ایک سابق آئی جی پولیس کے مطابق شدید سیاسی تناؤ اور عسکریت پسندی کی حالیہ لہر کی وجہ سے سکیورٹی اداروں کے لیے انتخابات منعقد کروانا بہت بڑا چیلنج ہو گا۔پاکستان میں عام انتخابات میں چند دن ہی باقی ہیں لیکن قانون نافذ کرنے والوں کو ایک مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ ملک نے ایسا وقت شائد پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ عوام میں غصہ اور مایوسی بڑھ رہی ہے اور اسی طرح انہیں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے بعد بھی حالات میں بہتری کی امید کم ہی ہے۔پاکستان میں انتخابات ہمیشہ ہنگامہ خیز رہے ہیں۔ ملک کی انتخابی تاریخ تشدد سے بھرپور ہے جس میں 2008 کے انتخابات کے دوران سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کا المناک قتل بھی شامل ہے۔انہی انتخابات میں سیاسی جلسوں اور امیدواروں کو نشانہ بناتے ہوئے بڑے خودکش بم دھماکے بھی ہوئے، جن میں درجنوں لوگ مارے گئے۔مئی 2013 میں ہونے والے انتخابات پاکستان کی تاریخ کے سب سے خونریز الیکشن تھے جن میں 240 سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں 2018 کے انتخابات سکیورٹی کے حوالے سے کافی حد تک بہتر ماحول میں ہوئے تھے۔لیکن اس بار کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور داعش جیسے گروپوں کی دھمکیوں نے انتخابی مہم پر کالے بادلوں کا سایہ ڈال رکھا ہے۔ملک میں 2023 میں دہشت گردی کے ڈیڑھ ہزار واقعات رپورٹ ہوئے، جن کے نتیجے میں نو سو اموات ہوئیں اور دو ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔ یہ واقعات خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں نمایاں طور پیش آئے جو تمام واقعات کا بالترتیب 57 فیصد اور 41 فیصد تھے۔ابھی حال ہی میں متعدد سیاسی امیدواروں اور کارکنوں کو انتخابات سے قبل سفاکی سے قتل کر دیا گیا۔ اس سال انتخابات سے متعلق سرگرمیوں میں روایتی جوش و خروش کا فقدان ہے اور امن و امان کی صورت حال بدستور تشویش ناک ہے۔ اگر بہت سے آزاد امیدوار جیت جاتے ہیں تو ایسی جوڑ توڑ کی سرگرمیاں تیز ہو جائیں گی۔ اس طرح کے حالات موجودہ کشیدہ ماحول کو مزید خراب کر دیں گے۔

حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق خبر کو حقائق کے مفافی قرار دے دیا

سکیورٹی اداروں کو صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے۔ صوبائی ایگزیکٹوز اور پولیس سربراہان پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اختیارات کا غلط استعمال انہیں نہ صرف انہیں بدنام کرے گا بلکہ یہ ان کے بچوں کے لیے بھی شرمندگی کا باعث ہو گا۔سکیورٹی فورسز کو انتخابات کے دوران اپنے ردعمل کے لیے مختلف رولز آف انگیجمنٹ بنانا چاہیے۔ پولیس کا اولین فرض محض غیر جانبداری اور اخلاقی طرز عمل کو برقرار رکھنا ہے۔ اسے سیاسی اجتماعات کی اجازت دینی چاہیے لیکن ضرورت پڑنے پر قانون شکنی کرنے والوں کو حراست میں بھی لینا چاہیے۔الیکشن میں سکیورٹی کے لیے زیادہ سے زیادہ خواتین کو شامل کیا جائے۔ بروقت انٹیلی جنس شیئرنگ کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ کسی واقعے پر رد عمل کی بجائے پیشگی اقدامات کرنا اہم ہے۔ پولیس کی سخت تربیت، معلومات اکٹھا کرنا، سٹریٹجک طور پر چوکس رہنا اور مختلف سٹیک ہولڈرز کے ساتھ اتحاد بھی الیکشن سے پہلے اور اس دن بدامنی پر قابو پانے میں مدد کرے گا۔قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی رابطے بہتر بنائیں کیونکہ انہیں عوام سے رابطے کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اس مقصد کے لیے انہیں ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ وہ ان کمیونٹیز کو یاد کروائیں کہ وہ جمہوریت اور عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے موجود ہیں۔انتخابات ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب عوام کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا کرنے کے لیے انہیں اپنی پوری توجہ اسی نقطے پر مرکوز رکھنا ہو گی کیوں کہ سکیورٹی کے علاوہ کسی اور ایجنڈے پر عمل درآمد کروا کر ان کی توجہ ہٹانے کے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں۔اس لیے تمام ایجنسیوں کے سربراہان کو چاہیے کہ وہ اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کرنے کے لیے کسی بھی مطالبے کے خلاف جائیں۔ انہیں صورت حال پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ لاکھوں لوگوں کی حفاظت ان کے ہاتھ میں ہے۔

حامد میر نے سابق صدر آصف زرداری کے حوالےسے تہلکہ خیز قصہ سنا دیا

QOSHE -     انتخابات پر سکیورٹی کے گہرے بادل - یونس باٹھ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

    انتخابات پر سکیورٹی کے گہرے بادل

12 0
07.02.2024

ایک سابق آئی جی پولیس کے مطابق شدید سیاسی تناؤ اور عسکریت پسندی کی حالیہ لہر کی وجہ سے سکیورٹی اداروں کے لیے انتخابات منعقد کروانا بہت بڑا چیلنج ہو گا۔پاکستان میں عام انتخابات میں چند دن ہی باقی ہیں لیکن قانون نافذ کرنے والوں کو ایک مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ ملک نے ایسا وقت شائد پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ عوام میں غصہ اور مایوسی بڑھ رہی ہے اور اسی طرح انہیں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے بعد بھی حالات میں بہتری کی امید کم ہی ہے۔پاکستان میں انتخابات ہمیشہ ہنگامہ خیز رہے ہیں۔ ملک کی انتخابی تاریخ تشدد سے بھرپور ہے جس میں 2008 کے انتخابات کے دوران سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کا المناک قتل بھی شامل ہے۔انہی انتخابات میں سیاسی جلسوں اور امیدواروں کو نشانہ بناتے ہوئے بڑے خودکش بم دھماکے بھی ہوئے، جن میں درجنوں لوگ مارے گئے۔مئی 2013 میں ہونے والے انتخابات پاکستان کی تاریخ کے سب سے خونریز الیکشن تھے جن میں 240 سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ فوجی کارروائیوں کے نتیجے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play