الیکشن بالکل قریب ہیں لہٰذا سیاسی محاذ گرم ہے،جلسے ہو رہے ہیں سیاسی لیڈر خوب گرج برس رہے ہیں اگرچہ مبصرین تو اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ اس دفعہ الیکشن کی سرگرمی نظر نہیں آ رہی حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت تبدیل ہو گیا ہے اب ماضی کی طرح سال چھ مہینے پر محیط سیاسی سرگرمیوں کا کوئی جواز نہیں اب بیسیوں ٹی وی چینل چوبیس گھنٹے نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں سوشل میڈیا پل پل کی خبر دے رہا ہے اس صورتحال میں لمبے لمبے جلوس نکالنے اور چھ مہینے جلسے کرنے کی ضرورت نہیں اب تو ٹی وی چینلز پر سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے لئے وقت مخصوص کرنا چاہئے جس میں وہ قوم کو اپنے پروگرام سے آگاہ کریں۔ ماضی میں پی ٹی وی نے ایسا کیا ہے۔

کیپٹن صفدر کی پی ٹی آئی کا پرچم تھامے بچے سے جا کر ملنے کی ویڈیو وائرل

بہرحال اس وقت ملک بھر میں پارٹیوں کے منشور پر سرگرم بحث چل رہی ہے حالانکہ منشور کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ حکومت میں آ کر منشور بہت پیچھے چلا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے پہلے دور میں روٹی، کپڑا اور مکان کا جامع اور دلکش وعدہ کیا گیا تھا وہ کہاں تک پورا ہوا اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں پھر حال ہی میں پی ٹی آئی کے بانی نے منشور دیا تھا کہ تین مہینے میں کرپشن ختم کر دی جائے گی، لُوٹا ہوا پیسہ باہر سے واپس لایا جائے گا جس سے ہمارے اقتصادی مسئلے حل ہوں گے۔ ایک کروڑ نوکریاں دی جائیں گی اور 50 لاکھ مکان تعمیر کئے جائیں گے۔ اس میں سے کتنے وعدے پورے ہوئے اس پر بھی بحث کی ضرورت نہیں۔ ہمارے ہاں لوگ منشور پر ووٹ بھی نہیں دیتے اُن کی ترجیحات اور ہیں بہرحال منشور ایک روایت ہے لہٰذا ہر پارٹی مجبور ہے کہ وہ اپنا منشور جاری کرے۔ عمل کی کوئی گارنٹی نہیں۔ پیپلزپارٹی اور کئی اور پارٹیوں نے300 بجلی کے یونٹ فری دینے کا وعدہ کیا ہے ظاہر ہے اس پر عملدرآمد ناممکن ہے، تنخواہیں ڈبل کرنے کا وعدہ بھی ایک فریب ہے دراصل اس سلسلے میں پارٹیوں کے ماضی اورملکی معیشت کی حالت کو مدنظر رکھنا ہو گا۔وزیراعظم کا براہ راست انتخاب اور پارلیمنٹ کی مدت میں تبدیلی کے وعدوں پر بھی عمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے لئے آئین میں تبدیلی کرنی پڑے گی اور یہ تین چوتھائی اکثریت سے ممکن ہے۔

فردوس عاشق اعوان ووٹرز کے سوالات پر ناراض

یہ تو ظاہر ہے کہ کسی پارٹی کو اقتدار ملے گا تو حکومت کی پہلی ترجیح معیشت ہی ہو گی اس پر واضح اور سوچی سمجھی اور قابل عمل پالیسی سامنے آنی چاہئے۔ یہ پالیسی صرف گیس اور بجلی کے بلوں کے مسئلے تک محدود نہیں رہنی چاہئے بلکہ سرکاری اخراجات کم کرنا ہوں گے غیرضروری بھرتیوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔ سرکاری شعبے میں 1300 سی سی سے اوپر گاڑی کی کوئی ضرورت نہیں۔ اُن اداروں کو پرائیویٹائز کرنا ہو گا جو خزانے پر مسلسل بوجھ ہیں مثلاً سٹیل مل، پی آئی اے وغیرہ۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ایک بڑا مسئلہ ہے افسوس آبادی اور تعلیم کسی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ ہماری آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے شاید کوئی حکومت بھی اس کی ضروریات پوری نہیں کر سکے گی لیکن افسوس کہ کسی پارٹی نے اس اہم مسئلے کی طرف اشارہ بھی نہیں کیا۔ کسی لیڈر کے منہ سے میرٹ کا لفظ سننے میں نہیں آیا۔ ہم نے میرٹ کو نظرانداز کرکے ملک تباہ کر دیا ہے۔ اب قومی پارٹیوں کو اس بات کا اعلان کرنا چاہئے کہ حکومتی معاملات چلانے کیلئے میرٹ اُن کی ترجیح ہو گی۔خواہ کابینہ کی تشکیل ہو،دفتروں میں بھرتی ہو یا کسی بھی شعبے میں کوئی اہم فیصلہ ہو کاش کوئی حکومت میرٹ کو اپنی پہچان بنا لے۔ ملک کے معاملات سنور جائیں گے اور ملک اور قوم کے مستقبل کے بارے میں عام آدمی کا اعتماد بحال ہو گا۔ ایک معاملہ ہے تعلیم کو اولین ترجیح دینا افسوس کہ ہم نے اس اہم معاملے کو ضروری اہمیت نہیں دی اس وقت ہمارا لٹریسی ریٹ تقریباً اڑھائی فیصد ہے، اڑھائی کروڑ سے زیادہ بچے سکول سے باہر ہیں۔ سنگاپور کے پہلے وزیراعظم لی کیوان یو نے 50 فیصد فنڈز تعلیم کے لئے مختص کر دیئے تھے نتیجہ آپ کے سامنے ہے لہٰذا بہت ضروری ہے کہ تعلیم کے بجٹ کیلئے زیادہ رقم رکھی جائے۔ کرپشن ہمارا سنجیدہ مسئلہ ہے ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے اور یہ ہمارے پورے نظام میں بُری طرح سرائیت کر گیا ہے

پاکستان کے کتنے فیصد نوجوان پاک فوج پر مکمل اعتماد کرتےہیں؟ جانیے

اس کے خلاف مہم چلانا ضروری ہے یہ مہم کسی پارٹی، محکمے یا طبقے کے خلاف نہیں بلکہ مجموعی طور پر اس لعنت کے خلاف ہونی چاہئے اور عام آدمی کو نظر آنی چاہئے موجودہ نگران حکومت اس بارے میں پہل کر چکی ہے اِسے سنجیدگی سے اور مسلسل جاری رکھنا ضروری ہے اس میں سب سے پہلا کام تو یہ ہونا چاہئے کہ پارلیمنٹ کے ارکان کے ترقیاتی فنڈز ختم کئے جائیں چونکہ یہ کرپشن کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ ہر محکمے کے سربراہ کی یہ ذمہ داری ہونی چاہئے کہ وہ اپنے محکمے میں اس مہم پر عملدرآمد کرائے اور ایک مخصوص مدت کے بعد اس کی رپورٹ متعلقہ وزارت کو پیش کرے اور ان معلومات تک پبلک کی رسائی ہونی چاہئے۔ سرکاری کام میں کمیشن کو ہم نے ذہنی طور پر قبول کیا ہوا ہے اِسے ختم کرنا ہو گا۔ہم نے جمہوریت کا نظام اپنایا ہوا ہے لیکن ہم اس کے تقاضے پورے نہیں کرتے۔ جمہوریت کا سب سے بڑا اُصول اختیارات کی تقسیم اور نیچے تک رسائی ہے۔ ہماری حکومتیں بوجوہ بنیادی جمہوریت سے حتیٰ الوسع پرہیز کرتی آتی ہیں۔ بنیادی جمہوریت کے وقار کی مضبوطی بہت ضروری ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعے) کا دن کیسا رہے گا؟

ہم نے سیاست کو ایک میدان جنگ بنایا ہوا ہے جس سے ہم نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ قوم کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ تمام سیاستدان پاکستان کے شہری ہیں اور سب کا مستقبل اپنے ملک سے وابستہ ہے اور جمہوری نظام کا تقاضا ہے کہ سیاستدان مقررہ مدت کے بعد عوام کے سامنے پیش ہوں اورجسے عوام کا اعتماد حاصل ہو اُسے بلا چوں و چراں حکومت دے دی جائے اور دوسروں کو اگلی مدت تک انتظار کرنا چاہئے سپورٹس مین میرٹ کے ساتھ ایک دوسرے کو برداشت کرنا چاہئے۔ سیاست کو ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کرنے کے رحجان کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔

ہمارا پانی چوری کر کے ظالم حکمران ہمیں بیچتا ہے ،مصطفیٰ کمال

QOSHE -      سیاسی پارٹیوں کا منشور - اے خالق سرگانہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

     سیاسی پارٹیوں کا منشور

8 0
02.02.2024

الیکشن بالکل قریب ہیں لہٰذا سیاسی محاذ گرم ہے،جلسے ہو رہے ہیں سیاسی لیڈر خوب گرج برس رہے ہیں اگرچہ مبصرین تو اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ اس دفعہ الیکشن کی سرگرمی نظر نہیں آ رہی حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت تبدیل ہو گیا ہے اب ماضی کی طرح سال چھ مہینے پر محیط سیاسی سرگرمیوں کا کوئی جواز نہیں اب بیسیوں ٹی وی چینل چوبیس گھنٹے نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں سوشل میڈیا پل پل کی خبر دے رہا ہے اس صورتحال میں لمبے لمبے جلوس نکالنے اور چھ مہینے جلسے کرنے کی ضرورت نہیں اب تو ٹی وی چینلز پر سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے لئے وقت مخصوص کرنا چاہئے جس میں وہ قوم کو اپنے پروگرام سے آگاہ کریں۔ ماضی میں پی ٹی وی نے ایسا کیا ہے۔

کیپٹن صفدر کی پی ٹی آئی کا پرچم تھامے بچے سے جا کر ملنے کی ویڈیو وائرل

بہرحال اس وقت ملک بھر میں پارٹیوں کے منشور پر سرگرم بحث چل رہی ہے حالانکہ منشور کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ حکومت میں آ کر منشور بہت پیچھے چلا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے پہلے دور میں روٹی، کپڑا اور مکان کا جامع اور دلکش وعدہ کیا گیا تھا وہ کہاں تک پورا ہوا اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں پھر حال ہی میں پی ٹی آئی کے بانی نے منشور دیا تھا کہ تین مہینے میں کرپشن ختم کر دی جائے گی، لُوٹا ہوا پیسہ باہر سے واپس لایا جائے گا جس سے ہمارے اقتصادی مسئلے حل ہوں گے۔ ایک کروڑ نوکریاں دی جائیں گی اور 50 لاکھ مکان تعمیر کئے جائیں گے۔ اس میں سے کتنے وعدے پورے ہوئے اس پر بھی بحث کی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play