بالآخر وہ مرحلہ آ گیا جس کا اس ملک اور اس قوم نے بہت انتظار کیا ہے۔ ملک میں آج عام انتخابات ہو رہے ہیں‘ اس امید کے ساتھ کہ ان کے نتیجے میں یہاں ایک عوامی طور پر منتخب حکومت اقتدار سنبھالے گی اور بکھرے ہوئے تانے بانے کو کچھ سمیٹنے اور مرتب کرنے کی کوشش کرے گی۔ بلا شبہ خرابی بہت پیدا ہو چکی ہے اور معاملات بہت الجھ چکے ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ قومی سفر میں ہم بھٹک کر کہیں اور نکل آئے ہیں۔ جانا ہمیں کہیں اور تھا اور راستہ ہم نے کوئی اور اختیار کر لیا ہے۔ ذرا گہرائی تک سوچیں تو واقعی چکر سے آنے لگتے ہیں کہ نئی حکومت معاملات کو کیسے سیدھی ڈگر پر ڈال سکے گی۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اب بھی اگر پوری لگن اور تندہی کے ساتھ کام کیا جائے‘ اور ایمانداری کو شعار بنایا جائے تو اس بکھرے ہوئے شیرازے کو سمیٹنا‘ باندھنا‘ مرتب و منظم اور مضبوط کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن مسلسل کوشش کی جائے تو اسے ناممکن نہیں کہا جا سکتا۔

ٹانک کے علاقہ میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملہ ،ایک اہلکار شہید

میرے خیال میں چند شعبے ہیں جن پر اگلی حکومت کو سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہو گی۔ پہلا‘ حکومت کو زرعی شعبے پر فوری توجہ مرکوز کرنا ہو گی تاکہ ملک کو خوراک کے لحاظ سے خود کفیل بنایا جا سکے اور اس سرمائے کو بچایا جا سکے جو اشیائے خورونوش کی درآمدات پر خرچ ہوتا ہے۔ دوسرا‘ سمگلنگ پر کنٹرول کے لیے کام کرنا ہو گا کیونکہ نہ صرف ڈالر بلکہ خوراک کے طور پر استعمال ہونے والی اشیا بھی سمگل ہو رہی ہیں۔ اس سمگلنگ کو روکنے کے نتیجے میں بھی نہ صرف زر مبادلہ بچے گا بلکہ ملک میں پیدا کی گئی خوراک کا ٹھیک استعمال بھی ممکن ہو سکے گا۔ تیسرا‘ درآمدات اور برآمدات پر توجہ دینا ہو گی۔ درآمدات پر کنٹرول ٹھیک ہے کہ اس سے زر مبادلہ بچتا ہے لیکن یہ کنٹرول اتنا بھی زیادہ نہیں ہونا چاہیے کہ عالمی برادری کے ساتھ ہماری تجارت کا گراف بالکل ہی نیچے آ جائے۔ آج کا دور تجارتی روابط کا دور ہے۔ اگر ہم بین الاقوامی تجارت میں حصہ نہیں لیں گے تو عالمی برادری سے کٹ جائیں گے۔ ضروری اشیا کی درآمد کی اجازت ہونی چاہیے۔ برآمدات کی بات کی جائے تو اس کے لیے صنعتی سیکٹر کے ساتھ ساتھ زرعی شعبے کی استعداد بڑھانا بھی بے حد ضروری ہے۔ زرعی شعبے کی استعداد بڑھانا اس لیے ضروری ہے کہ اپنی صنعتوں کے لیے ضروری خام مال ہمیں باہر سے نہ منگوانا پڑے‘ اور ہم مقامی طور پر پیدا کئے گئے زرعی خام مال کو صنعتی پیداوار میں استعمال کر سکیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ توجہ کپاس پر دینے کی ضرورت ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک زمانے میں ہم کپاس برآمد کرتے تھے لیکن آج درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ زرعی ترقی کا تقاضا ہے کہ ہم ایک بار پھر کپاس برآمد کرنے والا ملک بنیں۔ چوتھا‘ توانائی کے سیکٹر پر توجہ مبذول کی جانی چاہیے کہ اس شعبے کی وجہ سے باقی سارے شعبے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں گیس کا استعمال مسلسل بڑھ رہا ہے لیکن اس کی پیداوار اس سے زیادہ تیزی سے کم ہو رہی ہے جبکہ گیس کے نئے ذخائر بھی اتنے وافر دریافت نہیں ہو رہے کہ ملکی ضروریات پوری کر سکیں۔ اس لیے ہمیں گیس درآمد کرنا پڑتی ہے۔ کوئی حرج نہیں‘ بہت سے دوسرے ممالک بھی گیس درآمد کر کے استعمال کرتے ہیں‘ لیکن ہمیں بجلی کی پیداوار کو فرنس آئل‘ کوئلے اور گیس سے سورج کی روشنی‘ پانی اور ہوا کی طرف منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں سارا سال ہوائیں چلتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہاں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی طرف توجہ اب تک کیوں نہیں دی گئی ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سارا سال سورج چمکتا ہے۔ اس کی روشنی سے وافر بجلی پیدا کی جا سکتی ہے‘ لیکن محدود پیدا کی جا رہی ہے۔ اور جب پانی اور بجلی کا ذکر ہوتا ہے تو ڈیموں کا ذکر ہونا بھی ضروری ہے۔ ہر حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کے دور میں فلاں فلاں ڈیم مکمل ہو جائے گا‘ لیکن ایسا ہوتا نہیں‘ اور مسلسل تاخیر کی وجہ سے نہ صرف بجلی کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے‘ بلکہ زرعی شعبے کو پانی کی دستیابی کا معاملہ بھی خرابی کا شکار ہو رہا ہے۔ ابھی پچھلے مہینے ہی یہ خبر پڑھی تھی کہ اگر جنوری میں بارشیں وافر نہ ہوئیں تو گرمیوں کے موسم میں فصلوں کے لیے پانی کی دستیابی ایک مسئلہ بن جائے گی۔ ویسے تو کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ لیکن اگر فی الوقت ایسا ممکن نہیں تو پھر ان ڈیموں کی جلد از جلد تکمیل پر توجہ دی جانی چاہیے جن کی تعمیر پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے تاکہ پانی بھی دستیاب ہو سکے اور ان سے بجلی بھی پیدا کی جا سکے۔

نوازشریف کے انتخابی حلقے میں پولنگ تاخیر سے کیوں شروع کی گئی ؟ اہم انکشاف

میرے خیال میں اگر ان چند گنے چُنے معاملات پر فوری توجہ دے لی جائے تو چند مہینوں میں اس کے مثبت اثرات سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ اب یہ اگلی حکومت پر ہے کہ وہ کیسے ان معاملات کو ہینڈل کرتی ہے‘ اور اگلی حکومت سے بھی پہلے اس کا انحصار عوام پر ہے کہ وہ کس کو منتخب کرنے کے لیے ووٹ ڈالتے ہیں‘ کس کو مینڈیٹ دیتے ہیں۔ اگر تو عوام کا وتیرہ اور طرزِ عمل ماضی جیسا ہی رہا تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ ماضی جیسے ہی حکمران سامنے آئیں گے‘ اور ماضی جیسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا‘ لیکن اگر ووٹروں نے ہوش مندی کا مظاہرہ کیا اور برادری ازم اور بریانی ازم سے اوپر اُٹھ کر ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں سوچ کر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تو اس کے مثبت اثرات سے نہ صرف وہ مستفید ہوں گے بلکہ اس کا فائدہ آنے والی نسلوں کو بھی پہنچے گا۔

موبائل فون سروس متاثر ہونے سے ای ایم ایس پر اثر پڑ سکتا ہے،مراد علی شاہ

اپنے قارئین سے پچھلے ہفتے بھی استدعا کی تھی کہ انتخابات والے دن وہ گھر پہ نہ بیٹھے رہیں‘ جس کے حق میں بھی رائے کا اظہار کرنا ہے‘ جس کو بھی ووٹ دینا ہے‘ باہر نکلیں اور ووٹ دیں۔ گھر میں بیٹھے رہنے کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ الٹا نقصان یہ ہو گا کہ وہ لوگ منتخب ہو کر آگے آ جائیں گے جنہیں وہ منتخب ہوتا نہیں دیکھنا چاہیں گے۔ آخر میں پروردگارِ عالم سے دعا ہے کہ وہ میری قوم کو ایک اچھا‘ ایماندار اور ملک اور قوم کا درد رکھنے والا حکمران عطا فرمائے تاکہ مسائل میں گھرے اس ملک کے لیے آگے بڑھنے اور ترقی کی منزل تک پہنچنے کے دروازے کھل سکیں‘ غیر یقینی صورت حال کا خاتمہ ہو سکے‘ ابہام دور ہو سکیں اور بحیثیت قوم ہم ایک واضح ڈگر پر چلنے کے قابل ہو جائیں۔

مریم اورنگزیب نے NA51مری میں اپنا ووٹ کا سٹ کردیا

QOSHE -      دُعا - محمد معاذ قریشی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

     دُعا

61 1
08.02.2024

بالآخر وہ مرحلہ آ گیا جس کا اس ملک اور اس قوم نے بہت انتظار کیا ہے۔ ملک میں آج عام انتخابات ہو رہے ہیں‘ اس امید کے ساتھ کہ ان کے نتیجے میں یہاں ایک عوامی طور پر منتخب حکومت اقتدار سنبھالے گی اور بکھرے ہوئے تانے بانے کو کچھ سمیٹنے اور مرتب کرنے کی کوشش کرے گی۔ بلا شبہ خرابی بہت پیدا ہو چکی ہے اور معاملات بہت الجھ چکے ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ قومی سفر میں ہم بھٹک کر کہیں اور نکل آئے ہیں۔ جانا ہمیں کہیں اور تھا اور راستہ ہم نے کوئی اور اختیار کر لیا ہے۔ ذرا گہرائی تک سوچیں تو واقعی چکر سے آنے لگتے ہیں کہ نئی حکومت معاملات کو کیسے سیدھی ڈگر پر ڈال سکے گی۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اب بھی اگر پوری لگن اور تندہی کے ساتھ کام کیا جائے‘ اور ایمانداری کو شعار بنایا جائے تو اس بکھرے ہوئے شیرازے کو سمیٹنا‘ باندھنا‘ مرتب و منظم اور مضبوط کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن مسلسل کوشش کی جائے تو اسے ناممکن نہیں کہا جا سکتا۔

ٹانک کے علاقہ میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملہ ،ایک اہلکار شہید

میرے خیال میں چند شعبے ہیں جن پر اگلی حکومت کو سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہو گی۔ پہلا‘ حکومت کو زرعی شعبے پر فوری توجہ مرکوز کرنا ہو گی تاکہ ملک کو خوراک کے لحاظ سے خود کفیل بنایا جا سکے اور اس سرمائے کو بچایا جا سکے جو اشیائے خورونوش کی درآمدات پر خرچ ہوتا ہے۔ دوسرا‘ سمگلنگ پر کنٹرول کے لیے کام کرنا ہو گا کیونکہ نہ صرف ڈالر بلکہ خوراک کے طور پر استعمال ہونے والی اشیا بھی سمگل ہو رہی ہیں۔ اس سمگلنگ کو روکنے کے نتیجے میں بھی نہ صرف زر مبادلہ بچے گا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play