پاکستان کا قیام جناب قائداعظمؒ کی ”آئینی و قانونی“ جدوجہد کے نتیجے میں قرارداد پاکستان پیش کئے جانے کے بعد صرف سات سال کے عرصہ میں ممکن ہوا تھا، لیکن قیام پاکستان کے بعد صرف سات سال کے ہی عرصہ میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت جمہوریت کی پٹری سے ایسی اُتری کہ آج تک دوبارہ ”جمہوری ٹرین“بحال نہ ہو سکی۔ جمہوری نظام کی بنیاد عوام کے ووٹوں پر رکھی جاتی ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والے اراکین اسمبلی ایک حکومت قائم کرتے ہیں جو ملک کو بہتر سے بہتر بنانے کی جدوجہد وہیں سے شروع کرتی ہے،جہاں سابقہ حکومت چھوڑ کر گئی تھی۔ پاکستان میں یہ عمل آج کل جاری ہے اور ”اُمید“ ہے کہ آئندہ ہفتے مکمل ہو جائے گا، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ”جمہوریت کی پٹری“ سے اُترنے والی جمہوری ٹرین اِس بار آئین و قانون کی پٹری پر چڑھ سکے گی۔ پاکستان میں آئین و قانون پر عملدرآمد ہوتے دیکھنا ہر باشعور پاکستانی کی خواہش ہے، مگر ہر آنے والی حکومت آئین و قانون کی پابند رہنے کے ”دعوؤں اور وعدوں“ کے باوجود خود آئین و قانون پر عمل نہیں کرتی۔ اِس بار بھی یہی دعوے کئے جا رہے ہیں، خواب دکھانے والے منشور دکھا کر عوام کو ووٹ دینے کے لئے راغب کیا جا رہا ہے، مگر 75سالہ تاریخ کو دیکھیں تو آئین و قانون پر عملدرآمد آج بھی خواب لگتا ہے۔

ورلڈ ٹریڈ سینٹر دبئی میں 4 روزہ عرب ہیلتھ نمائش، 40 پاکستانی نمائش کنندگان کی شرکت

عوام پر گزشتہ 40 برسوں سے مسلط سیاسی جماعتیں کیا آئین و قانون کے مطابق اس ملک اور اس کے معاملات کو چلا سکیں گی بظاہر تو ممکن نظر نہیں آرہا۔ 8 فروری 2024ء کے انتخابات ایک ایسی فضا میں ہو رہے ہیں، جس کی مثال 75 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ آنے والا ایک ہفتہ جس قدر اہم ہے اس کا ”تمام فریقین“ کو بخوبی اندازہ ہے، مگر حالات و واقعات جس طرح لمحہ بہ لمحہ بدل رہے ہیں اس نے ”دماغ گھما“ کر رکھ دیئے ہیں۔اس سے بڑی بد اعتمادی کیا ہو گی کہ الیکشن میں صرف ایک ہفتہ باقی ہے اور ”لوگ باگ“ ایک دوسرے سے ملاقات میں پہلا سوال یہی کرتے ہیں کہ الیکشن واقعی ہو جائیں گے۔ حالت یہ ہے کہ انتخابی نشان کے بغیر الیکشن لڑ رہی سیاسی جماعت کے پانچ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی مستردگی کے خلاف اپیلیں سپریم کورٹ نے منظور کر کے انتخابی فضاء ”گرما“ دی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ اجازت دے کر ایک نیا ”محاذ“ اپنے خلاف کھول لیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ”مجاہدین“ اس فیصلے پر باآواز بلند ”آہ و بکا“کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد گذشتہ کئی ماہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند قیدی نمبر 804 کی ٹیم کی ممبر صنم جاوید مسلم لیگ (ن) کی تین اہم شخصیات کے خلاف اکھاڑے میں اُتر چکی ہیں اور ایسا مقابلہ نظر آرہا ہے کہ کافی چہروں پر پسینہ ا بھی سے نظر آ رہا ہے۔ صنم جاوید کا ”جوڑ“ این اے 119 لاہور 3 پر مسلم لیگ(ن) کی مستقبل کی سربراہ اور وزیراعظم کے عہدے کی امیدوار مریم نواز شریف سے ہے۔ مریم نواز شریف کے بعد صنم جاوید کا دوسرا مقابلہ این اے 120 لاہور 4 پر مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما، سابق وفاقی وزیر اور سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے ہے،

عاطف اسلم کی 7 سال بعد بالی ووڈ میں واپسی

جبکہ صنم جاوید کا تیسرا مقابلہ صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 150 کے لئے سابق صوبائی وزیر اور لاہور مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکرٹری خواجہ عمران نذیر سے ہے۔ نوجوان صنم جاوید جن کے انتخابی نشان تینوں نشستوں کے لئے مختلف ہیں، اب 8 فروری کو ماؤنٹ ایورسٹ، بلکہ K2 کیسے سر کرتی ہیں؟ یہ ان حلقوں کے ووٹر طے کریں گے،جہاں ابھی سے جوش و خروش بے حد بڑھ گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے قیدی نمبر 804 کی جماعت کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو بھی اکھاڑے میں اُترنے کی اجازت دیدی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہتے ہوئے گجرات کی صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 32 پر اپنے کزن چودھری شجاعت حسین کے فرزند چودھری شافع حسین سے پنجہ آزمائی کریں گے۔ چودھری شافع حسین اپنے مخالف امیدوار چودھری پرویز الٰہی کی اہلیہ کے بھتیجے بھی ہیں۔ گجرات کی تاریخ کے اس اہم ترین ”میچ“ کے فیصلے پر بھی سیاسی پنڈتوں نے نظریں جما لی ہیں۔ سپریم کورٹ کے اسی فیصلے نے اٹک کی سیاسی فیملی کے سربراہ اور گجرات کے چودھریوں کے قریبی عزیز میجر (ر) طاہر صادق کو بھی اکھاڑے تک رسائی دیدی ہے۔ میجر طاہر صادق پرانے کھلاڑی ہیں ان کا مقابلہ این اے 49 پر مسلم لیگ (ن) کے شیخ آفتاب احمد سے ہو گا۔ قیدی نمبر 804 کے سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے اہم رہنما شوکت بسرا کو بھی اکھاڑے کی مٹی بدن پر ملنے کا موقع سپریم کورٹ نے دے دیا ہے۔ این اے 103 بہاولنگر پر مسلم لیگ(ن) کے نور الحسن تنویر شوکت بسرا کے مدمقابل ہیں۔سپریم کورٹ سے پانچویں اجازت ”مرشد“ کے کھلاڑی عمر اسلم کو ملی ہے، جو این اے 87 خوشاب پر مسلم لیگ (ن) کے شاکر بشیر اعوان سے ”ہاتھ پنجہ“ کریں گے۔

سینیئر اداکار طلعت حسین ڈیمینشیا کا شکار ہوگئے

8 فروری 2024ء کے ان انتخابات میں الیکشن کمیشن کا کردار بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے سرپرست اور ”باطنی“ سربراہ سابق صدر جناب آصف زرداری کے بہنوئی فضل اللہ پیچوہو اور مسلم لیگ(ن) کے تاحیات قائد جناب نواز شریف کے جذباتی سپاہی محسن شاہنواز رانجھا نے اپنے حلقوں کے ووٹروں کو جن الفاظ میں مخاطب کیا یا ”دھمکایا“ ایسا کسی مہذب معاشرے میں ہوتا تو الیکشن کمیشن نجانے ”کیا“ کر ڈالتا۔ محسن شاہنواز رانجھا نے سرگودھا میں سٹیج پر کھڑے ہو کر جلسہ گاہ میں موجود ووٹروں سے کہا کہ مسلم لیگ(ن) میں شامل ہو جاؤ۔ ورنہ یاد رکھو سانوں ڈانگ پھیرنی آوندی ہے۔ جبکہ فضل اللہ پیچوہو نے جو سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس 40 پر امیدوار ہیں سانگھڑ میں اپنے جلسے میں ووٹروں کو دھمکایا کہ اگر 8 فروری کو دوپہر 12بجے تک ووٹ ڈالنے کے لئے نہ نکلے تو جام صاحب مائنز (نہر) بند کر دیں گے۔ پھر پانی نہیں ملے گا۔ 8 فروری 2024ء کے انتخابات کی دیگ کے صرف ”دو چاول“ یعنی دو مثالیں پیش کی ہیں ورنہ سوشل میڈیا جو دکھا رہا ہے اگر ان کو مستقبل کے لئے ”مثال“ بنانے والا الیکشن کمیشن ”میدان“ میں ہوتا تو نئی تاریخ رقم ہوتی۔

لاہور میں نامعلوم افراد کی کار پر فائرنگ، ن لیگی امیدوار کے بھائی سمیت 5 افراد زخمی

QOSHE -          نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے  - سید شعیب الدین احمد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے 

10 0
31.01.2024

پاکستان کا قیام جناب قائداعظمؒ کی ”آئینی و قانونی“ جدوجہد کے نتیجے میں قرارداد پاکستان پیش کئے جانے کے بعد صرف سات سال کے عرصہ میں ممکن ہوا تھا، لیکن قیام پاکستان کے بعد صرف سات سال کے ہی عرصہ میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت جمہوریت کی پٹری سے ایسی اُتری کہ آج تک دوبارہ ”جمہوری ٹرین“بحال نہ ہو سکی۔ جمہوری نظام کی بنیاد عوام کے ووٹوں پر رکھی جاتی ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والے اراکین اسمبلی ایک حکومت قائم کرتے ہیں جو ملک کو بہتر سے بہتر بنانے کی جدوجہد وہیں سے شروع کرتی ہے،جہاں سابقہ حکومت چھوڑ کر گئی تھی۔ پاکستان میں یہ عمل آج کل جاری ہے اور ”اُمید“ ہے کہ آئندہ ہفتے مکمل ہو جائے گا، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ”جمہوریت کی پٹری“ سے اُترنے والی جمہوری ٹرین اِس بار آئین و قانون کی پٹری پر چڑھ سکے گی۔ پاکستان میں آئین و قانون پر عملدرآمد ہوتے دیکھنا ہر باشعور پاکستانی کی خواہش ہے، مگر ہر آنے والی حکومت آئین و قانون کی پابند رہنے کے ”دعوؤں اور وعدوں“ کے باوجود خود آئین و قانون پر عمل نہیں کرتی۔ اِس بار بھی یہی دعوے کئے جا رہے ہیں، خواب دکھانے والے منشور دکھا کر عوام کو ووٹ دینے کے لئے راغب کیا جا رہا ہے، مگر 75سالہ تاریخ کو دیکھیں تو آئین و قانون پر عملدرآمد آج بھی خواب لگتا ہے۔

ورلڈ ٹریڈ سینٹر دبئی میں 4 روزہ عرب ہیلتھ نمائش، 40 پاکستانی نمائش کنندگان کی شرکت

عوام پر گزشتہ 40 برسوں سے مسلط سیاسی جماعتیں کیا آئین و قانون کے مطابق اس ملک اور اس کے معاملات کو........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play