افسوس کہ ہم نے نابغہ روزگار شخصیات کو ان کا جائز مقام نہیں دیا، ان کے بارے میں عجیب عجیب بحثیں چھیڑ دی گئی ہیں اور رسومات نے تو خیر ان کو بالکل ہی متنازعہ بنا دیا ہے۔ کاش ہم سب تعصب کی عینک اتار کر اور بلاتفریق مسالک ان کی تعلیمات کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے تو پتہ چلتا کہ آج ہم کن چکروں میں پڑ گئے ہیں۔ رجب المرجب کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی کونڈے پکانے اور نہ پکانے کی بحث زور پکڑ جاتی ہے۔ پکانے والے پکا پکو کے کھا پی جاتے ہیں اور بحث کرنے والے کھپ کھپا کر رجب کا مہینہ گزار دیتے ہیں۔ اصل بات کی طرف کوئی بھی نہیں جاتا۔ ہم فروعات پر بات کرنے کے عادی ہو چکے ہیں اور اصل کا معاملہ ہماری نظر سے مکمل طور پر اوجھل ہو گیا ہے۔ ہمیں شعوری طور پر اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہے کہ اصل کی بابت جاننا کتنا ضروری ہے۔ کاش ہم اس بات کی اہمیت کو جان جاتے تو شاید رسومات کے سلسلے میں افراط وتفریط کا شکار نہ ہوتے۔

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ کامیاب ہونے والے 2 امیدواروں نے کس جماعت میں شمولیت کا اعلان کر دیا؟ بڑی خبر

حضرت امام حسین کی شہادت اتنا بڑا سانحہ تھا جس نے ساری مسلمان قوم کو مجموعی طور پرمغموم بھی کردیا تھا اور نادم بھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک مختلف انداز سے غم حسین کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کوئی اس پر ماتم کرتا ہے۔ کوئی محض آنسو بہاتا ہے۔ کسی کو تو باقاعدہ چپ لگ جاتی ہے اور کوئی مجالس کروا کر ذکر حسین سے اپنے دکھ درد کا مداوا کرتا ہے۔ ہر آنکھ کسی نہ کسی طرح اشکبار ہے۔ ان کے فرزند ارجمند امام زین العابدین اور امام باقر نے مذکورہ واقعہ بچشم خود دیکھا تھا اور پھر ان کی بقیہ زندگی میں ان دونوں اور خصوصا امام سجاد کی کیفیات غم و اندوہ کسی سے نہ دیکھی گئیں۔ وہ اپنے رب کی طرف اس یکسوئی سے راغب ہوئے کہ زین العابدین اور سجاد کہلائے۔ کسی آنکھ نے ان کو کبھی ہنستے یا مسکراتے نہیں دیکھا تھا۔ جبر اور ظلم آپ کو آواز اٹھانے سے روک سکتا ہے لیکن اپنے ہی حلقے میں خوشی منانے سے تو نہیں روک سکتا۔ مجموعی طور پر امت مسلمہ کے دل آئمہ اہل بیت کے ساتھ تھے۔ یہ وہ پس منظر تھا جب جعفر بن باقر 702ء میں پیدا ہوئے اور خاندان رسول کے ہاں بچہ پیدا ہونے پر لوگوں نے خوشی منائی۔ اس خوشی منانے کی آج مروجہ شکل کونڈے پکانا ہے۔ کتابوں سے ہمارا واسطہ ختم ہو چکا ہے اور امام مذکور کتابوں میں گم ہو گیا ہے۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ایسی شخصیات کے تذکروں پر ہمارے منہ لٹک جاتے ہیں حالانکہ یہی منہ لے کر ہم نے ایک دن اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش ہونا ہے۔

پشاور کے نجی ہسپتال میں زیر علاج محسن داوڑ کی حالت اب کیسی ہے، نجی ٹی وی سے گفتگو میں کیا کہا ؟

میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سمجھنے کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہ کی حیات طیبہ اور ان کے علمی معیارکا جائزہ لینا ضروری ہے۔ بنیادی طور پر حصول علم کا مقصد خیر وشر، نیکی و معصیت اور سعادت و شقاوت کا شعور حاصل کرنا ہے اور مذکورہ چیزوں کے بارے میں عوام الناس میں اندر تبلیغ کا کام کرنا ہے۔ علم و حکمت بعد از نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پہچان ہے۔ ان کی اولاد نے بھی علمی طور پر کارہائے نمایاں سر انجام دیئے۔ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسلام میں حرمت بیعت کی جس طرح تشریح وتوضیح کی ہے اس کی مثال کائنات عالم میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ باقر کے لغوی معنی ہی بال کی کھال اتارنے والا ہوتا ہے اورجعفر بن باقر کا علمی مقام اور پھر انکی اس سلسلے میں علمی و فقہی خدمات تاریخ کا درخشندہ باب ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو علم کا کام کرنے کے لئے وقف کردیا تھا۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد چار ہزار بتائی جاتی ہے۔ جن میں سے انس بن مالک، سفیان ثوری، امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام نووی اور جابر بن حیان قابل ذکر ہیں۔ ان کے شاگردوں نے قرآن، حدیث، فقہ، منطق اور سائنس کے شعبوں میں اپنا بڑا نام کمایا۔ آپ نے صرف علم کے میدان میں ہی کام نہیں کیا بلکہ عملی طور پر بھی کام کر کے دکھایا اور لوگوں کی مکمل تعلیم وتربیت کرنے کا حق ادا کیا۔ ایک دفعہ قحط کا خطرہ پیدا ہوگیا اور انہوں نے اپنے مدرسے کے غلہ کے انچارج کو بلا کر اناج کی بابت معلوم فرمایا جس پر ان کو بتایا گیا کہ وافر مقدار میں غلہ موجود ہے۔ آپ نے حکم دیا کہ سارا اناج فروخت کردیا جائے یا سارا اناج خیرات کردیا جائے ہم لوگوں کی طرح قحط کا سامنا کریں گے۔ اس سے ذخیرہ اندوزی کی بابت کتنا زبردست پیغام دیا گیا ہے۔ معاشرے میں اخوت اور بھائی چارے کا تصور اسلام میں موجود ہے جس کی مثال مواخات مدینہ کے باب میں دیکھی جا سکتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص آپ کو ایسی بات بتائے جو آپ کے بھائی سے منسوب ہو اور آپ کے خلاف ہو۔ آپ اس پر ایک سے ستر دلیلیں نکال کر ذہن بنائیں کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا اور اگر پھر بھی یہ ثابت نہ ہو تو صرف یہ سمجھ لیں کہ آپ کی سمجھ سے یہ بات بالا تر ہے ورنہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ کے بھائی نے ایسا کیا ہو۔ آپ نے معاشرے میں بگاڑ کو ختم کرنے اور لوگوں میں ایک دوسرے کے لئے ادب و احترام کے جذبات پیدا کرنے کے لئے فرمایا کہ ایک شریف انسان کے لئے چار چیزیں لازم ہیں۔ وہ اپنے باپ کی تعظیم کرے استاد کا احترام کرے۔ مہمان کی پوری نگہداشت کرے اور اس کی سواری کی حفاظت کرے اور کسی کے احترام میں اپنی جگہ سے اٹھنے میں عار نہ محسوس کرے۔ آپ کے ہم عصر حکمران ہمیشہ آپ سے خائف رہتے تھے اور آپ کے ہاں سوائے خدائے بزرگ و برتر کسی کا کوئی خوف نہیں تھا۔ ایک دفعہ آپ کسی ایسی جگہ تشریف لے گئے جہاں عباسی خلیفہ ابومنصور بھی موجود تھا اور اس کے جسم پر ایک مکھی بھنبھنا رہی تھی۔ اس صورتحال سے تنگ آکر اس نے امام مذکور سے پوچھا کہ مکھی کی تخلیق میں کیا حکمت خداوندی ہو سکتی ہے۔ آپ نے برجستہ جواب دیا تاکہ آپ کو ذلیل کرے۔ وہ اپنا سا منہ لے کے رہ گیا۔

بلاول بھٹو کی ایک اور امریکی شخصیت سے ڈیڑھ گھنٹہ تک اہم ملاقات

اموی تو اموی تھے عباسی خلیفہ بھی خاندان اہلبیت سے شقاوت قلبی رکھتے تھے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کو کئی دفعہ دربار میں طلب کیا جاتا تھا اور آپ ہمیشہ ان کے معاندانہ رویے اور گھٹیا حرکات پر صبر کرتے تھے۔ آپ نے اپنے آپ کو علم وحکمت کی ترویج واشاعت کیلئے وقف کیا ہوا تھا۔ مدینہ میں دور دور سے لوگ آکر آپ سے کسب فیض حاصل کرتے تھے آپ نے لوگوں میں شعور اور آگاہی بیدار کرنے کی بھی پوری کوشش کی یوں آپ نے علمی و فقہی میدان میں اپنے آپ کو وارث علوم مصطفے و مرتضے ثابت کیا۔ آپ کی تیار کی ہوئی علماء و صلحاء و فقہاء و صوفیا کی ٹیم ہی تو تھی جس نے پوری دنیا میں جا جا کر جہالت اور گمراہی کے اندھیروں میں علم وفضل و معرفت کے چراغ جلائے اور تفقہ فی الدین کی عملی تفسیر پیش کی۔ انہیں بنیادوں پر آنے والے دنوں میں قیاس واجتہاد و اجماع کی عمارت تعمیر ہونا تھی مگر افسوس ہم کو جمود پن، انحطاط، بے راہروی، تقلید اور فرقہ پرستی کی بیماریوں نے گھیر لیا اور ہم ایک دوسرے کے پیچھے پڑ گئے۔ پیچھے چلنے والے مقلد وتابع تو ہو سکتے ہیں راہبر وراہنما نہیں۔ جاہل، اجڈ اور ناہنجار تو ہو سکتے ہیں عالم، فاضل اور سائنسدان نہیں۔ شعلہ بیان مقرر تو ہو سکتے ہیں مبلغ و مفکر و مفسرنہیں۔ متشدد و فتنہ پرور تو ہو سکتے ہیں شارح و قانون ساز نہیں۔ عمال وحکمران تو ہو سکتے ہیں منصف وثالث نہیں اور جنگجو، سپہ سالار اور فاتح تو ہو سکتے ہیں صالح و مصلح نہیں۔ دنیا چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات اور داناء اور بینا اندھیرے کو اجالے میں بدلنے کے لئے اپنے چراغوں میں تیل کی بجائے اپنا خون استعمال کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے اور خون سے جلائے گئے چراغوں کو گل کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ بغض، حسد، منافرت اور کینہ پروری نے بے شمار لوگوں کی دنیا اور آخرت خراب کی ہے۔ عباسی خلیفہ منصور ہمیشہ آپ کی شہرت اور مقبولیت سے خوفزدہ رہتا تھا اس لئے اس نے اپنے گورنر کے ذریعے تحفے میں زہر آلود انگور بھجوائے جس کے کھانے سے آپ کا 765ء میں وصال ہو گیا اور آپ کو جنت البقیع مدینہ المنورہ میں اپنے آباباء_ کے پہلو میں دفن کردیا گیا۔ آپ نے دنیا والوں کو معرفت الہی کا درس دیا اور اللہ اور رسول سے عشق و محبت ان میں ذوق شوق اور جذبہ پیدا کیا اور ان کے درمیان دین مبین کی تعلیمات کو عام کیا۔

محمد عامر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کےلیے سود مند ثابت ہوں گے: سرفراز احمد

QOSHE -          امام جعفر صادق۔۔۔ان کا علمی مقام و مرتبہ - شفقت اللہ مشتاق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         امام جعفر صادق۔۔۔ان کا علمی مقام و مرتبہ

13 0
12.02.2024

افسوس کہ ہم نے نابغہ روزگار شخصیات کو ان کا جائز مقام نہیں دیا، ان کے بارے میں عجیب عجیب بحثیں چھیڑ دی گئی ہیں اور رسومات نے تو خیر ان کو بالکل ہی متنازعہ بنا دیا ہے۔ کاش ہم سب تعصب کی عینک اتار کر اور بلاتفریق مسالک ان کی تعلیمات کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے تو پتہ چلتا کہ آج ہم کن چکروں میں پڑ گئے ہیں۔ رجب المرجب کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی کونڈے پکانے اور نہ پکانے کی بحث زور پکڑ جاتی ہے۔ پکانے والے پکا پکو کے کھا پی جاتے ہیں اور بحث کرنے والے کھپ کھپا کر رجب کا مہینہ گزار دیتے ہیں۔ اصل بات کی طرف کوئی بھی نہیں جاتا۔ ہم فروعات پر بات کرنے کے عادی ہو چکے ہیں اور اصل کا معاملہ ہماری نظر سے مکمل طور پر اوجھل ہو گیا ہے۔ ہمیں شعوری طور پر اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہے کہ اصل کی بابت جاننا کتنا ضروری ہے۔ کاش ہم اس بات کی اہمیت کو جان جاتے تو شاید رسومات کے سلسلے میں افراط وتفریط کا شکار نہ ہوتے۔

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ کامیاب ہونے والے 2 امیدواروں نے کس جماعت میں شمولیت کا اعلان کر دیا؟ بڑی خبر

حضرت امام حسین کی شہادت اتنا بڑا سانحہ تھا جس نے ساری مسلمان قوم کو مجموعی طور پرمغموم بھی کردیا تھا اور نادم بھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک مختلف انداز سے غم حسین کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کوئی اس پر ماتم کرتا ہے۔ کوئی محض آنسو بہاتا ہے۔ کسی کو تو باقاعدہ چپ لگ جاتی ہے اور کوئی مجالس کروا کر ذکر حسین سے اپنے دکھ درد کا مداوا کرتا ہے۔ ہر آنکھ کسی نہ کسی طرح اشکبار ہے۔ ان کے فرزند ارجمند امام زین العابدین اور امام باقر نے مذکورہ واقعہ بچشم خود دیکھا تھا اور پھر ان کی بقیہ زندگی میں ان دونوں اور خصوصا امام سجاد کی کیفیات غم و اندوہ کسی سے نہ دیکھی گئیں۔ وہ اپنے رب کی طرف اس یکسوئی سے راغب ہوئے کہ زین العابدین اور سجاد کہلائے۔ کسی آنکھ نے ان کو کبھی ہنستے یا مسکراتے نہیں دیکھا تھا۔ جبر اور ظلم آپ کو آواز اٹھانے سے روک سکتا ہے لیکن اپنے ہی حلقے میں خوشی منانے سے تو نہیں روک سکتا۔ مجموعی طور پر امت مسلمہ کے دل آئمہ اہل بیت کے ساتھ تھے۔........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play