اردوزبان میں سفرنامہ نگاری کاآغازمغل شہنشاہ بہادرشاہ ظفرؔکے برطانیہ بھجوائے گئے سفیرنواب کریم خان کے”سیاحت نامہ“سے ہوتاہے۔نواب کریم خان مغل سفیرکی حیثیت سے سن1839میں لندن پہنچے اور چندبرس وہاں قیام کیا۔ہمارے بعض دانشوروں کااس بابت اصرار ہے کہ اردوکاپہلاسفرنامہ یوسف خان کمبل پوش کاتاریخِ یوسفی وعجائبات فرنگ ہے۔اس کی دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ اگرچہ یہ سفرنامہ سن1847میں شائع ہواہے مگرمصنف نے انگلستان کایہ سفرمغل سفارتکارسے چندبرس قبل یعنی سن1836میں اختیارکیااوراسی دوران یہ رودادِسفر بھی تحریرفرمادی تھی،لہٰذاتاریخی اعتبارسے اسے ہی پہلا سفرنامہ کہیں گے۔اس بابت ایک اوربڑانام سرسیداحمدخان کاآتاہے۔سرسیداحمدخان نے جہاں برصغیرپاک وہند کے مسلمانوں میں جدیدتعلیم کی اہمیت اجاگرکرنے اورعلی گڑھ یونیورسٹی جیسے تعلیمی ادارے قائم کرکے مسلمانان ہندکی بے پناہ خدمت سرانجام دی ہے،وہاں انہوں نے اپنی قوم کوجدیددنیاسے متعارف کروانے کابیڑابھی اٹھارکھاتھا۔اسی سلسلے میں ان کی کاوش برطانیہ کاسفرنامہ”مسافران لندن“بھی ہے،جوکہ پہلے علی گڑھ کے گزٹ اور تہذیب الاخلاق میں قسط وارشائع ہوتارہا۔انگلستان میں 1869ء کے دنوں میں کیاحالات تھے، اس بات کااپنے سترہ ماہ کے قیام کے دوران انہوں نے بڑی محنت سے مشاہدہ اورتجزیہ کیا۔تمام ترتعصبات سے بالاترہوکربرطانیہ کے سماج،ثقافت اورمعیشت کوگہرائی میں سمجھنے اورجانچنے کی کوشش کی، و ہاں کی درس گاہوں کاتفصیلی تذکرہ انہوں نے خطوط کی صورت میں بیان کیاتھا۔اس تمہیدی تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اردوزبان میں سفرنامہ نگاری کی ابتداء برطانیہ اوربالخصوص لندن کے سفرناموں سے ہوئی ہے۔ اسی حوالے سے ایک نئی معیاری کتاب میری نظرسے گزری ہے۔ فقیراللہ خان کاتازہ سفرنامہ ”یہ ہے لندن“ اس درخشندہ روایت میں ایک خوبصورت اضافہ ہے اورارتقائی عمل کاغمازبھی ہے۔

ہمیں کراچی میں امن قائم کرنے کی سزا مل رہی ہے: مصطفیٰ کمال

جذبات کاشاعرانہ بیان اس سفرنامے کاخاصہ ہے۔زبان سلیس اورسہل ہونے کے ساتھ ساتھ طرزتحریرانتہائی دلچسپ ہے۔یہ بات بیان کرنا میں ضروری سمجھتاہوں کہ یہ سفرنامہ آجکل کے عمومی سفرناموں کے برعکس بے حدمعلوماتی ہے۔ اگرچہ دنیاکے معتبرادیب اور تنقید نگار سفرنامے کو فکشن قراردیتے ہیں مگرپھربھی سفرنامہ ناول یاپھرافسانہ نہیں ہوتاہے اردوسفرناموں کے مصنفین اگرخود پربہتان لگانے پرتلے ہوئے ہوں اورناکردہ گناہوں کاسزاوارخودکوقراردینے پر راضی ہوں تومجھے بھی ان پرکوئی خاص اعتراض تو نہیں ہے،مگرکیا ہی اچھاہواگروہ احباب قرطاس و قلم تھوڑی بہت معلومات ان منزلوں اورمقامات کے متعلق بھی پیش کردیا کریں جہاں کاسفرنامہ وہ تحریرکررہے ہوتے ہیں۔”یہ ہے لندن“اس لحاظ سے منفردسفرنامہ ہے کہ اس میں معلومات کادریابہتاہے۔شہرکے تمام اہم گلی، کوچوں اور چوک،چوراہوں کابیان اس تفصیل سے آپ نے پہلے شائدہی کبھی پڑھاہوگا۔تاریخ اورحال کا ایسا خوبصورت امتزاج میں نے توکم ازکم بہت ہی کم کتابوں میں بیان ہوتے پڑھاہے۔منظرکشی لاجواب ہے۔ہماری قوم میں جن لوگوں کے پاس سفرکرنے کی استطاعت اوروسائل ہوتے ہیں،ان کے پاس عمومی طورپرقلم نہیں ہوتا اورجواہلِ قلم ہیں ان کے پاس دنیاگھومنے کے عام طورپروسائل نہیں ہوتے، یہ فقیراللہ خان صاحب کی خوش بختی ہے کہ مالک کائنات نے انہیں مادی وسائل سے بھی مالامال کررکھاہے اوروہ قلم قبیلے کابھی حصہ ہیں۔میں تواسے قارئین کی خوش قسمتی ہی کہوں گاکہ انہیں ”یہ ہے لندن“جیساسفرنامہ پڑھنے کاموقع میسرآیاہے۔اس میں ناصرف عہدِحاضرکی جھلک اورآج کے حالات کابیان ہے بلکہ ڈیڑھ، دوصدیاں پیشترسفرنامہ نگاری کی جس روایت کاآغاز کیاگیاتھا،اس روایت کی پاسداری اورارتقاء بھی نظر آتاہے۔عہدِحاضرکے ممتازسفرنامہ نگار مستنصرحسین تارڑسے میں نے سوال کیا کہ کیاسفرنامہ ادب کا حصہ ہے؟ان کاجواب بڑادلچسپ تھا،کہنے لگے کہ اگرقراۃ العین حیدردھوبی کاحساب بھی لکھے گی تووہ بھی ادب کاحصہ شمارہوگا۔سفرنامہ ادب کاحصہ ہے یانہیں ہے،اس کا انحصارلکھنے والے پر ہے۔عرض کرنے کامقصدہے کہ ادب کاحصہ شمار ہونے یاپھرادب سے خارج ہونے کادارومداراورفیصلہ لکھنے والے کی تحریرکامعیارطے کرتاہے۔فقیراللہ خاں کا”یہ ہے لندن“پڑھ کرمیں یقین سے کہہ سکتاہوں کہ وہ ادب کاحصہ اورایک علمی روایت کاخوبصورت ارتقاء ہے۔جاذبِ نظررنگین سرورق اور معیاری جلدکے ساتھ اس کتاب کونستعلیق مطبوعات نے لاہورسے شائع کیاہے۔عمدہ چھپائی اورآفسٹ کاغذ پر224صفحات پرمشتمل اس سفرنامے کی قیمت ایک ہزارروپے ہے۔سچی بات تویہ ہے کہ مہنگائی کے اس دورمیں یہ قیمت زیادہ محسوس نہیں ہوتی ہے۔

مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی آرٹیکل ون ایف کے خاتمے پر متفق

سرسیداحمدخان کے سفرنامے”مسافران لندن“ اور”یہ ہے لندن“میں مجھے جس مشترکہ خوبی نے متاثرکیاوہ تعلیمی اداروں کاتفصیلی بیان اورطرز تدریس کوموضوع بناناہے۔فقیراللہ خاں نے کتاب کاپوراایک باب تعلیمی اداروں کے تعارف اوران سے متعلق گفتگوکے لئے مختص کیاہے جس میں ٹاپ ٹین اداروں کاتذکرہ ہے۔امپریل کالج(IC) یونیورسٹی کالج لندن(UCL)لندن سکول آف اکنامکس اینڈپولیٹیکل سائنس یونیورسٹی (LSE) کنگزکالج لندن(KCL)کوئین میری یونیورسٹی آف لندن،سٹی یونیورسٹی لندن،برک بیک یونیورسٹی لندن، برونل یونیورسٹی لندن،کنگسٹن یونیورسٹی لندن (KUL)ایس اواے ایس یونیورسٹی (SOAS)۔ ان تدریسی اداروں کے علاوہ اخبارات وجرائدکابڑی تفصیل سے جائزہ پیش کیاگیاہے،بی بی سی لندن پرایک الگ باب باندھاگیاہے۔سفرنامے کے مذکورہ بالا حصے کوتعلیم کی روشنی کے مینارکانام دیاگیاہے۔ایک حصہ میوزیم اور دیگردوحصے باغات واہم پلوں کے متعلق ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

اس دنیامیں جس شہرکوسب سے پہلے عروس البلاد کانام دیاگیاوہ لندن تھا۔یہ ایک ایسی سلطنت کی راجدھانی رہاجس کاسارے جہاں میں طوطی بولتاتھا، جس کی حکومت کے زیراثرعلاقوں کی وسعت اس قدرزیادہ تھی کہ کبھی اس سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتاتھا۔بعض بذلہ سنج دوست سردموسم کے تناظرمیں اب یہ پھبتی کستے ہیں کہ جس سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا،آج کل وہاں سورج طلوع ہی نہیں ہوتا۔برطانیہ کے حکمرانوں نے لندن میں بیٹھ کرشرق وغرب کے ممالک پرحکمرانی کی،اسی وجہ سے لندن شہرتاج وتخت کے وارثوں کامیزبان بنا۔مصنف کاکہناہے کہ یہ میزبانی کسی نہ کسی صورت اب بھی لندن کے حصے میں آتی ہے۔دنیا کے کئی ممالک کی حکومتیں جب ڈگمگانے لگتی ہیں توان کے حکمرانوں کولندن ہی پناہ دیتاآرہاہے۔یوں اس شہرکادامن بہت وسیع ہے۔دریائے ٹیمزکے کنارے واقع لندن شہرہرصورت اپنی خوبصورتی میں بے مثال ہے۔اس شہرکے بے مثال حسن میں دریائے ٹیمزکاکلیدی کردار ہے۔بکنگھم پیلس ہویاہاؤس آف پارلیمنٹ،بگ بینگ ٹاورہویالندن برج، عہدِحاضر میں تعمیرکیاگیامیلینم ڈوم ہویالندن آئی، یہ سب ٹیمزکے کنارے واقع ہیں۔یہ دریالندن کے گلے کاہار ہے،جوطرح طرح کے خوبصورت اورچمکدارموتیوں سے مزین ہے۔دوہزارسال پیشتربسائے گئے اس شہرکی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ گزشتہ ایک ہزاربرس میں کبھی کوئی غیرملکی فوج اس میں داخل نہیں ہوسکی۔اس عالم رنگ وبومیں جس شہرکے سب سے زیادہ سفرنامے لکھے گئے ہیں وہ بلاشبہ لندن ہی ہے،”یہ ہے لندن“اس قدیم روایت میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔

بلوچستان کے شہر مچھ میں زور دار دھماکے کی اطلاعات

QOSHE -            سفرنامے کاارتقاء اورلندن - عامر بن علی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

           سفرنامے کاارتقاء اورلندن

12 0
30.01.2024

اردوزبان میں سفرنامہ نگاری کاآغازمغل شہنشاہ بہادرشاہ ظفرؔکے برطانیہ بھجوائے گئے سفیرنواب کریم خان کے”سیاحت نامہ“سے ہوتاہے۔نواب کریم خان مغل سفیرکی حیثیت سے سن1839میں لندن پہنچے اور چندبرس وہاں قیام کیا۔ہمارے بعض دانشوروں کااس بابت اصرار ہے کہ اردوکاپہلاسفرنامہ یوسف خان کمبل پوش کاتاریخِ یوسفی وعجائبات فرنگ ہے۔اس کی دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ اگرچہ یہ سفرنامہ سن1847میں شائع ہواہے مگرمصنف نے انگلستان کایہ سفرمغل سفارتکارسے چندبرس قبل یعنی سن1836میں اختیارکیااوراسی دوران یہ رودادِسفر بھی تحریرفرمادی تھی،لہٰذاتاریخی اعتبارسے اسے ہی پہلا سفرنامہ کہیں گے۔اس بابت ایک اوربڑانام سرسیداحمدخان کاآتاہے۔سرسیداحمدخان نے جہاں برصغیرپاک وہند کے مسلمانوں میں جدیدتعلیم کی اہمیت اجاگرکرنے اورعلی گڑھ یونیورسٹی جیسے تعلیمی ادارے قائم کرکے مسلمانان ہندکی بے پناہ خدمت سرانجام دی ہے،وہاں انہوں نے اپنی قوم کوجدیددنیاسے متعارف کروانے کابیڑابھی اٹھارکھاتھا۔اسی سلسلے میں ان کی کاوش برطانیہ کاسفرنامہ”مسافران لندن“بھی ہے،جوکہ پہلے علی گڑھ کے گزٹ اور تہذیب الاخلاق میں قسط وارشائع ہوتارہا۔انگلستان میں 1869ء کے دنوں میں کیاحالات تھے، اس بات کااپنے سترہ ماہ کے قیام کے دوران انہوں نے بڑی محنت سے مشاہدہ اورتجزیہ کیا۔تمام ترتعصبات سے بالاترہوکربرطانیہ کے سماج،ثقافت اورمعیشت کوگہرائی میں سمجھنے اورجانچنے کی کوشش کی، و ہاں کی درس گاہوں کاتفصیلی تذکرہ انہوں نے خطوط کی صورت میں بیان کیاتھا۔اس تمہیدی تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اردوزبان میں سفرنامہ نگاری کی ابتداء برطانیہ اوربالخصوص لندن کے سفرناموں سے ہوئی ہے۔ اسی حوالے سے ایک نئی معیاری کتاب میری نظرسے گزری ہے۔ فقیراللہ خان کاتازہ سفرنامہ ”یہ ہے لندن“ اس درخشندہ روایت میں ایک........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play