آج 8 فروری 2024 ء،27 رجب المرجب 1445 ھ ہے جبکہ ماگھ کی 25 تاریخ اور جمعرات کا دن ہے۔پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق اس وقت صبح کے 9 بجکر 20 منٹ ہو چکے ہیں۔ملکی تاریخ کے سب سے بڑے انتخابات کی پولنگ کا عمل شروع ہوئے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا ہے جو کہ بلا تعطل شام 5 بجے تک جاری رہے گی۔ملک بھر کے 855 قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں میں مجموعی طور پر 17 ہزار 816 امیدواروں میں سے اپنا نمائندہ چُننے کیلئے ووٹر ز گھروں سے نکل آئے ہیں۔عام انتخابات کیلئے پورے پاکستان میں 90 ہز ار 675 پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن میں سے 27 ہزار 628 پولنگ سٹیشن حساس اور 18 ہزار 437 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔پُر امن ماحول میں الیکشن 2024 ء کا انعقاد یقینی بنانے کیلئے سیکورٹی فورسز کے 5 لاکھ اہلکاروں نے سیکورٹی ذمہ داریاں سر انجام دیں۔ ان میں پولیس پہلے درجے پر، پھر پیرا ملٹری فورسز اور آخری درجے پر پاک فوج نے بطور کوئیک رسپانس فورس ذمہ داری نبھائی۔

عام انتخابات کے انعقاد کے بعد آرمی چیف نے قوم کیلئے پیغام جاری کر دیا

ان سطور کے شائع ہونے تک پورے ملک سے انتخابات کے نتائج برآمد ہو چکے ہوں گے اور انتخابات میں کامیابی کے حوالے سے تمام بڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں کی پارٹی پوزیشن کسی حد تک واضح ہو چکی ہوگی۔ انتخابات میں کامیابی کے بعدحکومت سازی کے تمام مراحل، آزاد امیدواروں کے جوڑ توڑ اور دیگر دلچسپ سیاسی معاملات پر تو آنیوالے کالموں میں تبصرے ہوتے رہیں گے۔تاہم آج کے کالم کا موضوع عام انتخابات کا پرُامن انعقاد ہے جو بذات خود ریاست پاکستا ن کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے، جس کیلئے انتخابات کو عملی جامہ پہنانے والے تمام ادارے مبارکباد کے مستحق ہیں۔

انتخابات کے بعد حکومت بنانے کی دوڑ، ایم کیوایم نے بھی بڑا اعلان کر دیا

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) حکومت کی آئینی مدت گزشتہ برس اگست میں ختم ہو گئی تھی۔ پی ڈی ایم حکومت کے وزیر اعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر صدر عارف علوی نے 9 اگست 2023 ء کی شام قومی اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔ جس کے بعد نگران سیٹ اپ نے 90 روز کے اندر الیکشن کروانے تھے تاہم مختلف وجوہات کی بناء پر الیکشن کی تاریخ پر تاریخ ملتی رہی اوراب بالآخر پاکستان کی تاریخ کے بارہویں عام انتخابات کا مرحلہ کامیابی کے ساتھ طے کیا جا چکا ہے۔جو بذات خود بہت بڑی کامیابی اس لئے ہے کہ اس کے نتیجے میں ملک میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری سیاسی عدم استحکام ختم ہو گا کیونکہ سیاسی عدم استحکام سے معاشی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہوتی ہیں، سٹاک مارکیٹس، غیر ملکی سرمایہ کاری، صنعت سازی و دیگر کاروباری سرگرمیاں تو براہ راست سیاسی استحکام سے منسلک ہیں، ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں کو عوام کی طرف سے اگلے پانچ برس تک کام کرنے کا مینڈیٹ دیا جائیگا اور اگر آئندہ بننے والی حکومتوں کی راہ میں کوئی رکاوٹیں نہ ڈالی گئیں تو قومی امید ہے کہ ان پانچ برسوں میں معاملات میں بہتری آئیگی اور کسی نہ کسی حد تک سمت کا تعین ممکن ہو سکے گا۔

استحکام پاکستان پارٹی کی رہنما ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے خلاف مقدمہ درج

ظاہر ہے نگران حکومتوں کی آئینی ذمہ داری بروقت الیکشن کا انعقاد ہے اور قائمقام سیٹ اپ میں قومی سطح کے ترقیاتی منصوبے، پالیسی سازی و دیگر اصلاحات نہیں ہوتیں کیونکہ نگرانوں کے پاس نہ اس کا کوئی تجربہ ہوتا ہے اور ہی ترجیح، جبکہ الیکشن سر پر ہونے کے باعث کام کرنے کا ماحول بھی نہیں ہوتا۔سیاسی ہلچل میں حکومتی مشینری سیاستدانوں کے جلسے جلوس اور ریلیوں کی سیکورٹی و دیگر معاملات میں مصروف رہتی ہے اور ہر اہم کام آئندہ حکومت پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔تاہم موجودہ نگران سیٹ اپ سے قبل پی ڈی ایم کا 16 ماہ پر محیط دور بھی عوام اور معیشت کیلئے بہت مشکل تھا، اس عرصے میں مہنگائی کی تاریخی لہر اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری میں بے پناہ اضافہ ہوا۔اس سے قبل عمران خان کے تقریباً پونے چار سالہ دور میں بھی ملک کے اندر سیاست، معیشت، صنعت و حرفت اور کاروبار میں جس طرح کی تباہی پھری وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے اس مختصر عرصے میں جتنے بیرونی قرضے لئے اتنے گزشتہ 71 برسوں میں نہیں لئے گئے لیکن اس کے باوجود ملک میں کوئی ایک میگا پراجیکٹ نہیں لگا۔

این اے 264:جمال رئیسانی نے اختر مینگل کو ہرادیا

اگست 2018ء میں جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو پاکستانی عوام پر امید تھے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان اپنے متعدد وعدوں اور دعووں کو عملی جامہ پہنائیں گے جن کے تحت پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ، احتساب اور بیرون ملک سے کرپشن کے پیسے کی واپسی، بیرونی قرضوں میں کمی، اداروں خصوصاًپولیس کی اصلاحات، جنوبی پنجاب صوبہ، وزیر اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی کا قیام، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں کے ساتھ ساتھ ملک میں معاشی ترقی کے ایک نئے باب کا آغاز ہونا تھا۔ لیکن الیکشن سے قبل اور دھرنوں کے دوران کئے گئے یہ وعدے وفا نہ ہو سکے اور تمام معاشی اعشارئے اس سے برعکس نکلے۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے بائیسویں وزیر اعظم عمران خان ملک کی تاریخ کے پہلے وزیر اعظم بنے جن کیخلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور اسی خراب کارکردگی کا نتیجہ تھا کہ جس ایوان میں موجود اراکین کے ووٹوں سے انہوں نے اقتدار سنبھالا تھا انہی ممبران نے تحریک عدم اعتماد میں حزب اختلاف سے ہاتھ ملا کر انہیں گھر بھیج دیا۔ اس سے قبل 2013 ء کے عا م انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنیوالی حکومت کے منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو جس طرح نکالا گیااور جیسے پی ٹی آئی کی نا تجربہ کار حکومت کو پلیٹ میں رکھ کراقتدار سونپا گیا اس کے تمام کردار اب عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکے ہیں۔

برطانیہ نے پاکستان کے انتخابات میں شفافیت سے متعلق تحفظات کا اظہار کر دیا

بہرحال، ملک میں گزشتہ کئی برس سے جاری سیاسی بحران نے کاروباراور معیشت کو برباد کر دیا ہے جبکہ بے روزگاری، مہنگائی اور معاشی بد حالی نے عوام سے دو وقت کی روٹی کا حصول تک مشکل بنا دیا ہے۔ ان حالات میں کامیابی سے الیکشن کا انعقاد بہتری کی امید لے کر آیا ہے۔ اللہ کرے اس کے نتیجے میں بننے وال حکومت کو عوامی مینڈیٹ کے مطابق پانچ سال کام کرنے کا موقع مل سکے اور ملک میں ترقی و خوشحالی کا دور آئے اور عوام کے دکھ، درد اور تکلیفوں کا کسی حد تک مداوا ہو سکے۔

QOSHE -         دن گنے جاتے تھے جس دن کیلئے - صبغت اللہ چودھری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        دن گنے جاتے تھے جس دن کیلئے

16 0
10.02.2024

آج 8 فروری 2024 ء،27 رجب المرجب 1445 ھ ہے جبکہ ماگھ کی 25 تاریخ اور جمعرات کا دن ہے۔پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق اس وقت صبح کے 9 بجکر 20 منٹ ہو چکے ہیں۔ملکی تاریخ کے سب سے بڑے انتخابات کی پولنگ کا عمل شروع ہوئے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا ہے جو کہ بلا تعطل شام 5 بجے تک جاری رہے گی۔ملک بھر کے 855 قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں میں مجموعی طور پر 17 ہزار 816 امیدواروں میں سے اپنا نمائندہ چُننے کیلئے ووٹر ز گھروں سے نکل آئے ہیں۔عام انتخابات کیلئے پورے پاکستان میں 90 ہز ار 675 پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن میں سے 27 ہزار 628 پولنگ سٹیشن حساس اور 18 ہزار 437 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔پُر امن ماحول میں الیکشن 2024 ء کا انعقاد یقینی بنانے کیلئے سیکورٹی فورسز کے 5 لاکھ اہلکاروں نے سیکورٹی ذمہ داریاں سر انجام دیں۔ ان میں پولیس پہلے درجے پر، پھر پیرا ملٹری فورسز اور آخری درجے پر پاک فوج نے بطور کوئیک رسپانس فورس ذمہ داری نبھائی۔

عام انتخابات کے انعقاد کے بعد آرمی چیف نے قوم کیلئے پیغام جاری کر دیا

ان سطور کے شائع ہونے تک پورے ملک سے انتخابات کے نتائج برآمد ہو چکے ہوں گے اور انتخابات میں کامیابی کے حوالے سے تمام بڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں کی پارٹی پوزیشن کسی حد تک واضح ہو چکی ہوگی۔ انتخابات میں کامیابی کے بعدحکومت سازی کے تمام مراحل، آزاد امیدواروں کے جوڑ توڑ اور دیگر دلچسپ سیاسی معاملات پر تو آنیوالے کالموں میں تبصرے ہوتے رہیں گے۔تاہم آج کے کالم کا موضوع عام انتخابات کا پرُامن انعقاد ہے جو بذات خود ریاست........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play