپوا رکھے تھے۔جس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں عمل الٹا پڑ سکتا تھا۔ ایک شخص پیٹ میں درد کی شکایت لے کر بابا جی کے پاس آیا تو بابا جی نے اسے لیموں پانی پینے کی ہدایت کے ساتھ ضمیمہ بھی عطا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play