مسلمانوں کے بزرگان دین،اولیاء یا صوفیاء جہاں بھی گئے اپنی عظمتوں کے نقوش چھوڑ آئے اور یہ سلسلہ کسی ایک شہر، ملک یا براعظم تک محدود نہیں ہے۔ ہر جگہ کوئی نہ کوئی بابا بیٹھا یا لیٹا ہوا مل جاتا ہے اور لوگ اس کی باتیں کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ کہیں ان کی علمی خدمات کے تذکرے ہیں، کہیں ان کے روحانی مقامات کے اور کہیں ان کی محیر العقول کرامات کے چرچے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس وقت دنیا میں تو نہیں ہیں لیکن ان کی قبریں مرجع خلائق بن چکی ہیں اور ان کی خانقاہیں بہت بڑے بڑے اداروں کی شکل اختیار کرچکی ہیں وہاں درسگاہیں ہیں، لنگر خانے ہیں روحانی میخانے ہیں، آستانے ہیں۔ محفل سماع اور پھر اس میں کیف و سرور،بلکہ وجد، بے خودی اور استغراق جو کہ وصال میں بھی بدل جاتا ہے۔ ویسے یہ سارا کچھ اب تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے تاہم کہیں کہیں اب بھی چشم بینا کو چراغ جلتا نظر آ ہی جاتا ہو گا۔ دنیاوی حاجات کی دعاؤں کے لئے تو خیر آج بھی ہر درگاہ پر رش دیدنی ہوتا ہے۔ معاشی، معاشرتی، سیاسی، آرٹ اور آرٹی کلچر کے حوالے سے بھی ان درگاہوں کی ایک اپنی اہمیت ہے۔

اردن میں امریکی فوجی اڈے پر ڈرون حملہ، 3 ہلاک، متعدد زخمی

برصغیر پاک و ہند کے بارے میں ایک غلط فہمی پیدا کر دی گئی ہے کہ صوفیا شاید یہیں پیدا ہوئے ہیں اور درباروں کی بھی اِسی خطے میں بھرمار ہے۔ تاریخ کے طالب علم کی آنکھ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوتی۔ وہ تو امام ولایت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جہاں عراق میں دیکھتا ہے وہاں حسن بصریؒ، ابو الا سود د ولی ؒ، عبد القادر جیلانی معروف کرخیؒ، جنید بغدادیؒ، سری سقطیؒ، محی الدین ابن عربیؒ، شہاب الدین سہروردیؒ وغیرہ وغیرہ کو عرب کی سرزمین پر جابجا دیکھتا ہے۔ وہ وسطی ایشیا میں لاتعداد بزرگان دین کو اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں برسر پیکار بھی پاتا ہے۔ ہند اور سندھ کو اسلام کی تعلیمات سے بھی اِسی قسم کے بابے عام کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں اور کفر و الحاد کے ان مراکز میں محنت اور ریاضت سے اسلام پھیلانے کا حق ادا کردیتے ہیں۔اِس سلسلے میں سلسلہ چشتیہ کے بانی مبانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے ایک منظم پروگرام کے تحت پورے ہندوستان میں اپنے تربیت یافتہ خلفاء کے ذریعے یہ کار نامہ سر انجام دیا، جن میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکرؒ اور خواجہ نظام الدین محبوب الٰہیؒ اور شہ نصیر الدین چراغ دہلویؒ قابل ِ ذکر ہیں۔ یقینا چراغ سے چراغ جلتا ہے اور پھر اِن چراغوں سے ایسے چراغ جلے کہ آج ان کے مزارات پر لوگ چراغاں کر کے اُن کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں (گنج بخشؒ فیض عالم مظہر نورِ خدا۔ ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما) راہبری راہنمائی ہی رشدوہدایت کا موجب ہوتی ہے اور ہدایت کا سلسلہ کبھی بھی بند نہیں ہوتا۔ اللہ کے بندے ہمیشہ اس کام پر برسرپیکار ہوتے ہیں۔ فرداً فرداً سب کا ذکر کرنا اِس تحریر میں ممکن نہیں ہے۔ تاہم حضرت بہاؤالدین ملتانی، حضرت مجدد الف ثانیؒ، شاہ ولی اللہؒ، سلطان باہوؒ، خواجہ نور محمد مہارویؒ، خواجہ سلیمان تونسویؒ، خواجہ شمس الدین سیالویؒ، پیر سید مہر علی شاہ گولڑویؒ، پیر سید قطب علی شاہ پیر محلویؒ، پیر جماعت علی شاہؒ جیسے جید بزرگان دین کے تذکرے کے بغیر موضوع کے دامن میں تشنگی باقی رہے گی۔ گذشتہ دِنوں لیاقت علی گل ڈائریکٹر کونسل جنرل آفس قازقستان لاہور سے ملاقات کے سلسلے میں اُن کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا،قونصلیٹ جنرل کے دفتر میں کافی ساری تصویریں آویزاں تھیں، لیکن میری نظر تو ایک تصویر پر اٹکی۔ دریافت کرنے پر راؤ خالد محمود آنریری قونسل جنرل نے بتایا کہ خواجہ احمد یساویؒ ایک صوفی بزرگ تھے اور ان کا تعلق قازقستان سے تھا۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (پیر) کا دن کیسا رہے گا؟

ان کا سلسلہ روحانیت نقشبندی تھا وہ 1098ء میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم دین تھے۔انہوں نے ریاضت مجاہدے اور مراقبے سے اپنے ہاں روحانی استعداد بھی پیدا کرلی تھی اور پھر انسانیت کی تعلیم وتربیت کا ایسا کام کیا کہ آج تک قازقستان کے لوگ اپنے آپ کو ان کے احسانات کی بدولت مقروض سمجھتے ہیں۔ ان کا ترکستان میں عالی شان مزار ہے۔ دورانِ گفتگو اِس بات کا خصوصی تذکرہ کیا گیا کہ قازقستان اور پاکستان کے مشترک حوالوں میں سے ایک مضبوط حوالہ صوفیاء ہیں۔ پاکستان میں بھی صوفیاء کے مزارات ہیں۔ شاید اِسی وجہ سے قازقستان اور پاکستان حکومتوں نے لاہور اور ترکستان کو جڑواں شہر قرار دے دیا ہے۔ لاہور کی وجہ شہرت یقینا مشہور صوفی حضرت داتا گنج بخش ہجویریؒ ہیں اور ترکستان کی پہچان خواجہ احمد یساوی رح ہیں،پنجاب حکومت آج کل مزارات کی تز ئین و آرائش پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور اس پروگرام کی مجموعی طور پر ذمہ داری نبیل جاوید سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کو سونپی گئی ہے۔وہ ایک نفیس، منکسرالمزاج اور درویش منش افسر ہیں ان کو صوفیا کی تعلیم کا گہرا شعور ہے اور وہ اس کام کو انتہائی محبت اور لگن سے سر انجام دے رہے ہیں۔طاہر رضا بخاری سیکرٹری اوقاف بھی اِس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔مزارات پر غیر شرعی ماحول کا خاتمہ اور روح پرور ماحول زائرین کو فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس کام کو محسن نقوی وزیراعلیٰ پنجاب کماحقہ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔انہوں نے جہاں دیگر شعبوں میں ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے ہیں وہاں انہوں نے بزرگان دین کے مزارات کی تزئین و آرائش پر بھی توجہ دی ہے۔

اردن میں بیس پر ڈرون حملے میں تین امریکی فوجی ہلاک، امریکی صدر کا بدلہ لینے کا اعلان

صوفیاء کی تعلیمات میں صرف ایک ہی تذکرہ جا بجا ملتا ہے اور وہ ”تو ہی تو“ کا ہے اور دوجا نہ کو۔ اس پیغام نے ہی ہماری دھرتی کو پاک سر زمین بنا دیاہے۔ان کی تعلیمات میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق ومحبت، عجزوانکساری،دنیا کی بے ثباتی، فقرواستغناء، انسانیت سے محبت، اخوت و بھائی چارہ، جیسے مضامین نمایاں ہیں۔انہوں نے محض باتیں ہی نہیں کی ہیں،بلکہ ان تعلیمات پر عمل کرکے اس کا عملی نمونہ بھی پیش کیا ہے، جس سے شرک، لادینیت،نفرت، کدورت، تعصب، بغض کے بت منہ کے بل گرے اور شیطانی قوتوں کا منہ کالا ہو گیا اور قرآن و سنت کے ثمرات انسانیت پر واضح ہونا شروع ہو گئے۔ آج کے میرے جیسے مسلمانوں کو ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے اور رضائے خداوندی کے لئے اِس سلسلے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ خطبہ حجتہ الوداع کے پیغام کا اعادہ بھی کیا جائے اوردنیا والوں تک اس پیغام کو پہنچانے کو یقینی بھی بنایا جائے۔ یقین مانیں اگر سنجیدگی سے ان بزرگوں کے راستے پر ہم گامزن ہو جائیں تو نہ تو ان کی خدمات کے بارے میں آج کا مسلمان تشکیک کا شکار ہو گا اور نہ ہی کسی وہم میں مبتلا ہو گا، بلکہ یکسو ہو کر خیر کا کام کرنے میں مشغول ہو جائے گا اور دنیا والوں کو مہر و محبت اور امن و سلامتی وآشتی کا درس دے گا۔

رہنما ن لیگ احسن اقبال نے توپوں کا رخ بلاول بھٹو کی طرف کردیا

کشتگان خنجر تسلیم را

ہر زماں از غیب جان دیگر است

QOSHE -          صوفیاء  کے مزارات اور  وزیراعلیٰ پنجاب - شفقت اللہ مشتاق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         صوفیاء  کے مزارات اور  وزیراعلیٰ پنجاب

17 0
29.01.2024

مسلمانوں کے بزرگان دین،اولیاء یا صوفیاء جہاں بھی گئے اپنی عظمتوں کے نقوش چھوڑ آئے اور یہ سلسلہ کسی ایک شہر، ملک یا براعظم تک محدود نہیں ہے۔ ہر جگہ کوئی نہ کوئی بابا بیٹھا یا لیٹا ہوا مل جاتا ہے اور لوگ اس کی باتیں کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ کہیں ان کی علمی خدمات کے تذکرے ہیں، کہیں ان کے روحانی مقامات کے اور کہیں ان کی محیر العقول کرامات کے چرچے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس وقت دنیا میں تو نہیں ہیں لیکن ان کی قبریں مرجع خلائق بن چکی ہیں اور ان کی خانقاہیں بہت بڑے بڑے اداروں کی شکل اختیار کرچکی ہیں وہاں درسگاہیں ہیں، لنگر خانے ہیں روحانی میخانے ہیں، آستانے ہیں۔ محفل سماع اور پھر اس میں کیف و سرور،بلکہ وجد، بے خودی اور استغراق جو کہ وصال میں بھی بدل جاتا ہے۔ ویسے یہ سارا کچھ اب تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے تاہم کہیں کہیں اب بھی چشم بینا کو چراغ جلتا نظر آ ہی جاتا ہو گا۔ دنیاوی حاجات کی دعاؤں کے لئے تو خیر آج بھی ہر درگاہ پر رش دیدنی ہوتا ہے۔ معاشی، معاشرتی، سیاسی، آرٹ اور آرٹی کلچر کے حوالے سے بھی ان درگاہوں کی ایک اپنی اہمیت ہے۔

اردن میں امریکی فوجی اڈے پر ڈرون حملہ، 3 ہلاک، متعدد زخمی

برصغیر پاک و ہند کے بارے میں ایک غلط فہمی پیدا کر دی گئی ہے کہ صوفیا شاید یہیں پیدا ہوئے ہیں اور درباروں کی بھی اِسی خطے میں بھرمار ہے۔ تاریخ کے طالب علم کی آنکھ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوتی۔ وہ تو امام ولایت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جہاں عراق میں دیکھتا ہے وہاں حسن بصریؒ، ابو الا سود د ولی ؒ، عبد القادر جیلانی معروف کرخیؒ، جنید بغدادیؒ، سری سقطیؒ، محی الدین ابن عربیؒ، شہاب الدین سہروردیؒ وغیرہ وغیرہ کو عرب کی سرزمین پر جابجا دیکھتا ہے۔ وہ وسطی ایشیا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play