پہلے صرف اپنا سوچو! یہ وہ سنہری اصول ہے جس پر میں اس وقت سے عمل کررہا ہوں جب سے مجھے تھوڑی سی عقل آئی ہے اور میں اپنی فیملی کے اندر اور باہر ان لوگوں کوبھی یہ درس کافی عرصے سے دے رہا ہوں جو مجھ پر اعتماد کرتے ہیں۔ میں اپنے آپ کو زیادہ کامیاب لوگوں میں شمار نہیں کرتا لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کسی بھی کامیابی میں جب تک اس اہم ”گائیڈ لائن“ کو شامل نہیں کیا جائے گا تو شاید مقصد تو حاصل ہو جائے لیکن اس حصول میں کافی تاخیر ہو سکتی ہے۔

بادی النظر میں یہ اصول ”خود غرضی“ کے زمرے میں آتا ہے اور میں خود اپنی ”گمراہی“ کے دور میں اسے ایسا ہی سمجھتا رہا ہوں۔ میں ”پبلک ریلیشنز“ کا طالب علم ہوں۔اس کی سرحدیں ”پبلک ڈپلومیسی“ کے ساتھ ملتی ہیں۔ میں نے ایک طویل ”انٹرنیشنل پبلک ریلیشنز“ کی پریکٹس کی ہے جس سے بالواسطہ طور پر میں نے کچھ ”پبلک ڈپلومیسی“ بھی سیکھی ہے۔

چین اور کرغزستان کے سرحدی علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے، چین میں کئی افراد زخمی

بین الاقوامی تعلقات میں دنیا بھر کے ممالک عموماً اور امریکہ اور یورپی ریاستیں خصوصا Self Interest(ذاتی مفاد) کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتے ہیں۔اس نکتے پر زور دینے والے ممالک بھی بظاہر ”خودغرض“نظر آتے ہیں اور وہ جن دوسرے ممالک سے دوستی کا دعوے کرنے کے ساتھ ساتھ اس اصول کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتے ہیں انہیں ”بے وفائی“ کے ناجائز الزام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں آج کی اس تحریر میں پہلے بین الاقوامی تعلقات اور پھر ذاتی تعلقات میں اس اصول پر عمل درآمد کے نتائج کا جائزہ پیش کروں گا۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

بین الاقوامی ڈپلومیسی میں ”ذاتی مفاد“ کی پالیسی اپنانے کا مقصد اپنے اردگرد یا دیگر ممالک سے لاتعلقی ہر گز نہیں ہے۔ یہ پالیسی اپنانے والا کوئی بھی ملک اپنی ”قوت“ کا نہ صرف اظہار کرتا ہے بلکہ اسے استعمال بھی کرتا ہے۔ ”قوت“ کا یہ لفظ دراصل دو دھاری تلوار ہے۔ ایک طرف اپنے مفادات کے پرزور تحفظ کے لئے دوسرے ممالک پر اثر ڈالنے کے واسطے طاقت (معنوی اور طبعی دونوں اعتبار سے) کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف ذاتی مفادات کے کچھ پہلو جن ممالک سے یکساں ہوں ان سے اس حد تک مشترکہ مفادات کا تعین کرکے باہمی مقاصد کی تکمیل کے لئے تعاون کیا جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں اتفاق رائے کی راہ اختیار کی جاتی ہے۔

لاہور میں چکن کی قیمت مسلسل اضافے کے بعد کم ہوگئی

بین الاقوامی ڈپلومیسی میں ”ذاتی مفاد“ کی پالیسی کا ذکر آئے تو سب سے پہلے عموماً امریکہ ذہن میں آتا ہے لیکن اس لحاظ سے چین بھی کسی طرح کم نہیں ہے۔ پاکستان کے بھولے بادشاہ اس سے دوستی کو ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری سمجھتے ہیں۔ یقینا یہ دوستی دونوں ممالک کے لئے بہت اہم ہے لیکن چین مختلف ممالک کوایک سے زیادہ مرتبہ بتا چکا ہے کہ اسے اپنے ”ذاتی مفادات“ سے زیادہ کوئی عزیز نہیں ہے۔

پاکستان کے ساتھ چین کی دوستی اس کے ذاتی مفادات کی تکمیل کا ایک حصہ ہے،ابھی تک اسے اس سلسلے میں کسی خاص چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا اس لئے یہ دوستی قائم بھی ہے اور مضبوط بھی ہے۔ میں اس Scenario کو فی الحاظ چھیڑنا نہیں چاہتا جب پاکستان سے دوستی چین کی ”ذاتی مفادات“ کی پالیسی سے ٹکرائے گی۔ فی الحال میں یہ صرف اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ چین بھی ان ممالک میں سرفہرست ہے جن کے لئے ذاتی مفادات کی پالیسی اولین ترجیح ہے لیکن وہ منفی ردعمل کے ڈر سے اس کا اتنا ڈھنڈورہ نہیں پیٹتا۔

کراچی میں پاگل شخص نے راہ چلتی خاتون کو قتل کردیا

پاکستان میں امریکہ کا سفارت خانہ بھی دوسرے ممالک کی طرح اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ اور انہیں آگے بڑھانے کا کام کرتا ہے اور اس مقصد کے لئے مقامی سرکاری حکام اور حکمت عملی مرتب کرنے والے معتبر اداروں اور ذمہ داروں سے رابطہ کرتا ہے۔ میں نے ذاتی طور پر اسی ملک میں جس امریکی ادارے کے لئے دو عشرے تک جو خدمات سرانجام دیں وہ انہی تعلقات کی ایک اور سطح پر کام کررہا تھا۔ یعنی حکومتوں کی بجائے امریکہ اور پاکستان کے عوام کے درمیان تعلقات قائم کرنا، استوار کرنا اور انہیں مضبوط بنانا۔ اس وسیع فریم ورک میں میرے ذمہ پنجاب کے ذرائع ابلاغ تک اور اس کے ذریعے پنجاب کی جنرل پبلک کو یہ بتانا تھا کہ امریکہ کی جنرل پبلک کیسی ہے، اس کا طرزِ زندگی کیا، اس کی سوچ کا انداز کیا ہے۔ اس کی پسند ناپسند کیا ہے۔ اس طرح پنجاب کے میڈیا سے اچھی انڈرسٹینڈنگ پیدا کرکے ان تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ اور پاکستان کے عوام میں قربت پیدا کرنے میں اپنا سا کردار ادا کرنا۔

گزشتہ ایک سال کے دوران کتنے زائرین نے عمرے کی سعادت حاصل کی ؟

پاکستانی پبلک کو امریکہ Sellکرنا ایک ناقابل تصور حد تک مشکل کام ہے۔ مجھے بھی محدود سطح تک اس چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ہم امریکی پبلک کی تصویر دکھاتے تھے اور درمیان میں امریکی حکومت کی ”ناپسندیدہ“ پالیسیاں آ جاتی ہیں۔ میڈیا کے فیڈ بیک میں بتایا جاتا تھا کہ امریکہ تو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اس خطے اور خصوصاً پاکستان سے تعلقات بنانا چاہتا ہے۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ امریکہ کا Self Interest (ذاتی مفاد) کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ پالیسیاں مرتب کرنا ”خودغرضی“ اور ”بے وفائی“ کے مترادف قرار دیا جاتا تھا۔ حالانکہ میں پہلے بھی یہ سمجھتا تھا اور آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اگر کسی ملک کے صاحبان اقتدار اور پالیسی ساز اپنے ملک کے ذاتی مفاد کے خلاف کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو وہ اپنے ملک سے بے وفائی کے مرتکب ہوں گے۔آپ کو یاد ہو گا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ”امریکہ فرسٹ“ کے نعرے کو اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد قرار دیا تھا۔ اس پالیسی کی بنیاد پر ان کی انتظامیہ نے بہت سے بین الاقوامی معاہدوں سے باہر نکلنے کا اعلان کیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس طرح امریکہ عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوگا لیکن اس کی پالیسی کو خاص طو رپر امریکہ کے سفید فام باشندوں میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی جو سمجھتے تھے کہ امریکی ڈالر صرف امریکیوں پر خرچ ہونا چاہیے۔ اس بنیاد پر افغانستان پر امداد کی شکل میں اربوں ڈالر فضول میں ضائع کئے جانے پر تنقید ہوئی اور اسی بنیاد پر بائیڈن انتظامیہ یوکرین کو جو اتنی زبردست امداد دے رہی ہے اسے امریکہ میں ناپسند کیا جا رہا ہے۔

پنجاب میں نمونیا سے مزید 2 بچے انتقال کر گئے

مجھے پہلے ہی پتہ تھا کہ بین الاقوامی تعلقات میں Self Interest یا ملکی مفاد کا جائزہ کچھ طویل ہو جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ موجودہ کالم میں ذاتی تعلقات میں ذاتی مفاد کے بارے میں گفتگو کرنے کی جتنی بھی گنجائش ہے وہ مختصر طور پر بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ میں نے شروع میں یہ کہا تھا کہ سب سے پہلے اپنی ذات کے بارے میں سوچنا اور اپنے آپ کو مقدم رکھنا بہت ضروری ہے اور اب آخر میں یہ بتاؤں گا اور ثابت کروں گا کہ یہ ہرگز خود غرضی یا بے وفائی نہیں ہے۔ میرا تھیس یہ ہے کہ ہر شخص اگر اپنی ذات پر توجہ دے اور اپنا رہنا سہنا درست بنیاد پر استوار کرے تو دیکھیں پورا معاشرہ کتنا درست صحت مند اور خوشحال ہو جائے گا۔ دیکھیں اگر آپ اپنی صحت کا خیال رکھتے ہیں اپنی تعلیم کیئرئیر اور اپنے ماحول پر توجہ دیتے ہیں تو کیا نتیجہ نکلے گا۔ آپ اگر ایسا کریں گے تو پھر آپ اس قابل ہوں گے کہ آپ اپنے بہن بھائیوں، ماں باپ اور دیگر عزیزوں اور دوستوں کے کام آ سکیں۔ اگر آپ اپنی ذات کو اولیت نہ دیں، اپنی صحت برباد کردیں، اپنی تعلیم پر توجہ نہ دیں اور ایک ناکارہ غیرصحت مند،غیر تعلیم یافتہ فرد کی صورت اختیار کرلیں۔ تو اس سے کیا حاصل ہوگا۔ اپنی ذات پر توجہ نہ دے کر آپ کسی کے کام کرنے کے قابل نہیں بن سکیں گے۔ یقینا آپ ایسا نہیں چاہیں گے تو پھر میری بات مانو۔ پہلے صرف اپنا سوچو!

QOSHE -      پہلے صرف اپنا سوچو! - اظہر زمان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

     پہلے صرف اپنا سوچو!

28 0
23.01.2024

پہلے صرف اپنا سوچو! یہ وہ سنہری اصول ہے جس پر میں اس وقت سے عمل کررہا ہوں جب سے مجھے تھوڑی سی عقل آئی ہے اور میں اپنی فیملی کے اندر اور باہر ان لوگوں کوبھی یہ درس کافی عرصے سے دے رہا ہوں جو مجھ پر اعتماد کرتے ہیں۔ میں اپنے آپ کو زیادہ کامیاب لوگوں میں شمار نہیں کرتا لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کسی بھی کامیابی میں جب تک اس اہم ”گائیڈ لائن“ کو شامل نہیں کیا جائے گا تو شاید مقصد تو حاصل ہو جائے لیکن اس حصول میں کافی تاخیر ہو سکتی ہے۔

بادی النظر میں یہ اصول ”خود غرضی“ کے زمرے میں آتا ہے اور میں خود اپنی ”گمراہی“ کے دور میں اسے ایسا ہی سمجھتا رہا ہوں۔ میں ”پبلک ریلیشنز“ کا طالب علم ہوں۔اس کی سرحدیں ”پبلک ڈپلومیسی“ کے ساتھ ملتی ہیں۔ میں نے ایک طویل ”انٹرنیشنل پبلک ریلیشنز“ کی پریکٹس کی ہے جس سے بالواسطہ طور پر میں نے کچھ ”پبلک ڈپلومیسی“ بھی سیکھی ہے۔

چین اور کرغزستان کے سرحدی علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے، چین میں کئی افراد زخمی

بین الاقوامی تعلقات میں دنیا بھر کے ممالک عموماً اور امریکہ اور یورپی ریاستیں خصوصا Self Interest(ذاتی مفاد) کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتے ہیں۔اس نکتے پر زور دینے والے ممالک بھی بظاہر ”خودغرض“نظر آتے ہیں اور وہ جن دوسرے ممالک سے دوستی کا دعوے کرنے کے ساتھ ساتھ اس اصول کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتے ہیں انہیں ”بے وفائی“ کے ناجائز الزام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں آج کی اس تحریر میں پہلے بین الاقوامی تعلقات اور پھر ذاتی تعلقات میں اس اصول پر عمل درآمد کے نتائج کا جائزہ پیش کروں گا۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

بین الاقوامی ڈپلومیسی میں ”ذاتی مفاد“ کی پالیسی اپنانے کا مقصد اپنے اردگرد یا دیگر ممالک سے لاتعلقی ہر گز نہیں ہے۔ یہ پالیسی اپنانے والا کوئی بھی ملک اپنی ”قوت“ کا نہ صرف اظہار کرتا ہے بلکہ اسے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play