سیاسی شکوک و شبہات
عام انتخابات کے انعقاد میں اب کم و بیش دو ہفتے رہ گئے ہیں، وفاقی کابینہ نے انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے مزید اقدامات کرتے ہوئے فوج تعینات کرنے بھی منظوری دے دی ہے،فوج اور دوسری آرمڈ فورسز حساس علاقوں میں کوئیک ریسپانس فورس کے طور پر کام کریں گی،مگر عام لوگوں کے ذہن ابھی تک صاف نہیں ہو سکے، لوگوں میں الیکشن بارے شکوک و شبہات دور نہیں ہو سکے ، کوئی وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں؟ کچھ ہو گا بھی یا نہیں؟ اگر کچھ ہوا تو پھر کیا ہو گا؟ اس مبہم تاثر کے باوجود سیاسی پارٹیوں نے کمر کس لی ہے، ملک بھر میں تمام جماعتوں کی انتخابی مہم جاری ہے اور انتخابی جلسوں میں وہی کچھ ہو رہا ہے جو انتخابی مہموں کے دوران ہوتا ہے،ایک دوسرے پر الزام تراشیاں اور ایک دوسرے کی بد خوئیاں۔
لاہور میں دفعہ 144 کے خلاف ورزی پر گرفتاریاں شروعبہر حال ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال پر ایک نظر ڈالیں تو پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں کا پلڑا تا حال بھاری نظر آتا ہے، اگرچہ کھل کر بات کوئی نہیں کر رہا لیکن عوامی سرویز بتاتے ہیں کہ لوگ پی ٹی آئی کے حامیوں کو منتخب کرنے کے لیے بے چین ہیں،عمران خان اگرچہ پی ٹی آئی کی چیئرمین شپ سے الگ ہو چکے ہیں لیکن ان کی جارحانہ سیاست تا حال جاری ہے، ابھی گزشتہ روز ہی ان کی سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے ساتھ شدید تلخ کلامی ہوئی جس میں بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ گفتگو ہمارا حق ہے آپ روک نہیں سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سلیکٹڈ کہا گیا اب مدر آف آل سلیکٹڈ ہو رہا ہے، انہوں نے پارٹی کارکنوں کو اتوار کے روز سڑکوں پر نکلنے کی کال بھی دی ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے کارکن نو مئی کے واقعات کے بعد پیدا ہونے........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website