ایک بڑی دلچسپ صورتحال ہمارے ہاں ہے، کہ حکیم اور ہومیوپیتھی ڈاکٹر جب بھی کسی مریض کا نسخہ لکھیں گے، ساتھ کچھ پرہیز بھی بتائیں گے، جن میں کھٹی میٹھی چیزوں، گوبھی، بینگن، دال مسور وغیرہ ضرور شامل ہوں گی، جبکہ ایلو پیتھک ڈاکٹر نسخہ کے ساتھ کہیں گے کہ جو مریض کا دِل کرتا ہے کھا سکتا ہے۔ اس کی سمجھ نہیں آ سکی کہ حکیموں اور ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کو کچھ سبزیاں اور دالیں پسند نہیں یا گوبھی اور بینگن سے کوئی خاندانی دشمنی ہے۔ البتہ ایک بڑا نمایاں فرق ہے،ڈاکٹر حضرات مریض سے زیادہ اس کی ٹیسٹ رپورٹس کو دیکھتے اور اس پر انحصار کرتے ہیں جبکہ حکیم صرف نبض پر۔ نبض سے بظاہر مرض کی تشخیص کچھ مشکل نظر آتی ہے، مگر حکیم صاحب مریض کی رنگت، آنکھیں دیکھ کر بھی مرض کا اندازہ لگاتے ہیں، لیکن وہاں کچھ دلچسپ باتیں بھی ہوتی ہیں۔ ہمارے سیالکوٹ میں ایک دوست بتایا کرتے تھے کہ جب حکیم صاحب نے مریض سے پوچھا کہ رات کو کتنی مرتبہ پیشاب کرتے ہو اور مریض نے بتایا کہ چھ سات مرتبہ تو حکیم صاحب نے بے ساختہ فرمایا کہ پھر تو بیڑا ہی غرق ہو چکا ہے۔ حکیم صاحب کے اس جملہ میں ذیابیطس یا شوگر کے مرض کی تشخیص تھی۔ کمر درد کا علاج کرتے ہوئے جو جملے حکیم صاحبان بولتے ہیں، وہ تو ہمارا بڑا لبرل سنسر بورڈ بھی آن ایئر نہ جانے دے۔

سینیٹ میں انتخابات ملتوی کروانے کی قرارداد پر خاموشی اختیار کرنے والے سینیٹر بہرہ مند تنگی کو پیپلز پارٹی نے پارٹی سے نکال دیا

قبض کشائی کی دوائی حکیم کے مطب سے کھا کر بندہ بغیر کسی ”سانحہ“ کے گھر نہیں پہنچ سکتا تھا۔ہمارے ایک مہربان لاہور گلبرگ میں ہومیوپیتھی ڈاکٹر تھے، وہ مریض کی تشخیص کرتے وقت اتنی زور سے ”ٹھہرو جی، ٹھہرو جی“ کہتے کہ مریض کا باقاعدہ تراہ نکل جاتا، مریض کی ساری ہسٹری ایک رجسٹر میں لکھتے جاتے اور بعد میں اس کی دوائی بھجواتے۔ بڑے کمال کے ڈاکٹر تھے، کچھ عرصہ قبل ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔آنکھیں دیکھ کر یرقان یا jaundice کی تشخیص کرنا ہماری حکمت میں معمول کی بات ہے۔ اب hepatitis کی اقسام اور ان کی صحیح تشخیص کے لئے بڑے مہنگے ٹیسٹ کرانے پڑتے ہیں اور پھر اس سے بھی مہنگے ٹیکے، جبکہ حکیم صاحب اسی یرقان کا علاج سردائی کی چار خوراکوں میں کر دیتے تھے۔آج کل گردوں اور جگر کی بیماری کی ایک وجہ غیر مستند حکیموں کی دیسی دوائیاں بھی ہیں،جو عمومی طور پر جنسی قوت بڑھانے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں، جن میں فوری اثر دکھانے کے لئے سٹیرائڈز شامل ہوتے ہیں، جو کچھ عرصہ بعد جنسی قوت تو نہیں بڑھاتے البتہ کھانے والے کے گردے اور جگر پر نہایت مضر اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہماری حکمت زوال پذیر ہے۔ شاید آخری مستند حکیم ہمدرد والے حکیم سعید تھے۔حکیم تو وہ کمال کے تھے ہی، مگر انسان بھی بہت عمدہ اور درد دِل رکھنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

میاں بیوی کا جھگڑا ختم کرانے کیلئے آنیوالے پڑوسی نے شوہر کو قتل کردیا

اب یہ زمین ٹاپ لیول کے حکماء پیدا کرنے میں بانجھ نظر آتی ہے،جبکہ ماشاء اللہ ہم بڑے پائے کے ڈاکٹر ضرور پیدا کر رہے ہیں۔ ذاتی طور پر دوران سروس اور بعد از ریٹائرمنٹ بہت سے ڈاکٹروں سے واسطہ پڑا۔ ایک طویل فہرست ہے۔ بڑا مشکل ہے سب کے نام یاد رہیں اور لکھے جائیں، مگر جن ڈاکٹر صاحبان نے اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار، پروفیشنلزم، اور بہترین حسن سلوک سے بہت متاثر کیا، ان میں لاہور کے معروف درویش منش سرجن مرحوم ڈاکٹر T.A.Shah, معروف فزیشن مرحوم ڈاکٹر فیصل مسعود، عالمی معیار کے dental surgeon پروفیسر عثمان اختر، ہمارے فیملی فرینڈاور بچوں کے لاجواب ڈاکٹر امتیاز ذوالفقار جو اب ہماری تیسری جنریشن کے بھی ڈاکٹر ہیں۔ نہر کنارے فاروق ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر صابر ملک، جنہیں میں طب کا امرت دھارا مانتا ہوں اور اسی ہسپتال کے بہت ہی خوبصورت اور خوب سیرت،اپنے شعبہ کی پہچان سرجن ڈاکٹر راشد سراج، ساہیوال کے بچوں کے بہت ماہر ڈاکٹر غلام عباس، فیصل آباد کے معروف آئی سپیشلسٹ پروفیسر ڈاکٹر سلطان اور فرینڈ آف جوڈیشری ڈاکٹر عامر عادل پی آئی سی کے سابق چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر ندیم حیات ملک اور شیخوپورہ کے ڈاکٹر طارق نمایاں ہیں۔ابھی تین چار روز قبل میری والدہ محترمہ کا سیالکوٹ میں گھر میں گرنے سے ہڈی کا فریکچر ہو گیا۔

ہنی مون کے دوران ہی دولہا کا انتقال ، دلہن کی بھی حالت غیر، ہسپتا ل منتقل، وجہ ایسی کہ آپ کو بھی دکھ ہوگا

ویک اینڈ کی وجہ سے وہاں کوئی آرتھو ڈاکٹر میسر نہ تھے اور والدہ تکلیف میں تھیں۔میں نے اپنے دوست چوہدری محمد انور سماں ایڈوکیٹ کے بڑے ہونہار اور بڑے پروفیشنل،فرزند آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر عبدالباسط کو میسج کیا اور اپنی مجبوری بتائی تو جو جواب آیا اس نے دِل اور روح کو معطر کر دیا۔ ڈاکٹر باسط نے کہا کہ انکل آپ کی والدہ تکلیف میں ہوں تو ویک اینڈ matter نہیں کرتا۔ آپ اُنہیں فوراً لاہور شفٹ کریں اور پھر اتوار کی صبح انہوں نے اپنی پوری ٹیم کے ساتھ یہ کامیاب سرجری کر دی۔اس کے علاوہ بھی بہت سے اچھے ڈاکٹروں سے رابطہ رہا، ظاہر ہے سب کے نام لکھنا ممکن نہ ہے۔اب آخر میں پھر ذرا lighter tone میں بات کرتے ہوئے جس طرح حکیم کچھ چیزوں سے پرہیز ضرور بتاتے ہیں،اسی طرح زندگی میں کچھ لوگوں سے پرہیز بڑا کار گر ہوتا ہے۔ خصوصاً جب ایسے لوگوں کی قربت ذہنی پریشانی کا سبب بن سکتی ہو، تو دائمی نقصان اور ضرر سے بچنے کے لیے ایسے لوگوں سے وہ حکمت والا پرہیز بڑا ضروری ہے۔

مسجد کے پیش امام کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی پابندی کا نوٹس جاری کردیا گیا

QOSHE -        حکمت، ہومیو پیتھی اور ایلوپیتھی - عابد قریشی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       حکمت، ہومیو پیتھی اور ایلوپیتھی

12 0
03.02.2024

ایک بڑی دلچسپ صورتحال ہمارے ہاں ہے، کہ حکیم اور ہومیوپیتھی ڈاکٹر جب بھی کسی مریض کا نسخہ لکھیں گے، ساتھ کچھ پرہیز بھی بتائیں گے، جن میں کھٹی میٹھی چیزوں، گوبھی، بینگن، دال مسور وغیرہ ضرور شامل ہوں گی، جبکہ ایلو پیتھک ڈاکٹر نسخہ کے ساتھ کہیں گے کہ جو مریض کا دِل کرتا ہے کھا سکتا ہے۔ اس کی سمجھ نہیں آ سکی کہ حکیموں اور ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کو کچھ سبزیاں اور دالیں پسند نہیں یا گوبھی اور بینگن سے کوئی خاندانی دشمنی ہے۔ البتہ ایک بڑا نمایاں فرق ہے،ڈاکٹر حضرات مریض سے زیادہ اس کی ٹیسٹ رپورٹس کو دیکھتے اور اس پر انحصار کرتے ہیں جبکہ حکیم صرف نبض پر۔ نبض سے بظاہر مرض کی تشخیص کچھ مشکل نظر آتی ہے، مگر حکیم صاحب مریض کی رنگت، آنکھیں دیکھ کر بھی مرض کا اندازہ لگاتے ہیں، لیکن وہاں کچھ دلچسپ باتیں بھی ہوتی ہیں۔ ہمارے سیالکوٹ میں ایک دوست بتایا کرتے تھے کہ جب حکیم صاحب نے مریض سے پوچھا کہ رات کو کتنی مرتبہ پیشاب کرتے ہو اور مریض نے بتایا کہ چھ سات مرتبہ تو حکیم صاحب نے بے ساختہ فرمایا کہ پھر تو بیڑا ہی غرق ہو چکا ہے۔ حکیم صاحب کے اس جملہ میں ذیابیطس یا شوگر کے مرض کی تشخیص تھی۔ کمر درد کا علاج کرتے ہوئے جو جملے حکیم صاحبان بولتے ہیں، وہ تو ہمارا بڑا لبرل سنسر بورڈ بھی آن ایئر نہ جانے دے۔

سینیٹ میں انتخابات ملتوی کروانے کی قرارداد پر خاموشی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play