زباں اپنی بدلنے پہ راضی نہیں
الیکشن آخر سر پر آن پہنچے ہیں اور انکشافات کا سلسلہ پہاڑی سلسلے قراقرم کی طرح طویل بھربھری مٹی سے سینچا کھلتاجا رہا ہے۔انصافیوں کو یقین ہے کہ سات کروڑ عوام ان کے نظریہ کے حامی ہیں۔ پھر بھی وہ ان الیکشنز کو نتائج سے پہلے ہی تاریخ کا مشکوک ترین الیکشن قرار دیتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ وہ سوشل میڈیا پر جدید خطوط پر ووٹرز کی ٹریننگ بھی کر رہے ہیں۔ نظریہ کا ان کو آج تک علم نہیں ہو سکا ہے۔نظریہ کو وہ شعور کا نام دیتے ہیں۔ ظاہر ہے جہاں لیڈر یو ٹرن کا سہارا لے کر قوم کو ادھر ادھر لٹو کی طرح گھماتا رہے وہاں شعور بھی نظریاتی گھماؤ ہی کی صورت سامنے آ سکتا ہے۔ساڑھے تین سال طوطا کہانی کی طرح کہانیاں سننے سنانے میں گزر گئے۔بھلا جو لیڈر ساڑھے تین سال میں ٹھیک طرح سے بیٹھ بھی نہ سکا ہو،اس کی سمجھ داری چہ معنی دارد!!!ہو ہاؤ کرتے چند لوگ یاجوج ماجوج کی طرح زبانیں نکالے سب چاٹنے کو لپکتے ہیں۔طوطا کہانی کے یہ طوطے جھوٹی اور ایڈٹ تصاویر و ویڈیوز سے کہانیوں کے جال بنتے ہیں۔جہاں ان کی کہانی چل نہیں سکتی وہاں ان کی زبان چلتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ انسانی طوطے گندی........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website