ڈیرہ اسماعیل تھانے پر دہشت گردانہ حملے میں دس اہلکاروں کی شہادت اور دیگر کے زخمی ہونے کی اطلاعات انتہائی افسوس ناک ہی نہیں بلکہ پریشان کن بھی ہیں، تھانے پر چاروں طرف سے حملہ کیا گیا، دستی بم پھینکے گئے، فائرنگ کی گئی اور دہشت گرد رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہو گئے۔ یاد رہے ڈیرہ اسماعیل خان، علاقہ غیر نہیں بلکہ بندوبستی علاقہ ہے کے پی کے کا اہم حصہ ہے یہاں دہشت گردوں کا اس طرح حملہ آور ہو کر نکل جانا، معمولی بات نہیں، ہمارے فوجی اور غیر فوجی ادارے اور ان کے اہلکار ایک عرصے سے نہ صرف ایسے دہشت گردوں کا مردانہ وار مقابلہ کررہے ہیں انہیں واصل جہنم بھی کررہے ہیں اور اس عمل میں اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کررہے، پاکستان 2سے زائد دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے ویسے ہم نے 2007میں بذاتِ خود نائن الیون کے بعد امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ امریکہ اپنے اتحادیوں کی افواج کے ساتھ طالبان کے افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا ہم طالبان حکومت کے حمایتی تھے ان کے ممد و معاون بنے ہوئے تھے طالبان حکومت کا سفارتخانہ بھی یہاں پاکستان میں موجود تھا۔ ہماری فوجی قیادت نے جو اس وقت ملک پر قابض تھی، امریکی دھمکی کے جواب میں، فوراً امریکی اتحادی بننے کا فیصلہ کیا حالانکہ ہم 1979ء سے افغان قوم کے ساتھ تھے۔ اشتراکی افواج کشی کے خلاف افغان مجاہدین کی جدوجہد آزادی کے حمایتی تھے ہم نے ان مجاہدین کو اپنی سرزمین دی۔ 70لاکھ سے زائد مہاجرین کو یہاں پاکستان میں پناہ دی۔اقوام مغرب اور اقوام مسلم کی امداد کے لئے ہماری سرزمین مرکز بنی۔ ہم نے انہیں گولی اور روٹی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر سفارتی مدد بھی فراہم کی۔

حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق خبر کو حقائق کے مفافی قرار دے دیا

جنرل ضیاء الحق کی افغان پالیسی کامیاب رہی ہم نے اسی جہادی دور میں اپنا ایٹمی پروگرام جاری رکھا اقوام مغرب افغان جہاد کے حوالے سے جنرل ضیاء الحق کی ممنون بھی تھیں اور مجبور بھی تھیں اس لئے انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے صرف نظر کیا۔ افغان جہاد کامیاب ہوا۔ اشتراکی افواج کو افغآنستان سے نکلنا پڑا۔ پھر جہاں تنظیموں میں اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوئی افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا اور پھر طالبان آئے اور چھا گئے۔ 2001ء میں امریکہ طالبان کے افغانستان پر چڑھ دوڑا اور ہم اپنی افغان پالیسی فوری طور پر تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے۔ جنرل پرویز مشرف نے جو حکمت عملی اپنائی وہ ”دھرا معیار“ تھا ایک طرف ہم امریکی اتحادی تھے ہماری زمین، فضا اور ادارے، افغانستان پر حملہ آور ہونے اور افغانوں کو تباہ کرنے والوں کے ممد و معاون تھے تو دوسری طرف درپردہ ہم طالبان قیادت کو پروٹیکشن بھی فراہم کرتے رہے، اسی دور میں کوئٹہ شوری کا ذکر بھی ہوتا رہا، حقانی نیٹ ورک کے بانی مولانا جلال الدین حقانی کی اسلام آبادمیں موجودگی کی خبریں بھی آتی رہیں۔ پھر ایبٹ آباد آپریشن میں القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی موجودگی بھی ثابت ہوگئی اور ہماری دہری افغان پالیسی کا پول بھی کھل گیا۔ امریکہ ایک طرف ہمارے ساتھ ہماری مدد کے ساتھ افغانوں کی تحریک آزادی کچل رہا تھا تو دوسری طرف وہ انڈیا، افغان دشمن حکومت اور دیگر گروپوں کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کی حمایت اور مدد بھی کرتا تھا یہی وجہ ہے کہ اس جنگ کے دوران پاکستان نے سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان اٹھایا۔ ہندوستان اور افغان حکومت ڈٹ کر ایسے گروہوں کے پشتبان بنے ہوئے تھے جو کہ سرحد پار سے یہاں پاکستان آکر دہشت گردی کرتے تھے۔ دہشت گردوں کی پاکستان کے خلاف یہ جنگ سرحدی علاقوں سے آگے بڑھتے بڑھتے بندوبستی علاقوں تک ہی نہیں بلکہ کراچی کے ساحلوں تک پھیل گئی تھی۔ پاکستان نے ایسی جنگ کا شاندار انداز میں سامنا کیا۔

حامد میر نے سابق صدر آصف زرداری کے حوالےسے تہلکہ خیز قصہ سنا دیا

ہماری عسکری و نیم عسکری تنظیموں نے بڑی حکمت عملی اور بہادری کے ساتھ نہ صرف اس جنگ کا سامنا کیا بلکہ دہشت گردوں کو شکست سے ہمکنار کیا۔ جب 2021ء میں امریکی دوہا معاہدے کے تحت یہاں سے واپس گئے تو ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ اب افغانستان کی طرف سے ہمیں اچھی خبریں ملیں گی کیونکہ دوحہ معاہدہ بھی ہماری کاوشوں سے ہی انجام پذیر ہوا تھا اور ہماری حمایت طالبان کے ساتھ رہی تھی ہم نے کابل پر طالبان کے قبضے کا جشن بھی منایا لیکن تین سال گزرنے کو ہیں۔ افغان سرزمین ابھی تک پاکستان کے خلاف،دہشت گردانہ کارروائیوں میں استعمال ہو رہی ہے، افغان طالبان حکومت اپنی سرزمین پر قائم دہشت گرد تنظیموں کے مراکز بند نہیں کر اسکی ہے۔ دہشت گرد ابھی تک پاکستان کے خلاف، افغان سرزمین پر مورچہ زن ہیں۔ طالبان حکومت ان کے خلاف کچھ بھی نہیں کر رہی ہے۔ پاکستان امریکی افواج کی واپسی کے بعد بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ امریکی فوج کے چھوڑے ہوئے ہتھیاروں کی دستیابی کے ساتھ، دہشت گردوں کے حملہ آور ہونے کی طاقت اور صلاحیت بھی بڑھ گئی ہے۔ ہم طالبان سے جو امیدیں لگائے بیٹھے تھے وہ پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔ طالبان ہماری سرحدی باڑ کا بھی احترام نہیں کرتے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت کے لئے بھی ہمارے ممنون نہیں ہیں۔ سفارتی محاذ پربھی پاکستان کی مدد کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کے ہمارے میں بھی ان کے خیالات موافق نہیں ہیں۔ ایسے حالات میں ہمیں جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی افغان پالیسیوں کے اثرات بارے غورو حوض کرکے اپنے قومی مفاد کے مطابق ایسی افغان پالیسی تشکیل دینی چاہیے جو حالات حاضرہ سے ہم آہنگ ہو۔

7 فروری شروع ہوتے ہی ملک بھر میں انتخابی مہم کا وقت ختم ، ووٹنگ ڈے تک سیاسی سرگرمیوں پر پابندی

QOSHE -            پاکستان کی افغان پالیسی؟ - مصطفی کمال پاشا
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

           پاکستان کی افغان پالیسی؟

11 0
07.02.2024

ڈیرہ اسماعیل تھانے پر دہشت گردانہ حملے میں دس اہلکاروں کی شہادت اور دیگر کے زخمی ہونے کی اطلاعات انتہائی افسوس ناک ہی نہیں بلکہ پریشان کن بھی ہیں، تھانے پر چاروں طرف سے حملہ کیا گیا، دستی بم پھینکے گئے، فائرنگ کی گئی اور دہشت گرد رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہو گئے۔ یاد رہے ڈیرہ اسماعیل خان، علاقہ غیر نہیں بلکہ بندوبستی علاقہ ہے کے پی کے کا اہم حصہ ہے یہاں دہشت گردوں کا اس طرح حملہ آور ہو کر نکل جانا، معمولی بات نہیں، ہمارے فوجی اور غیر فوجی ادارے اور ان کے اہلکار ایک عرصے سے نہ صرف ایسے دہشت گردوں کا مردانہ وار مقابلہ کررہے ہیں انہیں واصل جہنم بھی کررہے ہیں اور اس عمل میں اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کررہے، پاکستان 2سے زائد دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے ویسے ہم نے 2007میں بذاتِ خود نائن الیون کے بعد امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ امریکہ اپنے اتحادیوں کی افواج کے ساتھ طالبان کے افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا ہم طالبان حکومت کے حمایتی تھے ان کے ممد و معاون بنے ہوئے تھے طالبان حکومت کا سفارتخانہ بھی یہاں پاکستان میں موجود تھا۔ ہماری فوجی قیادت نے جو اس وقت ملک پر قابض تھی، امریکی دھمکی کے جواب میں، فوراً امریکی اتحادی بننے کا فیصلہ کیا حالانکہ ہم 1979ء سے افغان قوم کے ساتھ تھے۔ اشتراکی افواج کشی کے خلاف افغان مجاہدین کی جدوجہد آزادی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play