صوفیاء کے مزارات اور وزیراعلیٰ پنجاب
مسلمانوں کے بزرگان دین،اولیاء یا صوفیاء جہاں بھی گئے اپنی عظمتوں کے نقوش چھوڑ آئے اور یہ سلسلہ کسی ایک شہر، ملک یا براعظم تک محدود نہیں ہے۔ ہر جگہ کوئی نہ کوئی بابا بیٹھا یا لیٹا ہوا مل جاتا ہے اور لوگ اس کی باتیں کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ کہیں ان کی علمی خدمات کے تذکرے ہیں، کہیں ان کے روحانی مقامات کے اور کہیں ان کی محیر العقول کرامات کے چرچے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس وقت دنیا میں تو نہیں ہیں لیکن ان کی قبریں مرجع خلائق بن چکی ہیں اور ان کی خانقاہیں بہت بڑے بڑے اداروں کی شکل اختیار کرچکی ہیں وہاں درسگاہیں ہیں، لنگر خانے ہیں روحانی میخانے ہیں، آستانے ہیں۔ محفل سماع اور پھر اس میں کیف و سرور،بلکہ وجد، بے خودی اور استغراق جو کہ وصال میں بھی بدل جاتا ہے۔ ویسے یہ سارا کچھ اب تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے تاہم کہیں کہیں اب بھی چشم بینا کو چراغ جلتا نظر آ ہی جاتا ہو گا۔ دنیاوی حاجات کی دعاؤں کے لئے تو خیر آج بھی ہر درگاہ پر رش دیدنی ہوتا ہے۔ معاشی، معاشرتی، سیاسی، آرٹ اور آرٹی کلچر کے حوالے سے بھی ان درگاہوں کی ایک اپنی اہمیت ہے۔
اردن میں امریکی فوجی اڈے پر ڈرون حملہ، 3 ہلاک، متعدد زخمیبرصغیر پاک و ہند کے بارے میں ایک غلط فہمی پیدا کر دی گئی ہے کہ صوفیا شاید یہیں پیدا ہوئے ہیں اور درباروں کی بھی اِسی خطے میں بھرمار ہے۔ تاریخ کے طالب علم کی آنکھ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوتی۔ وہ تو امام ولایت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جہاں عراق میں دیکھتا ہے وہاں حسن بصریؒ، ابو الا سود د ولی ؒ، عبد القادر جیلانی معروف کرخیؒ، جنید بغدادیؒ، سری سقطیؒ، محی الدین ابن عربیؒ، شہاب الدین سہروردیؒ وغیرہ وغیرہ کو عرب کی سرزمین پر جابجا دیکھتا ہے۔ وہ وسطی ایشیا........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website