تحریک انصاف کو اس کے نوجوان ورکرز کے جوش، ولولے اور حوصلوں کی وجہ سے سونامی کا نام گزشتہ دہائی میں دیا گیا۔ سونامی درحقیقت سمندر کی گہرائیوں میں آنے والا زلزلہ ہے جس سے بلند و بالا عمارتوں کی بلندی والی لہریں اٹھتی ہیں اور سامنے آنے والی ہر چیز کو اُڑا لے جاتی ہیں۔ ایسے ہی ایک سونامی سے 2004ء میں 2 لاکھ اور 2011ء میں 20 ہزار انسان لقمہ ئ اجل بنے تھے، مگر8فروری کو آنے والے سونامی نے انسانی جانوں کی بھینٹ نہیں لی البتہ وہ بڑے بڑے برگد کے درخت جو ”طاقتوروں“ کی طاقت سے خود کو ناقابل ِ شکست سمجھتے تھے، ایسے زمین بوس ہوئے ہیں کہ اب ان کی جڑوں کو دوبارہ اُگانا طاقتوروں کے لئے بھی مشکل کام ہو ا۔ خیر طاقتور ہر مشکل کو آسان کرنے کی ”بین الاقوامی شہرت“ رکھتے ہیں۔ دیکھتے ہیں یہ برگد وہ دوبارہ کیسے کھڑے کرتے ہیں۔ سونامی نے یہ کارنامہ ایسی حالت میں انجام دیا ہے کہ ان کی ٹانگوں میں زنجیریں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا دی گئی تھیں، زبان بندی کردی گئی تھی، الیکٹرانک میڈیا پر سونامی کا نام لینا بھی ناممکن تھا، جلوس، جلسوں اور ریلیوں کی اجازت نہیں تھی، یعنی فری سٹائل کشتی کے رنگ میں ”دیوہیکل“ برگدوں کے سامنے آزمودہ پہلوانوں کی بجائے کپتان کے نوآموز سپاہی تھے، مگر داؤ پیچ سے ناآشنا کپتان کے سپاہیوں کے پیچھے سونامی کی طاقت تھی، جس نے وہ تخت زمین بوس کئے جن کو کاٹنا لکڑہارے کے کلہاڑے کے بس کی بات نہیں تھی۔

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ایک اور آزاد امیدوار دوبارہ گنتی میں ہار گئے

8 فروری کے سونامی نے پاکستانی سیاست میں جو تباہی برپا کی ہے اس کی ”مثال متحدہ پاکستان“ میں قائم ہوئی تھی جب اس وقت کی نومولود سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اسی طرح بڑے بڑے برگد گرائے تھے۔ لاہور شہر میں جماعت اسلامی کے جناب میاں طفیل محمد، شاعر مشرق اور پاکستان کا خواب دیکھنے والے علامہ اقبالؒ کے صاحبزادے جسٹس (ر) جاوید اقبال اور دیگر بڑے بڑے نام ذوالفقار علی بھٹو، ملک معراج خالد، احمد رضا قصوری، شیخ رشید احمد اور ڈاکٹر مبشر حسن سے شکست کھا گئے تھے۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ بھٹو کے کھمبے بھی جیت گئے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ وہ کھمبے پھر جیت گئے ہیں، مگر 2024ء کے الیکشن اور 1970ء کے انتخابات میں بہت فرق ہے، وہ پہلے ”عام انتخابات“ تھے اور یہ 13 ویں عام انتخابات تھے۔ آج ہارنے والے الیکشن لڑنے کا اتنا تجربہ رکھتے ہیں کہ ان کے سامنے کھڑا ہونا مشکل کام تھا، مگر اڈیالہ کے ”قیدی نمبر 804“ کی محبت میں اس قوم نے وہ کام کر ڈالا، جس کی ”طاقتوروں“ کو توقع بھی نہیں تھی۔ چنانچہ ہنگامی بنیادوں پر ”پلان ایف“ بنانا پڑا۔ جلدی کے پلان میں غلطیاں تو ہوتی ہیں، مگر یہاں ہونیوالی فاش غلطیوں نے ”کھیل خراب“ کردیا ہے۔ فارم 45 میں ہونے والی گڑ بڑ کا تجربہ تو بہت ”لمبا چوڑا“ تھا مگر فارم 47 ”بھرنے“ میں ہونے والی غلطیوں نے کھیل خراب کیا ہے تو ٹھیک کرنا بھی آتا ہو گا، کھیل تو ٹھیک ہو جائے گا، مگر پرانے اور تجربہ کار کھلاڑیوں کی جو عزت سرِ بازار اُتری ہے اس کی بحالی کیسے ہو گی۔

بڑی خوشخبری ، پنجاب کابینہ نے طلبہ کو بلا سود الیکٹرک بائیکس دینے کی منظوری دیدی

بڑے بڑے برگد اور ان پر ”گھونسلہ“ بنانے والے پرندے پریشان ہیں کہ ان کے دانہ پانی کا اب کیا بنے گا؟ اب ان پرندوں کو دانہ دنکا چگنے کے لئے نئے ”کھیت“ تلاش کرنے ہوں گے، طاقتوروں نے تو گرنے والے برگدوں کی جگہ نئے برگد لگانے کا عمل شروع بھی کر دیا ہے۔ پنجاب میں برگد لگانا چونکہ ہمیشہ سے آسان رہا ہے کہ مشہور زمانہ ”عالم لوٹا“ کا تعلق بھی پنجاب کی زرخیز زمین سے تھا لہٰذا ”لوٹا سازی“ شروع ہوچکی ہے دیکھتے ہیں کہ کس عروج تک جائے گی، مگر تجربہ کاروں کی کمی دور کرنے میں وقت لگے گا۔

جنسی ہراسانی کا الزام‘ علی ظفر نے میشا شفیع کو معاف کردیا

گرنے والے برگد قوم کو بری طرح یاد آرہے ہیں۔ سب سے طاقتور اور گھنا برگد یقینا جناب میاں نواز شریف تھے، جنہیں ان کے داماد کے گھر میں شہزادہ گستاسپ خان نے 25 ہزار ووٹوں سے ہرایا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں میں جناب بلاول بھٹو، جناب فضل الرحمن، جناب سراج الحق، جہانگیر ترین، جناب سعد رضوی، اویس نورانی، محمود خان اچکزئی، ایمل ولی خان بھی وہ تناور درخت تھے جو سونامی میں گر گئے۔ گرنے والے برگدوں میں سابق وزرائے اعلیٰ جناب پرویز الٰہی (پنجاب)، پرویز خٹک، محمود خان، امیر حیدر ہوتی(خیبرپختونخوا)، عبدالمالک بلوچ، نواب ثناء اللہ زہری (بلوچستان) بھی شامل ہیں۔ متعدد بار الیکشن جیتنے والے وفاقی وزراء کی بھی لمبی لائن ہے جو اس بار سونامی میں گر پڑے۔ ان ہارنے والوں میں رانا ثناء اللہ، خواجہ سعد رفیق، چودھری نثار، غلام سرور خان، برجیس طاہر، غلام احمد بلور، مرتضیٰ جاوید عباسی (سابق ڈپٹی سپیکر)، عابد شیر علی (میاں نوازشریف کے قریبی عزیز)، آفتاب شیر پاؤ، خرم دستگیر خان، میاں جاوید لطیف، شیخ رشید احمد (پنڈی والے) بھی شامل ہیں۔ دیگر معروف ناموں میں لاہور سے ڈاکٹر یاسمین راشد جو میاں نوازشریف سے ہاریں، مگر ان کے چاہنے والے نہیں مانتے، ان کا کہنا ہے میڈم جیت چکی ہیں، جسے شک ہے فارم 47 پڑھ لے۔ یاسمین راشد کی جیل کی ساتھی عالیہ حمزہ کی شکست کو بھی کوئی تسلیم نہیں کر رہا، کھلاڑی کہتے ہیں حمزہ شہبازشریف کو جتوانے کے لئے عالیہ حمزہ کو ہرایا گیا ہے۔ شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو قریشی بھی ہار گئیں۔ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سہیلی فرح گوگی کے سسر چودھری محمد اقبال جو 8 مرتبہ جیت چکے تھے، اس بار سونامی کے سامنے ٹھہر نہیں سکے۔ باغبانپورہ (لاہور) کے آرائیوں کو ”ٹف ٹائم“ دینے والے شیخ روحیل اصغر بھی اس سیلاب میں بہہ گئے۔ پی ڈی ایم کو کھری کھری سنانے والی سائرہ بانو، لیگی قیادت کے قریبی رانا مشہود اور میاں محمد نعمان، پیر اسلم بودلہ، حنا ربانی کھر کے بھائی رضا ربانی کھر اور دیگر بھی سونامی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ یہ ”پارلیمانی اموات“ بذریعہ ووٹ ہوئی ہیں۔ ان کے بعد اب عدالتوں میں مقابلہ شروع ہوچکا ہے، دیکھتے ہیں سونامی کے کتنے ”زخمی“ زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑیں گے۔

پی ایس ایل9، ٹرافی کی رونمائی کردی گئی

QOSHE -           سونامی آگیا……برگد گرا گیا……! - سید شعیب الدین احمد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

          سونامی آگیا……برگد گرا گیا……!

13 0
14.02.2024

تحریک انصاف کو اس کے نوجوان ورکرز کے جوش، ولولے اور حوصلوں کی وجہ سے سونامی کا نام گزشتہ دہائی میں دیا گیا۔ سونامی درحقیقت سمندر کی گہرائیوں میں آنے والا زلزلہ ہے جس سے بلند و بالا عمارتوں کی بلندی والی لہریں اٹھتی ہیں اور سامنے آنے والی ہر چیز کو اُڑا لے جاتی ہیں۔ ایسے ہی ایک سونامی سے 2004ء میں 2 لاکھ اور 2011ء میں 20 ہزار انسان لقمہ ئ اجل بنے تھے، مگر8فروری کو آنے والے سونامی نے انسانی جانوں کی بھینٹ نہیں لی البتہ وہ بڑے بڑے برگد کے درخت جو ”طاقتوروں“ کی طاقت سے خود کو ناقابل ِ شکست سمجھتے تھے، ایسے زمین بوس ہوئے ہیں کہ اب ان کی جڑوں کو دوبارہ اُگانا طاقتوروں کے لئے بھی مشکل کام ہو ا۔ خیر طاقتور ہر مشکل کو آسان کرنے کی ”بین الاقوامی شہرت“ رکھتے ہیں۔ دیکھتے ہیں یہ برگد وہ دوبارہ کیسے کھڑے کرتے ہیں۔ سونامی نے یہ کارنامہ ایسی حالت میں انجام دیا ہے کہ ان کی ٹانگوں میں زنجیریں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا دی گئی تھیں، زبان بندی کردی گئی تھی، الیکٹرانک میڈیا پر سونامی کا نام لینا بھی ناممکن تھا، جلوس، جلسوں اور ریلیوں کی اجازت نہیں تھی، یعنی فری سٹائل کشتی کے رنگ میں ”دیوہیکل“ برگدوں کے سامنے آزمودہ پہلوانوں کی بجائے کپتان کے نوآموز سپاہی تھے، مگر داؤ پیچ سے ناآشنا کپتان کے سپاہیوں کے پیچھے سونامی کی طاقت تھی، جس نے وہ تخت زمین بوس کئے جن کو کاٹنا لکڑہارے کے کلہاڑے کے بس کی بات نہیں تھی۔

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ایک اور آزاد امیدوار دوبارہ گنتی میں ہار گئے

........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play