الیکشن آخر سر پر آن پہنچے ہیں اور انکشافات کا سلسلہ پہاڑی سلسلے قراقرم کی طرح طویل بھربھری مٹی سے سینچا کھلتاجا رہا ہے۔انصافیوں کو یقین ہے کہ سات کروڑ عوام ان کے نظریہ کے حامی ہیں۔ پھر بھی وہ ان الیکشنز کو نتائج سے پہلے ہی تاریخ کا مشکوک ترین الیکشن قرار دیتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ وہ سوشل میڈیا پر جدید خطوط پر ووٹرز کی ٹریننگ بھی کر رہے ہیں۔ نظریہ کا ان کو آج تک علم نہیں ہو سکا ہے۔نظریہ کو وہ شعور کا نام دیتے ہیں۔ ظاہر ہے جہاں لیڈر یو ٹرن کا سہارا لے کر قوم کو ادھر ادھر لٹو کی طرح گھماتا رہے وہاں شعور بھی نظریاتی گھماؤ ہی کی صورت سامنے آ سکتا ہے۔ساڑھے تین سال طوطا کہانی کی طرح کہانیاں سننے سنانے میں گزر گئے۔بھلا جو لیڈر ساڑھے تین سال میں ٹھیک طرح سے بیٹھ بھی نہ سکا ہو،اس کی سمجھ داری چہ معنی دارد!!!ہو ہاؤ کرتے چند لوگ یاجوج ماجوج کی طرح زبانیں نکالے سب چاٹنے کو لپکتے ہیں۔طوطا کہانی کے یہ طوطے جھوٹی اور ایڈٹ تصاویر و ویڈیوز سے کہانیوں کے جال بنتے ہیں۔جہاں ان کی کہانی چل نہیں سکتی وہاں ان کی زبان چلتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ انسانی طوطے گندی گالیاں دینے اور کاٹنے پر مامور ہیں۔ لنکن شائر کاؤنٹی کے جنگلی جانوروں کے مرکز میں رکھے گئے ان پانچ طوطوں کی طرح جن کے نام اگرچہ جدید اور مہذب معاشرہ کی عکاسی کرتے ہیں یعنی بِلی، ایرک، ٹائسن، جیڈ اور ایلسی۔ لیکن یہ پانچ طوطے اتنے 'بد زبان‘ تھے کہ وہ کبھی بھی گالیاں دینے سے تھکے نہیں اور اگر کبھی ان میں سے کوئی چپ ہو جاتا، تو کوئی دوسرا طیش دلا کر باقی چاروں کو گالیاں دینے پر مجبور کر دیتا۔ انھوں نے وہاں موجود نہ صرف دو سو طوطوں کو بلکہ ہر آنے جانے والوں حتی کہ معصوم بچوں کو بھی گندی گالیاں دے کر انتظامیہ کو اپنی بدزبانی سے زچ کر ڈالا۔مخصوص جماعت کے یہ طوطے بھی بدزبانی، نعرہ بازی اور ایک ہی راگ الاپ کر تھکتے ہیں نہ کسی کو سکون لینے دیتے ہیں۔نو مئی کو تفاخر سے گالیاں دیتے، اناپ شناپ بکتے یہ تیار کیے گئے طوطے اگر ایک بار پیچھے مڑ کر سات کروڑ عوام پہ نظر ڈال دیتے تو شاید یو ٹرن لے کر کوئی نئی کہانی گڑھ لیتے۔تاریخ میں بھی ایسی کہانی موجود ہے جہاں حیدر علی کے نمک خوار کھنڈے راؤ نے مرہٹوں کے ساتھ مل کر سازش کی تھی جو ناکام ہوئی اور کھنڈے راؤ کو شکست ہوئی لیکن رانی کی سفارش پر کھنڈے راؤ کو باقی زندگی ایک طوطے کی طرح لوہے کے پنجرے میں بند کر کے بطور خوراک دودھ اور چاول پر پالا گیا۔

حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق خبر کو حقائق کے مفافی قرار دے دیا

یہ سمجھ سے باہر ہے کہ جو لوگ وطن کے مسائل سے گھبرا کر سالوں پہلے وطن کی شہریت ترک کر کے کسی اور ریاست کے شہری بن کر پوری سہولیات حاصل کر رہے ہیں۔اب ان کے ہاتھ شعور کی وہ کون سی عینک لگ گئی ہے جو وہاں کے پر سکون ماحول میں گندے پتھر پھینک کر تسکین طبع کی ضیافت پر بضد ہیں۔وہ تو کسی بھی ریاست کے وفادار نہیں۔ وطن کا اتنا ہی درد ہے تو وہاں سے ڈاکٹرز، انجینئرز اور کاروباری حضرات کی جھوٹی ویڈیوز اپ لوڈ کرنے کی بجائے ساڑھے تین سال یہاں اپنے لیڈر کی بنائی گئی پناہ گاہوں میں قیام کیوں نہیں کیا۔اپنے دور حکومت کا روشن چہرہ بھی تو دکھاتے۔جہاں وزرا تک بھی جھوٹ کے پرچار میں مشغول رہے۔وزیر تعلیم کی اہلیت اساتذہ کی تحریک کے سب سے گھٹیا کردار سے راہنمائی لینے اور اس کی تجویز کی گئی پوسٹنگز تک محدود رہی۔ہر سوال کے جواب میں یہ طوطے صرف جوابی گالیوں نما نعرہ لگاتے ہیں اور کہتے ہیں ابھی تو وقت ہی نہیں ملا۔نگران حکومت کی مختصر ترین کارکردگی بھی ان کو عطا کیے گئے شعور میں رخنہ نہیں ڈال سکی۔یہ جامد شعور کس کام کا ہے جو ان طوطوں کو تجزیہ تک کی اہلیت نہیں بخش سکا۔ان کو اپنی کہی بات پر یقین نہیں کہ سات کروڑ عوام ان کا شعور اوڑھے ہوئے ہیں۔تبھی تو الیکشن کو ابھی سے نزاعی مان رہے ہیں۔شیر تو دھاڑ کر خاموش ہے لیکن کھلاڑی چیخ رہے ہیں کہ ہمارا بلا نہیں رہا۔ شعور نام کا اجڈ پن اور ڈھٹائی نما بدزبانی کسی موڑ پر سانس لینے کو تیار نہیں۔جو قوم چھہتر سالوں سے ہجوم ہی تھا اس میں یہ گروہ بندی کیا قیامت ڈھا گئی ہے۔یہ سوچنے کی فرصت ہی کسے ہے۔فرصت گناہ کی مہلت ہی دراز نہ ہو سکی۔کاش شعور و آگہی میں تجزیہ اور مکالمہ کو اولیت ہو۔ کاہے کو ایسے ڈھیٹ تھے پہلے جھوٹی قسم جو کھاتے تم غیرت سے آ جاتا پسینا آنکھ نہ ہم سے ملاتے تم حیف تمہیں فرصت ہی نہیں ہے ورنہ کیا کیا حسرت تھی

حامد میر نے سابق صدر آصف زرداری کے حوالےسے تہلکہ خیز قصہ سنا دیا

یا ہچکی الٹی جاتی تھی جتنا ہمیں سمجھاتے تم

QOSHE -         زباں اپنی بدلنے پہ راضی نہیں  - ڈاکٹر سعدیہ بشیر
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        زباں اپنی بدلنے پہ راضی نہیں 

12 1
07.02.2024

الیکشن آخر سر پر آن پہنچے ہیں اور انکشافات کا سلسلہ پہاڑی سلسلے قراقرم کی طرح طویل بھربھری مٹی سے سینچا کھلتاجا رہا ہے۔انصافیوں کو یقین ہے کہ سات کروڑ عوام ان کے نظریہ کے حامی ہیں۔ پھر بھی وہ ان الیکشنز کو نتائج سے پہلے ہی تاریخ کا مشکوک ترین الیکشن قرار دیتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ وہ سوشل میڈیا پر جدید خطوط پر ووٹرز کی ٹریننگ بھی کر رہے ہیں۔ نظریہ کا ان کو آج تک علم نہیں ہو سکا ہے۔نظریہ کو وہ شعور کا نام دیتے ہیں۔ ظاہر ہے جہاں لیڈر یو ٹرن کا سہارا لے کر قوم کو ادھر ادھر لٹو کی طرح گھماتا رہے وہاں شعور بھی نظریاتی گھماؤ ہی کی صورت سامنے آ سکتا ہے۔ساڑھے تین سال طوطا کہانی کی طرح کہانیاں سننے سنانے میں گزر گئے۔بھلا جو لیڈر ساڑھے تین سال میں ٹھیک طرح سے بیٹھ بھی نہ سکا ہو،اس کی سمجھ داری چہ معنی دارد!!!ہو ہاؤ کرتے چند لوگ یاجوج ماجوج کی طرح زبانیں نکالے سب چاٹنے کو لپکتے ہیں۔طوطا کہانی کے یہ طوطے جھوٹی اور ایڈٹ تصاویر و ویڈیوز سے کہانیوں کے جال بنتے ہیں۔جہاں ان کی کہانی چل نہیں سکتی وہاں ان کی زبان چلتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ انسانی طوطے گندی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play