مرتضیٰ برلاس کا نام کون نہیں جانتا۔ اُن کا شمار ملک کے ممتاز نامور شعراء میں ہوتا ہے۔ وہ 20جنوری 1934 کو ملک مغلاں ضلع رام پور میں پیدا ہوئے۔ اُن کا اصل نام مرزا مرتضیٰ بیگ برلاس اور والد کا نام مرزا ناظر بیگ تھا۔ انہوں نے ایم ایس سی ریاضی آگرہ یونیورسٹی سے کی پھر پاکستان بننے کے بعد ستمبر 1956 میں ہجرت کرکے پاکستان میں سکونت اختیار کی۔ 1956 سے 1960 تک تدریس کے شعبے سے منسلک رہے اور بعد میں 1960 سے 1994 تک سول سروس میں خدمات سرانجام دیں۔ آجکل وہ حکومت پنجاب کے ریٹائرڈ پنشنر ہیں۔ وہ اپنی درویشانہ روش کے باعث مرکز دل و نگاہ ہیں یہی وجہ ہے کہ مجلس ترقی ادب کے صدر نشین عباس تابش صاحب نے اُن کی 90 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک بہت خوبصورت تقریب کا اہتمام کیا جس میں نامور شعراء اور ادیبوں کے علاوہ مرتضیٰ برلاس کے قریبی دوستوں اور فیملی کو بھی مدعو کیا گیا۔ یہ پروگرام مجلس ترقی ادب کے خوبصورت چائے خانہ میں منعقد کیا گیا تھا۔ اُن کی سالگرہ پرمرتضیٰ برلاس کی بیٹی بینش برلاس اور نواسی اُن کے داماد خاص طور پر انگلینڈ سے تشریف لائے اور اُن کے لاڈلے بیٹے ارتضیٰ برلاس امریکہ سے تشریف لائے تھے۔ ادیبوں اور شاعروں میں زاہد فخری، واجد میر،حمیدہ یاسمین، نیلم بشیر، رخشندہ نوید، فرحت پروین، کنول بہزاد، ڈاکٹر غافر شہزاد، صفدر الحمد پبلشرز، نعمان منظور، عمران منظور، اختر سلیمی، طارق بسرا ایڈیشنل سیکرٹری پنجاب، ڈاکٹر صائمہ ارم، مسرت کلانچوی، صوفیہ بیدار،آغا شاہد شریک محفل تھے۔ اس موقع پر ایڈمن آفیسر سمیرا چشتی بھی تقریب کو خوبصورت بنانے اور عشائیہ کے انتظامات میں بے حد مصروف نظر آرہی تھیں۔ سب سے پہلے صدر نشین عباس تابش نے مرتضیٰ برلاس کو اُن کی 90ویں سالگرہ پر مبارکباد پیش کی اور پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔ مرتضیٰ برلاس کے قریبی دوست اختر سلیمی صاحب نے بھی اُنہیں پھولوں کا گلدستہ پیش کیا اور اُن کی شخصیت کے حوالہ سے گفتگو فرمائی اور سالگرہ کی مبارکباد دی۔ ایڈیشنل سیکرٹری ناصر بسرا نے بھی اُنہیں سالگرہ کی مبارکباد دی۔ معروف رائٹر مسرت کلانچوی نے بھی مبارکباد اور دعاؤں کے ساتھ انہیں گلدستہ پیش کیا۔ ڈاکٹر صائمہ ارم اور حمیدہ یاسمین نے بھی اُن پر گفتگو کی اور رنگ برنگے پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔ تمام شعراء اور دوست احباب انہیں مبارکباد دے چکے تو مرتضیٰ برلاس کے ساتھ عباس تابش اور مہمانوں نے سالگرہ کا کیک کاٹا اسی اثناء میں تمام شعراء نے اُن سے کلام سنانے پر اصرار کیا۔ مرتضیٰ برلاس نے اپنا کلام پیش کیا اور خوب داد وصول کی۔

ہمیں کراچی میں امن قائم کرنے کی سزا مل رہی ہے: مصطفیٰ کمال

مرتضیٰ برلاس ایک بہت ارفع و اعلیٰ تہذیب کے شاعر ہیں ان کی ناموری اور مقبولیت کا پلہ بہت بھاری ہے۔ قدرت نے انہیں شعر کی تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا ہوا ہے۔ اُن کی شاعری بھرپور لطافت و نفاست سے عبارت ہے اسی لیے وہ اپنے ہم عصروں میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی درویشانہ روش سے گزاری وہ سول سروسز میں ہونے کے باوجود 5مرلہ کے گھر میں رہتے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نیک اور فرمانبردار اولاد سے نوازا ہے اور ان کی زندگی میں کشادگی دی ہے۔ عجز و نیاز ان کے اعلیٰ نسب اور خاندانی تہذیب کا فیضان ہے ان کی ذات و صفات کی خوبیوں کا نقش میرے دل میں بہت گہرا ہے۔ 1978 کا زمانہ تھا جب میرے والد پروفیسر صوفی گلزار احمد میانوالی ڈگری کالج میں پرنسپل تھے اور مرتضیٰ برلاس وہاں کمشنر تھے۔ میانوالی میں میرے والد کی مرتضیٰ برلاس سے اکثر ملاقات رہتی وہ جب گھر آتے ہمارے ساتھ ان کے اشعار اور ان کی شخصیت کے بارے میں باتیں کرتے وہ ان سے بہت محبت کرتے تھے خاص طور پر ان کے اخلاق و کردار کی بے حد تعریف کرتے تھے۔ مرتضیٰ برلاس صوفی تبسم سے بھی بے حد محبت کرتے اور اکثر اُن کے گھر واقع سمن آباد تشریف لاتے تھے۔ مرتضیٰ برلاس کی بیٹی بینش اور بیٹا ارتضیٰ برلاس بھی صوفی تبسم سے ملنے آتے جنہیں صوفی تبسم بہت پیار کرتے تھے اور انہوں نے اپنے دستخط شدہ ٹوٹ بٹوٹ اور جھولنے انہیں بڑی محبت سے بچپن میں تحفتاً دی تھیں۔

مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی آرٹیکل ون ایف کے خاتمے پر متفق

ان کے بچے آج بھی اس بات پر بے حد فخر کرتے ہیں کچھ برسوں پہلے کی بات ہے کہ ارتضیٰ برلاس USA میں animated فلموں پر کام کررہے تھے اور وہ پاکستان آئے ہوئے تھے کہ مجھے مرتضیٰ برلاس صاحب نے فون کیا کہ میرا بیٹا ارتضیٰ امریکہ سے آیا ہے آؤ آکر مل جاؤ۔ اُسے ٹوٹ بٹوٹ اور جھولنے کی کتابیں چاہئیں۔ میں یہ نے یہ کتابیں لیں اور ٹوٹ بٹوٹ کی کیسٹ بھی لے کر فوراً گھر پہنچ گئی اُن کے بیٹے ارتضیٰ نے بتایا کہ وہ ٹوٹ بٹوٹ پر animation فلم بنانا چاہتے ہیں اور ہمارے ملک کے بچے ٹوم اینڈ جیری اور مختلف کارٹون دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں اس کا احساس نہیں کہ ہمارے پاس صوفی تبسم کا لکھا کردار ٹوٹ بٹوٹ اور بہت سی نظمیں ہیں ان پر کام کرنا بہت ضروری ہے۔ خیر اس کے بعد میری ملاقات آج مجلس ترقی ادب میں ہوئی۔ پھر ایک دن میں اپنی شاعری کی کتاب کا مسودہ مرتضیٰ برلاس صاحب کے پاس لے گئی مجھے اُن کی رائے چاہیے تھی انہوں نے اس پر اپنے خوبصورت الفاظ سے میری کتاب کو مزید خوبصورتی عطا کردی۔ پھر اچانک ایک دن ان کی شریک حیات فریدہ برلاس قضائے الٰہی سے وفات پاگئیں۔ فریدہ بہت اچھی شریک حیات تھیں جب بھی برلاس صاحب کی سالگرہ ہوتی تو بہت اہتمام کرتیں اور قریبی دوستوں کو مدعو کرتیں جن میں نوید قتیل، قتیل شفائی کے بیٹے اور اُن کی بیگم ارم بھابھی کو بھی مدعو کیا جاتا۔ قتیل شفائی، مصطفی راہی،ذوالفقار مصطفی، سکیب جلالی اور شفیق زیدہ برلاس صاحب کے رفیقانِ فاقت تھے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اُن کے فیضانِ ارادت غالب، اقبال، جگر، فیض، ندیم اور عطاء اللہ خان عطاگنڈہ پور رہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

شریک حیات کے گزر جانے کے بعد برلاس صاحب کی تنہائیوں کے سفر کا آغاز ہوگیا اُن کی ہمشیرہ ماہ پارہ سمیع الدین جو اُن سے بے حد محبت کرتی تھیں انہیں لاہور سے اپنے پاس اسلام آباد لے گئیں مگر وہ بھی تین سال پیشتر انتقال کرگئیں میری دعا ہے کہ وہ اور ان کا کلام اور ان کی ہمیشہ کی ساتھی ان کی کتابیں جن سے و ہ بے حد محبت کرتے ہیں ہمیشہ اُن کا دل بہلاتی رہیں اور وہ زندگی کی دائمی مسرت سے سرشار رہیں۔

آج کے دور کی کیفیات مرتضیٰ برلاس کس طرح محسوس کررہے ہیں یہی اچھی شاعری کی پہچان ہے کہ وہ قاری کے دل میں ایک تحریک ضرور پیدا کردیتے ہیں

بلوچستان کے شہر مچھ میں زور دار دھماکے کی اطلاعات

درباری کی عزت نہیں ہوتی ہے دلوں میں

عزت تو وہ ہوتی ہے کہ دنیا تجھے سمجھے

QOSHE -     ”باتوں کا تری رمز کوئی اور نہ سمجھا“ مرتضیٰ برلاس - ڈاکٹر فوزیہ تبسم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

    ”باتوں کا تری رمز کوئی اور نہ سمجھا“ مرتضیٰ برلاس

11 1
30.01.2024

مرتضیٰ برلاس کا نام کون نہیں جانتا۔ اُن کا شمار ملک کے ممتاز نامور شعراء میں ہوتا ہے۔ وہ 20جنوری 1934 کو ملک مغلاں ضلع رام پور میں پیدا ہوئے۔ اُن کا اصل نام مرزا مرتضیٰ بیگ برلاس اور والد کا نام مرزا ناظر بیگ تھا۔ انہوں نے ایم ایس سی ریاضی آگرہ یونیورسٹی سے کی پھر پاکستان بننے کے بعد ستمبر 1956 میں ہجرت کرکے پاکستان میں سکونت اختیار کی۔ 1956 سے 1960 تک تدریس کے شعبے سے منسلک رہے اور بعد میں 1960 سے 1994 تک سول سروس میں خدمات سرانجام دیں۔ آجکل وہ حکومت پنجاب کے ریٹائرڈ پنشنر ہیں۔ وہ اپنی درویشانہ روش کے باعث مرکز دل و نگاہ ہیں یہی وجہ ہے کہ مجلس ترقی ادب کے صدر نشین عباس تابش صاحب نے اُن کی 90 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک بہت خوبصورت تقریب کا اہتمام کیا جس میں نامور شعراء اور ادیبوں کے علاوہ مرتضیٰ برلاس کے قریبی دوستوں اور فیملی کو بھی مدعو کیا گیا۔ یہ پروگرام مجلس ترقی ادب کے خوبصورت چائے خانہ میں منعقد کیا گیا تھا۔ اُن کی سالگرہ پرمرتضیٰ برلاس کی بیٹی بینش برلاس اور نواسی اُن کے داماد خاص طور پر انگلینڈ سے تشریف لائے اور اُن کے لاڈلے بیٹے ارتضیٰ برلاس امریکہ سے تشریف لائے تھے۔ ادیبوں اور شاعروں میں زاہد فخری، واجد میر،حمیدہ یاسمین، نیلم بشیر، رخشندہ نوید، فرحت پروین، کنول بہزاد، ڈاکٹر غافر شہزاد، صفدر الحمد پبلشرز، نعمان منظور، عمران منظور، اختر سلیمی، طارق بسرا ایڈیشنل سیکرٹری پنجاب، ڈاکٹر صائمہ ارم، مسرت کلانچوی، صوفیہ بیدار،آغا شاہد شریک محفل تھے۔ اس موقع پر ایڈمن آفیسر سمیرا چشتی بھی تقریب کو خوبصورت بنانے اور عشائیہ کے انتظامات میں بے حد مصروف نظر آرہی تھیں۔ سب سے پہلے صدر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play