علی رؤف مگسی 25دسمبر 1973ء کو ویٹ مین روڈ مغلپورہ لاہور میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد لیفٹیننٹ کرنل سردار عبدالرؤف خاں مگسی اس وقت کنٹرول لائن پر پونچھ سیکٹر چڑی پر دفاع وطن کے تقاضے پورے کررہے تھے۔یادرہے کہ کرنل سردار عبدالرؤف خاں مگسی 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے ہیرو اور غازی بھی ہیں۔ علی مگسی نے ایف ایس سی کا امتحان پاس کرکے 10مئی 1993ء کوپاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کو جوائن کیا۔دوسال کے بعد پاس آؤٹ ہوئے اور 40بلوچ رجمنٹ (جس کی بنیاد کرنل سردارعبدالرؤف خاں مگسی نے رکھی تھی)کا حصہ بن گئے۔یہ 28جنوری 1998ء کی بات ہے کہ کیپٹن علی نے اپنے والد سے پوچھا کہ ابو جی اب پاک جنگ کے بھارت کے کتنے امکانات ہیں، کرنل مگسی نے کہا بیٹا اب دونوں ایٹمی ملک بن چکے ہیں،اس لیے براہ راست جنگ کا کوئی امکان نہیں۔والدکی بات سن کر کیپٹن علی نے مایوس ہو کر پوچھا۔ ابو جی میں نے تو فوج کی وردی پہنی ہی اس لیے ہے کہ دشمن سے دو دو ہاتھ کروں، اگر جنگ کی کوئی امید نہیں تو پھر فوج میں میرا شامل ہونا بیکار گیا۔بیٹے کو مایوس دیکھ کر والدنے کہا۔ علی بیٹا دو محاذ اب بھی گرم ہیں جہاں پاکستان آرمی اور بھارتی فوج سرپیکار ہے۔کیپٹن علی نے جلدی سے پوچھا ابو جی وہ کونسے محاذ ہیں؟ کرنل مگسی نے بتا یا بیٹا کنٹرول لائن اور سیاچن کے محاذ پر اب بھی دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے موزچہ زن ہیں۔جنگی معرکے بھی روز لڑے جاتے ہیں اور شہادتوں کا ہونا بھی معمول کا حصہ ہیں۔ ابھی کرنل مگسی نے بات مکمل نہیں کی تھی کہ کیپٹن علی نے التجا بھرے لہجے میں کہا ابو جی پھر میری پوسٹنگ سیاچن میں کر وا دیں۔میں آج اور ابھی وہاں جانے کو تیار ہوں۔کرنل مگسی نے کہا علی بیٹا تم نے سیاچن کا صرف نام سنا ہے۔اس کی قہراور حشر سامانیوں کا تمہیں اندازہ نہیں ہے۔ سیاچن دنیا کا منفرد اور بلند ترین محاذ جنگ ہے جو 20 سے 26ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے۔ آج تک دنیا کے کسی سورما، کسی فاتح، کسی سکندر اعظم،کسی چنگیزخان، کسی نپولین، کسی رومیل،کسی میکارتھر نے وہاں جانے کا تصور بھی نہیں کیا۔جنگ لڑنا تو درکنار ناقابل عبور برفانی گھاٹیوں اور ڈھلوانوں کو دیکھ کر پسینہ آ جاتا ہے۔کرنل مگسی نے کہا علی بیٹایہ ایسا بلند ترین مقام ہے جہاں تا حدنگاہ تک برف ہی برف دکھائی دیتی ہے، زندگی ناپید،سانس لینا دشوار بلکہ وہاں ایک ایک قدم اٹھانا بھی محال ہے۔جہاں موت زندگی سے پہلے،بیماری تندرستی سے پہلے پہنچ جاتی ہے۔جہاں انسان،پانی اور خوراک کو ترستے ہیں،جہاں قدم قدم پر سانس رکتی اور خون رگوں میں جمتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سیاچن میں گیارہ مہینے برف پڑتی ہے، برفانی طوفان آتے ہیں جو انسانوں سمیت راستے میں آنے والی ہر شے کو اڑا کر لے جاتے ہیں۔کرنل مگسی کو یقین تھا کہ میری یہ گفتگو سن کر بیٹا علی سیاچن پرجانے سے باز آجائے گا لیکن اس وقت کرنل مگسی کو حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب کیپٹن علی کا سیاچن جانے کے لیے اصرار مزید بڑھ گیا۔

اردن میں امریکی فوجی اڈے پر ڈرون حملہ، 3 ہلاک، متعدد زخمی

چنانچہ بیٹے کے ہاتھوں مجبور ہوکر کرنل مگسی نے اپنے لخت جگر کی سیاچن جانے والی 40بلوچ رجمنٹ میں پوسٹنگ کروا دی۔جب سیاچن تعیناتی کا حکمنامہ ٹائپ ہو رہا تھا تو جی ایچ کیو کا فوجی افسر حیرت سے کرنل مگسی کا چہرہ دیکھ رہا تھااور کہنے لگا کرنل مگسی تم پہلے باپ ہو جو اپنے بیٹے کو دانستہ سرد جہنم میں دھکیل رہے ہو۔اس کے جواب میں کرنل مگسی نے کہا کیپٹن علی کی رگوں میں بلوچ قوم کا گرم لہو ہے جو ہر خطرے کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور جرائت رکھتا ہے۔ قصہ مختصر کیپٹن علی 40 بلوچ رجمنٹ کا حصہ بن کے کرنل کامران رضا کی سرپرستی میں سیاچن جا پہنچے۔ وہاں کیپٹن علی نے پہلے ہی معرکے میں دشمن کے درجنوں فوجیوں کو جہنم واصل کرکے سطح سمندر سے 26ہزار فٹ بلندچوٹی پر قبضہ کرلیا۔کئی ریسکو آپریشن کرکے اپنے ساتھیوں کی جان بچائی۔ سیاچن کی حاجی پوسٹ جسے سب سے خطرناک پوسٹ قرار دیا جاتا ہے،کیپٹن علی نے کئی مرتبہ وہاں وطن عزیز کی حفاظت کے مشکل ترین فرائض انجام دیئے۔ایک رات کیپٹن علی برف پوش وادیوں کی نگرانی پر مامور تھے کہ انہیں فضا میں اذان کی آواز سنائی دی۔وہ حیران ہوئے کہ سیاچن میں انسانی آبادی کا دور دور تک وجود نہیں ہے،پھر یہ اذان کی آواز کہاں سے آ رہی ہے۔پھر دل میں خیال آیا کہ شاید تہجد کا وقت ہوچکا ہے، اس لیے عالم غیب سے تہجد پڑھنے کی تلقین ہورہی ہے۔چنانچہ انہوں نے بھی برف پر نماز تہجد کی نیت کرکے نماز پڑھنی شروع کردی۔جب انہوں نے دائیں جانب سلام پھیراتو انہیں دود دور تک تاحد نظر سفید لباس والے نماز پڑھتے دکھائی دیئے۔ جب بائیں جانب سلام پھیرا تو بائیں جانب بھی ہزاروں روحیں سفید لباس میں تہجد کی نماز ادا کررہی تھیں۔ یہ پراسرار منظر دیکھ کر کیپٹن علی پر روحانی وجد اور خوف طاری ہو گیا، وہ جلدی سے اپنے خیمے (ایگلو) میں جا پہنچے تو جوانوں نے بدحواسی دیکھ کر ماجرا پوچھا۔آپ نے جب یہ واقعہ سنایا تو ساتھیوں نے مسکرا کر کہا سر یہ منظر آپ کو بھی نظر آگیا ہے۔ گویا سیاچن پہنچنے والا ہر شخص شہیدوں کی روحوں کی باز گشت بہت شدت سے محسوس کرتا ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (پیر) کا دن کیسا رہے گا؟

26ہزار فٹ بلند چوٹیوں سے واپس آئے ہوئے ابھی انہیں زیادہ دن نہیں ہوئے کہ سیاچن کی خضر پوسٹ پر کیپٹن بلال کا یونٹ ہیڈکوارٹر میں بار بار پیغام موصول ہورہا تھا،کہ ان کی بہن کی شادی ہے۔اس لیے میری جگہ کوئی متبادل بھیجیں۔کمانڈنگ آفیسر نے جواب دیا فی الوقت یونٹ میں کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔کیپٹن بلال کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے کیپٹن علی مگسی نے خضر پوسٹ پر خود جانے کا فیصلہ کرلیا اورکمانڈنگ آفیسر کو سیلوٹ کرکے وہ بلندیوں کی جانب اپنے ساتھیوں سمیت بڑھنے لگے۔ جب آپ "لبیک پوسٹ "پر پہنچے تو اس پوسٹ کمانڈر نے کہا کیپٹن علی رات کو سفر کریں کیونکہ دن کے اجالے میں دشمن دیکھ کر گولہ باری شروع کردیتا ہے اور گولہ باری سے برفانی تودے گرنے لگتے ہیں اور اس حالت میں کئی جوانوں کی شہادتیں پہلے بھی ہوچکی ہیں۔کیپٹن علی مگسی نے رات کا انتظار کرنے کی بجائے دن میں ہی سفر جاری رکھا۔ ابھی آپ کچھ دور ہی گئے تھے کہ دشمن کی شیلنگ اور سلائیڈنگ شروع ہوگئی۔جس کی زد میں آکر کیپٹن علی روف مگسی نے اپنے پانچ ساتھیوں سمیت 25جنوری 1999ء کو جام شہادت نوش کیا۔یہ وہی مقام تھا جہاں کچھ عرصہ پہلے انہوں نے ایک پتھر پر اپنا نام لکھا تھااس وقت انہیں یہ خبر نہیں تھی کہ یہی ان کا مقام شہادت ہوگا۔ 28جنوری 1999ء کو کیپٹن علی روف مگسی شہید کا جسد خاکی لاہور میں جب ان کے گھرپہنچا تو ہر دیکھنے والا یہیں گمان کررہا تھا کہ کیپٹن علی سو رہا ہے، اس کے چہرے پر ذرہ بھی مردنی کے آثا ر نہ تھے۔وہ شہید تھا اور قرآن میں شہیدوں کو زندہ کہا جاتا ہے۔

اردن میں بیس پر ڈرون حملے میں تین امریکی فوجی ہلاک، امریکی صدر کا بدلہ لینے کا اعلان

QOSHE -        پاک فوج کا عظیم سپوت کیپٹن علی رؤ ف مگسی شہید(تمغہ بسالت) - اسلم لودھی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       پاک فوج کا عظیم سپوت کیپٹن علی رؤ ف مگسی شہید(تمغہ بسالت)

8 0
29.01.2024

علی رؤف مگسی 25دسمبر 1973ء کو ویٹ مین روڈ مغلپورہ لاہور میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد لیفٹیننٹ کرنل سردار عبدالرؤف خاں مگسی اس وقت کنٹرول لائن پر پونچھ سیکٹر چڑی پر دفاع وطن کے تقاضے پورے کررہے تھے۔یادرہے کہ کرنل سردار عبدالرؤف خاں مگسی 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے ہیرو اور غازی بھی ہیں۔ علی مگسی نے ایف ایس سی کا امتحان پاس کرکے 10مئی 1993ء کوپاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کو جوائن کیا۔دوسال کے بعد پاس آؤٹ ہوئے اور 40بلوچ رجمنٹ (جس کی بنیاد کرنل سردارعبدالرؤف خاں مگسی نے رکھی تھی)کا حصہ بن گئے۔یہ 28جنوری 1998ء کی بات ہے کہ کیپٹن علی نے اپنے والد سے پوچھا کہ ابو جی اب پاک جنگ کے بھارت کے کتنے امکانات ہیں، کرنل مگسی نے کہا بیٹا اب دونوں ایٹمی ملک بن چکے ہیں،اس لیے براہ راست جنگ کا کوئی امکان نہیں۔والدکی بات سن کر کیپٹن علی نے مایوس ہو کر پوچھا۔ ابو جی میں نے تو فوج کی وردی پہنی ہی اس لیے ہے کہ دشمن سے دو دو ہاتھ کروں، اگر جنگ کی کوئی امید نہیں تو پھر فوج میں میرا شامل ہونا بیکار گیا۔بیٹے کو مایوس دیکھ کر والدنے کہا۔ علی بیٹا دو محاذ اب بھی گرم ہیں جہاں پاکستان آرمی اور بھارتی فوج سرپیکار ہے۔کیپٹن علی نے جلدی سے پوچھا ابو جی وہ کونسے محاذ ہیں؟ کرنل مگسی نے بتا یا بیٹا کنٹرول لائن اور سیاچن کے محاذ پر اب بھی دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے موزچہ زن ہیں۔جنگی معرکے بھی روز لڑے جاتے ہیں اور شہادتوں کا ہونا بھی معمول کا حصہ ہیں۔ ابھی کرنل مگسی نے بات مکمل نہیں کی تھی کہ کیپٹن علی نے التجا بھرے لہجے میں کہا ابو جی پھر میری پوسٹنگ سیاچن میں کر وا دیں۔میں آج اور ابھی وہاں جانے کو تیار ہوں۔کرنل مگسی نے کہا علی بیٹا تم نے سیاچن کا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play