چلیں آج سیاست اور انتخابات سے ہٹ کر بات کرتے ہیں۔ ان معاملات کو فی الوقت نظر انداز کر دیتے ہیں کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ مل رہی ہے یا نہیں، الیکشن میں دھاندلی کے منصوبے بن رہے ہیں نہیں، الیکشن کرایا جا رہا ہے یا سلیکشن کے کچھ ارادے ہیں، اگلی منتخب حکومت ملک کے مسائل حل کر سکے گی یا نہیں۔ چلیں آج یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اپنی آزادی کے 76ویں برس میں بھی ہم اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے قابل کیوں نہیں ہو سکے، تحریک پاکستان میں حصہ لینے والوں نے اپنی آنکھوں میں جو خواب سجائے تھے انہیں شرمندہ تعبیر کیوں نہیں کیا جا سکا؟ ماضی کی بات کریں گے، اگر تاریخ کا جائزہ لیں گے تو بات لمبی ہو جائے گی۔ وہ جو کہتے ہیں کہ مشتِ نمونہ از خروارے یعنی کسی چیز کے ڈھیر میں سے مٹھی بھر نمونے کے طور پر لینا تو ہم بھی دور نہیں جاتے صرف ایک دن کے اخبارات میں چھپنے والی چند خبروں کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ اندازہ ہو جائے گا کہ ہم نے اب تک کیا سفر طے کیا، اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔

لاہور میں دفعہ 144 کے خلاف ورزی پر گرفتاریاں شروع

ایک خبر یہ ہے کہ پاکستان کے قرضوں کا استحکام ایک بار پھر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ امسال قومی آمدنی کا مجموعی تخمینہ 9 ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے جبکہ سود کی مد میں ہمیں آٹھ اعشاریہ پانچ ہزار ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کی مدد کے بغیر پاکستان کے لیے قرضوں کا حصول مزید چیلنجنگ ہو گا۔ دوسری خبر وزارت تعلیم کی ایک رپورٹ سے متعلق ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں دو کروڑ 62 لاکھ بچے آج بھی سکول سے باہر ہیں، یعنی تعلیم حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ تیسری خبر میں بتایا گیا ہے کہ پیاز کی قیمت 330 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے۔ چوتھی خبر بتاتی ہے کہ جنوری میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے موسم گرما میں پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پانچویں خبر یہ ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں اور ٹریننگ مراکز کے موجود ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ان خبروں کا بالترتیب جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان اگر قرضوں کے حوالے سے عدم استحکام کا شکار ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ عوام پر یا ان لوگوں پر جو یہاں دہائیوں برسر اقتدار رہے، ملک کے معاملات چلاتے رہے لیکن مناسب معاشی اور اقتصادی فیصلے نہ کر سکے؟ ان پر جو ملک کو ایک مثبت ڈگر پر چلانے میں ناکام رہے جو طویل المیعاد سوچ بچار کرنے کی بجائے محض ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں وضع کرتے اور ان پر عمل کرتے رہے؟ کوئی تو وجہ ہو گی کہ پاکستان آج بھی اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مزید قرضے لینے پر مجبور ہے اور دوسرے ممالک کی مدد کے بغیر اپنے معاملات چلانے کے ہی قابل نہیں ہے؟ ملک کو اس نہج تک پہنچانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اسی طرح اگر ملک بھر میں اڑھائی کروڑ سے زیادہ بچے آج بھی سکول سے باہر ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا وہی لوگ ذمہ دار نہیں جن کے ہاتھوں تعلیمی پالیسیاں بنتی رہیں؟ وہ لوگ جو بجٹ بناتے وقت شعبہ تعلیم کو ہمیشہ نظر انداز کرتے رہے۔ کیا انہیں اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ آنے والے وقت میں ہماری آبادی کتنی ہو گی اور مستقبل میں ہمارے کتنے بچوں کو کتنے سکولوں اور کتنے اساتذہ کی ضرورت ہو گی؟ کیا عوام کو ان لوگوں سے پوچھنا نہیں چاہیے کہ ملک کے یہ دو کروڑ 62 لاکھ بچے جب غیر تعلیم یافتہ رہ جائیں گے اور ملک کی ترقی میں فعال کردار ادا کرنے کے بجائے اس پر بوجھ بن جائیں گے تو اس کا انجام کیا ہو گا؟ جب میں یہ سنتا ہوں کہ پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے یا مستقبل میں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو مجھے اچانک کالا باغ ڈیم یاد آ جاتا ہے۔ کیا عوام کو اس ڈیم کے مخالفین سے یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ اس ڈیم کو نہ بننے دے کر انہوں نے اس ملک اور اس قوم کا بے تحاشا نقصان کیوں کیا ہے؟ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں اور ٹریننگ مراکز کی خبر نئی نہیں ہے۔ ایک عرصے سے پاکستان دہائی دے رہا ہے اور افغانستان کی جانب سے پاکستان کو طفل تسلیاں دی جا رہی ہیں۔ اس کا جواب نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل درآمد نہ کرنے والوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ اب کیا کریں؟ دہشت گردی کا عفریت تو جان ہی نہیں چھوڑ رہا۔ یہ واقعی دیگ میں سے ایک دانہ چکھنے کے مترادف ہے ورنہ خبریں تو اور بھی ہیں جن پر نوحہ خوانی کی جا سکتی ہے، افسوس کیا جا سکتا ہے، سر پیٹا جا سکتا ہے۔

ون وے ٹریفک اب ہرگز نہیں چلنے دیں گے،فاروق ستار

اس بات میں کیا شبہ ہے کہ آج بھی ہم بحیثیت قوم اگر دو راہے پر کھڑے ہیں اور ہر لحاظ سے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں تو اس کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے، یہ کہ کسی نے بھی اس ملک کو حقیقی ترقی سے دوچار کرنے کے لیے کبھی سنجیدگی سے سوچ بچار نہیں کی۔ وقتی مفادات کے لیے وقتی پروگرام مرتب کیے جاتے رہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم آج بھی اس روش سے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہمارے لیڈر آج بھی عوام سے جھوٹے وعدے اور دعوے کر رہے ہیں، انہیں طفل تسلیاں دے رہے ہیں، انہیں روشن مستقبل کے سہانے خواب دکھا رہے ہیں، انہیں پاکستان کی ترقی کے عندیے دے رہے ہیں۔ اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک سیاسی رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر ان کی جماعت جیت گئی تو بجلی کے 100 کے بجائے 300 یونٹ مفت دیں گے اور مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کر دیں گے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی ایک اور جماعت نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر اسے اقتدار مل گیا تو کم زمین والے کسانوں کو بجلی مفت دی جائے گی، کچی آبادیوں میں فلیٹ تعمیر کیے جائیں گے، مکانوں کے لیے قرضے بھی دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جب سب کو ملک کی اقتصادی صورتحال کا پوری طرح پتا ہے تو پھر یہ دعوے اور یہ وعدے کیوں؟ کیا حقیقی اور ٹھوس ترقی اس ملک اور اس کے عوام کا حق نہیں ہے؟ تو پھر انہیں سچ کیوں نہیں بتایا جاتا؟ انہیں زمینی حقائق سے آگاہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ عوام کے سامنے کوئی ایسا منشور کیوں نہیں رکھا جاتا جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ اگلے 10، 20 برسوں میں ملک کو اتنی ترقی دی جا سکتی ہے یا اتنی ترقی دی جائے گی۔ ضروری ہو چکا کہ سچ بولا جائے اور حالات و واقعات کا سنجیدگی کے ساتھ ادراک کیا جائے۔ ایسی پالیسیاں بنائی جائیں ایسی منصوبہ بندی کی جائے کہ ہمیں قرض نہ لینے پڑیں، باہر سے گندم اور کھانے پینے کی دوسری چیزیں نہ منگوانی پڑیں۔

دوحہ :قطر ایم ایم اے کمیٹی اور پاکستان ایم ایم اے فیڈریشن کے نمائندگان میں ملاقات

QOSHE -   سیاست سے ہٹ کر  - محمد معاذ قریشی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

  سیاست سے ہٹ کر 

11 0
25.01.2024

چلیں آج سیاست اور انتخابات سے ہٹ کر بات کرتے ہیں۔ ان معاملات کو فی الوقت نظر انداز کر دیتے ہیں کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ مل رہی ہے یا نہیں، الیکشن میں دھاندلی کے منصوبے بن رہے ہیں نہیں، الیکشن کرایا جا رہا ہے یا سلیکشن کے کچھ ارادے ہیں، اگلی منتخب حکومت ملک کے مسائل حل کر سکے گی یا نہیں۔ چلیں آج یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اپنی آزادی کے 76ویں برس میں بھی ہم اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے قابل کیوں نہیں ہو سکے، تحریک پاکستان میں حصہ لینے والوں نے اپنی آنکھوں میں جو خواب سجائے تھے انہیں شرمندہ تعبیر کیوں نہیں کیا جا سکا؟ ماضی کی بات کریں گے، اگر تاریخ کا جائزہ لیں گے تو بات لمبی ہو جائے گی۔ وہ جو کہتے ہیں کہ مشتِ نمونہ از خروارے یعنی کسی چیز کے ڈھیر میں سے مٹھی بھر نمونے کے طور پر لینا تو ہم بھی دور نہیں جاتے صرف ایک دن کے اخبارات میں چھپنے والی چند خبروں کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ اندازہ ہو جائے گا کہ ہم نے اب تک کیا سفر طے کیا، اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔

لاہور میں دفعہ 144 کے خلاف ورزی پر گرفتاریاں شروع

ایک خبر یہ ہے کہ پاکستان کے قرضوں کا استحکام ایک بار پھر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ امسال قومی آمدنی کا مجموعی تخمینہ 9 ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے جبکہ سود کی مد میں ہمیں آٹھ اعشاریہ پانچ ہزار ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کی مدد کے بغیر پاکستان کے لیے قرضوں کا حصول مزید چیلنجنگ ہو گا۔ دوسری خبر وزارت تعلیم کی ایک رپورٹ سے متعلق ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play