آج پاکستان کی جمہوری تاریخ کا ایک اور اہم دن ہے،الیکشن ہو رہے ہیں مگر لوگ تذبذب کا شکار ہیں،ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں،اس کے باوجود کہ ان کی انکی سوچوں پر پہرے ہیں،ان کو بھٹکایا جا رہا ہے،کبھی کسی سروے کے ذریعے،کبھی کسی وڈیرے کے ذریعے مگر لوگ ووٹ کو ایک مقدس امانت اور فریضہ سمجھتے ہیں اس لئے اپنا ووٹ اور امیدوار ڈھونڈ رہے ہیں،انہوں نے ووٹ ضرور ڈالنا ہے۔ابراہم لنکن نے جمہوریت کو عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اورعوام کے لیے کہا تھا،ہم امریکہ کی مانتے ہیں اس لئے ابراہم لنکن کی بات پر یقین کر بیٹھے ،تاہم یہ تعریف پاکستان کی خود غرض، جوڑ توڑ والی، کنٹرول شدہ جمہوریت کے ورڑن سے بالکل متصادم ہے، یہاں جمہوریت ہمیشہ سے اشرافیہ کے مفادات سے ہم آہنگ نظر آتی ہے۔پاکستان میں جمہوریت کسی قدیم، آفاقی روایات کی پیروی کرتی نظر نہیں آتی، ہمارے ہاں سیاسی مجبوریوں کے مطابق اس کی شکل اور عادتیں تبدیل ہو جاتی ہیں،اس کے کردار اور ارادے کو بدلنے والا نظام متحرک ہو جاتا ہے، وہ ادارے اپنا کام بھول جاتے ہیں جو جمہوری شفافیت برقرار رکھنے کے لئے عوام کی ٹیکس (آمدنی سے) قائم کئے گئے۔

ٹانک کے علاقہ میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملہ ،ایک اہلکار شہید

آج ہونے والے انتخابات کو جانے مورخ کیا عنوان دے گا لیکن جو اسے بھْگت رہے ہیں ان کے لئے یہ کوئی خوشگوار تجربہ نہیں، مسلم لیگ نواز کے سوا سبھی جماعتیں لیول پلئینگ فیلڈ طلب کر تی رہیں،جو گزرے کل میں ساتھی تھے انہیں سمجھا بجھا لیا گیا جو معتوب ہیں وہ آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ دعائیں اور بد دعائیں اسی سمت سفر کرتی ہیں۔

جمہوریت کی اینٹ شفافیت پر رکھی گئی، جہاں عوامی اقتدار کو شفافیت نہیں ملتی وہ نظام اپنا کوئی دوسرا نام رکھ لیتا ہے، مسولینی کی جمہوریت کو اسی لئے فاشزم کا نام ملا،ہمارے ہاں شفافیت برقرار رکھنے کا فریضہ آئین نے الیکشن کمیشن کو سونپا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک آزاد، خودمختار، مستقل اور آئینی طور پر قائم کردہ وفاقی ادارہ ہے جو انتخابات کے لئے انتظامات کا ذمہ دار ہے، حلقوں کی حد بندی اور انتخابی فہرستوں کی تیاری بھی اس کا کام ہے، پاکستان کے آئین میں بیان کردہ اصولوں کے مطابق، الیکشن کمیشن اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضرورت کے مطابق انتظامات کرتا ہے کہ انتخابات ایمانداری، انصاف کے ساتھ، منصفانہ اور قانون کے مطابق ہوں اور انتخابی عمل میں کسی بھی طرح کی بدعنوانی کو روکا جائے۔

نوازشریف کے انتخابی حلقے میں پولنگ تاخیر سے کیوں شروع کی گئی ؟ اہم انکشاف

پاکستان کا الیکشن کمیشن 23 مارچ 1956 کو تشکیل دیا گیا تھا اور پاکستان کی پوری تاریخ میں کئی بار اس کی تشکیل نو اور اصلاحات کی گئی ہیں،73ء کے آئین کے تحت الیکشن کمیشن مکمل طور پر مالی خودمختاری کا حامل اور ہر قسم کے حکومتی کنٹرول سے آزاد ہے،یہ حکومتی مداخلت کے بغیر اپنے فرائض انجام دیتا ہے اور ملک گیر عام انتخابات کے انعقاد کے ساتھ ساتھ ضمنی انتخابات کے لیے بھی انتظامات کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن پولنگ سکیمیں تیار کرتا ہے، پولنگ عملے کا تقرر کرتا ہے، ووٹرز کو ترغیب دیتا ہے اور امن و امان کی بحالی کا انتظام کرتا ہے۔الیکشن کمیشن بمقابلہ جاوید ہاشمی کیس میں اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ انتخابی معاملات میں الیکشن ٹربیونلز جن کا تقرر چیف الیکشن کمشنر نے کرنا ہے اس کا خصوصی دائرہ اختیار ہے اور ایسے معاملات میں تمام عدالتوں کا دائرہ اختیار خارج کر دیا گیا ہے۔ تاہم، یہ ایک استثناء کے ساتھ مشروط ہے کہ جب انتخاب کے عمل کے دوران یا اس کی تکمیل کے بعد کسی متاثرہ فریق کے لیے کوئی قانونی ازالہ دستیاب نہ ہو۔

موبائل فون سروس متاثر ہونے سے ای ایم ایس پر اثر پڑ سکتا ہے،مراد علی شاہ

انیس اگست 2023 کوپاکستان الیکشن کمیشن نے مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کی تنقید کے دوران مشترکہ مفادات کونسل (CCI) کی طرف سے ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری کے بعد نئی حد بندیوں کے لیے اپنے فیصلے کا دفاع کیا،پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے نئی حلقہ بندیوں کے اقدام کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا،ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں 90 دن سے زیادہ تاخیر کرنا ای سی پی کے مینڈیٹ سے باہر ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے چھ فروری کو سپریم کورٹ میں پارٹی کے انتخابی نشان ’بلے‘ کی واپسی کے لیے نظرثانی کی درخواست دائر کی ہے،پی ٹی آئی نے عدالت عظمیٰ سے بلے کے انتخابی نشان کی واپسی کی استدعا کرتے ہوئے 13 جنوری کے عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 22 دسمبر کے حکم کو برقرار رکھا تھا جس میں پارٹی کو بلے کے نشان سے محروم کیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ پارٹی کا انتخابی نشان واپس کرنے کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال کیا جائے،درخواست کے مطابق سپریم کورٹ نے انٹرا پارٹی انتخابات کے نتائج کو صحیح تناظر میں نہیں دیکھا، پارٹی نے دلیل دی ہے کہ کسی سیاسی جماعت کا انتخابی نشان واپس لینا ووٹروں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

مریم اورنگزیب نے NA51مری میں اپنا ووٹ کا سٹ کردیا

پاکستان میں جمہوریت اور اس کو طاقتور بنانے کے لئے قائم ادارے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہیں، حالیہ انتخابی مہم کے دوران واضح طور پر دیکھا گیا کہ سرکاری مشینری کچھ سیاسی جماعتوں کے لئے لیبر کا کام کرتی رہی، سرکاری مشینری کچھ جماعتوں کے امیدواروں کے بینر اور پوسٹر اتارنے کا کام دیانتداری سے انجام دیتی رہی۔ معتوب جماعت کو شکایت ہے کہ اس کے دس ہزار کارکن حراست میں ہیں، امیدوار اور ان کے ساتھی انتخابی مہم کے لئے جونہی باہر نکلتے پولیس گرفتار کرنے پہنچ جاتی۔آخر میں پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں تو لچکدار رویہ اختیار کرنے لگیں لیکن پی ٹی آئی نے لیول پلئینگ فیلڈ کا مطالبہ جاری رکھا،اس مطالبے پر کارروائی کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے،الیکشن کمیشن کا یہ رویہ تاریخ میں اچھا یا برا نقش ہو رہا ہے۔

الیکشن کمیشن کی سکیورٹی رینجرز، ایف سی اور پولیس اہلکاروں نے سنبھال لی

پاکستان کی زیادہ تر ناخواندہ آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے،یہ آبادی زمانوں سے، بنیادی طور پر ایک ظالم، جابر اور جاگیردارانہ ماحول میں سانس نہیں لینے پا رہی،سیاسی و جمہوری نظام نے اس آبادی کے سماجی اور سیاسی تقاضوں کو فراموش کر دیا ہے، جاگیردار، مقامی حکومتی بیوروکریسی، پولیس اور غنڈوں کے ساتھ مل کر مقامی علاقے کے زیادہ تر انتظامی معاملات پر دباؤ ڈالتے ہیں، ان غریب لوگوں کی رائے اور سیاسی خواہشات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے عام آدمی الیکٹ ایبل جاگیردار، یا پیا من بھائے سیاسی آقا کے رحم و کرم پر رہتا ہے جو اپنی مرضی کے مطابق ووٹ ڈالنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس عمل سے عام آدمی کی آزادی، سیاسی سوچ، انتخاب، انجمن سازی کا بنیادی آئینی حق چھین لیا جاتا ہے۔سوال تو یہ بھی ابھرتا ہے کہ اگر آئینی ادارے جمہوریت کی شفافیت اور لیول پلئینگ کے متعلق اپنا کردار ادا نہ کرسکیں تو شہروں کا پڑھا لکھا، معاشی طور پر خود انحصار طبقہ اور ناخواندہ دیہی آبادی کی سیاسی ضروریات ایک ہو کر سیاست کو الٹ پلٹ دیں تو پھر کیا ہو گا؟پھر موجودہ حالات میں آنکھیں بند کر کے کام کرنے والا الیکشن کمیشن کیا کرے گا؟اگر الیکشن کمیشن نے ایسے ہی انتخابات کرانے ہیں تو پھر الیکشن کمیشن کو خدا حافظ۔

سیہون ؛مراد علی شاہ نے پولنگ سٹیشن واہڑ میں ووٹ کاسٹ کرلیا

QOSHE -          الیکشن کمیشن کو خدا حافظ - محسن گواریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         الیکشن کمیشن کو خدا حافظ

8 0
08.02.2024

آج پاکستان کی جمہوری تاریخ کا ایک اور اہم دن ہے،الیکشن ہو رہے ہیں مگر لوگ تذبذب کا شکار ہیں،ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں،اس کے باوجود کہ ان کی انکی سوچوں پر پہرے ہیں،ان کو بھٹکایا جا رہا ہے،کبھی کسی سروے کے ذریعے،کبھی کسی وڈیرے کے ذریعے مگر لوگ ووٹ کو ایک مقدس امانت اور فریضہ سمجھتے ہیں اس لئے اپنا ووٹ اور امیدوار ڈھونڈ رہے ہیں،انہوں نے ووٹ ضرور ڈالنا ہے۔ابراہم لنکن نے جمہوریت کو عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اورعوام کے لیے کہا تھا،ہم امریکہ کی مانتے ہیں اس لئے ابراہم لنکن کی بات پر یقین کر بیٹھے ،تاہم یہ تعریف پاکستان کی خود غرض، جوڑ توڑ والی، کنٹرول شدہ جمہوریت کے ورڑن سے بالکل متصادم ہے، یہاں جمہوریت ہمیشہ سے اشرافیہ کے مفادات سے ہم آہنگ نظر آتی ہے۔پاکستان میں جمہوریت کسی قدیم، آفاقی روایات کی پیروی کرتی نظر نہیں آتی، ہمارے ہاں سیاسی مجبوریوں کے مطابق اس کی شکل اور عادتیں تبدیل ہو جاتی ہیں،اس کے کردار اور ارادے کو بدلنے والا نظام متحرک ہو جاتا ہے، وہ ادارے اپنا کام بھول جاتے ہیں جو جمہوری شفافیت برقرار رکھنے کے لئے عوام کی ٹیکس (آمدنی سے) قائم کئے گئے۔

ٹانک کے علاقہ میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملہ ،ایک اہلکار شہید

آج ہونے والے انتخابات کو جانے مورخ کیا عنوان دے گا لیکن جو اسے بھْگت رہے ہیں ان کے لئے یہ کوئی خوشگوار تجربہ نہیں، مسلم لیگ نواز کے سوا سبھی جماعتیں لیول پلئینگ فیلڈ طلب کر تی رہیں،جو گزرے کل میں ساتھی تھے انہیں سمجھا بجھا لیا گیا جو معتوب ہیں وہ آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ دعائیں اور بد دعائیں اسی سمت سفر کرتی ہیں۔

جمہوریت کی اینٹ شفافیت پر رکھی گئی، جہاں عوامی اقتدار کو شفافیت نہیں ملتی وہ نظام اپنا کوئی دوسرا نام رکھ لیتا ہے، مسولینی کی جمہوریت کو اسی لئے فاشزم کا نام ملا،ہمارے ہاں شفافیت برقرار رکھنے کا فریضہ آئین نے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play