الیکشن اور تبدیلی
ملک میں الیکشن بالاخر 8 فروری کو منعقد ہونے جارہے رہے ہیں۔ ایک متغیر صورت حال جو 2017ء سے ملک کی سیاست کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے اگلے ہفتے ایک نئے دور میں داخل ہو جائے گی جس کا دارومدار الیکشن کے نتائج پر ہوگا۔ گذشتہ چھ سال کے دوران ملک میں اگرچہ غیرمعمول تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں جن کا تعلق ملک کے معاشی حالات سے رہا ہے لیکن بعض معاملات میں چہروں کی تبدیلی کے باوجودکوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی مثلا پس پردہ غیرسیاسی قوتوں کی بالاد ستی۔اس کے علاوہ انتخابات کے بارے میں بے یقینی کی کیفیت اور انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لئے دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی کاروائیاں بھی قابل ذکر ہیں۔ لیکن ان میں سے سب سے زیادہ اہم اور قابل ذکر بات انتخابات میں شرکت کے لئے جمہور کا جوش وخروش ہے جو تمام تر اتار چڑھاو کے باوجود مسلسل برقرارچلا آرہا ہے۔یہ جوش وجذبہ عوام الناس کی جمہوریت پسند طبیعت اورملک میں جمہوریت کیلئے ان کی تمناوں اور کوششوں کی بخوبی عکاسی کرتا ہے۔ عوام کی سرفروشی کی یہ کیفیت صرف تمناوں تک محدود نہیں بلکہ اس سلسلے میں ایک عرصے سے عوام قربانیاں بھی دیتے چلے آریے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 2018 میں انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں 220 افرادجاں بجق اور813 افراد زخمی ہوئے تھے۔ ان میں سے سب سے روح فرسا واقعہ مستونگ بلوچستان میں پیش آیا تھا جس میں 149 افراد جاں بحق اور 223 زخمی ہوئے تھے جاں بحق ہونے والوں میں بلوچستان کے سابق وزیر اعلی اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی سراج رئیسانی بھی شامل تھے۔ کوئٹہ کے ایک پولنگ اسٹیشن........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website