الیکشن سر پر ہیں، میں سوچ رہا ہوں کہ میرے ووٹ کا حقدارکون ہے اور کس پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دوں۔ عمران خان تو فوج اور وطن دشمن سرگرمیوں کی وجہ سے جیل میں بند ہیں، جبکہ اِس کے چاہنے والے اپنی جماعت کو بچانے کی ہر ممکن کوشش میں ہیں۔ کبھی وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دروازے پر دستک دیتے ہیں، کبھی لاہور ہائی کورٹ کا رخ کرتے ہیں اگر یہاں سے بھی اُنہیں من پسند انصاف نہ مل سکے تو وہ پشاور ہائی کورٹ جا پہنچتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے۔ وکلاء کی ایک متحرک ٹیم پی ٹی آئی کو بچانے اور الیکشن میں حصہ لینے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔ قائد پی ٹی آئی کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملی اُن کی پارٹی کے لوگ آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں ضرور حصہ لیں گے اگر کامیابی ملتی ہے تو پھر ایک جماعت کی شکل دھار لیں گے۔ سوشل میڈیا پر تو اُنہیں مکمل کنٹرول حاصل ہے۔کھلاڑی کی شکل میں تو میں عمران خان کو چاہتا ہوں لیکن سیاست دان کی شکل میں مجھے وہ ہرگز پسند نہیں، کیونکہ اِن کی سیاست تعمیر کی بجائے تخریب پر منحصر ہے۔ فوج سے دشمنی ریاست سے دشمنی سمجھی جاتی ہے اور اِس کام میں وہ بہت آگے جاچکے ہیں۔یاد رہے کہ فوج ہی ایسا ادارہ ہے جو قومی سلامتی کا محافظ اور نگہبان ہے۔ جب تک فوج موجود ہے، دشمن پاکستان کومیلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ فوج کی مخالفت کرنے والوں کو غزہ کے فلسطینی مسلمانوں کی حالت اور بے بسی دیکھ لینی چاہئے۔9مئی 2023ء کے ہولناک اور شرمناک واقعات(جن کا تمام تر رخ فوج اور فوجی تنصیبات کی جانب تھا) اِس بات کا مکمل ثبوت ہیں کہ پی ٹی آئی والے فوج کو اپنا دشمن نمبر ون سمجھتے ہیں،جبکہ میں دل و جان سے وطن عزیز کی محافظ فوج کو الہانہ محبت کرتا ہوں، اِس لئے پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔اِس کے بعد پیپلز پارٹی کا نمبر آتا ہے۔اِس وقت سب سے متحرک پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلال زرداری دکھائی دیتے ہیں جو چاروں صوبوں میں زوردار مہم چلا رہے ہیں۔

آصف زرداری کے دوست کے بیٹے کو کراچی ایئر پورٹ پر روک لیا گیا ، پھر کیا ہوا؟ حیران کن انکشاف

وہ بھی عمران خاں کی طرح عوام سے جھوٹی تسلیاں اور وعدے کرکے ورغلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ کبھی تیس لاکھ گھروں کی تعمیر کا لالچ دیتے ہیں تو کبھی مزدوروں کی تنخواہ دوگنی کا وعدہ کرتے ہیں۔ 300 یونٹ بجلی مفت فراہم کرنے کی خوشخبری بھی وہی سنا رہے ہیں۔بلاول زرداری شاید یہ بھول گئے ہیں کہ جس اتحادی حکومت میں وہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے شامل تھے،اِس حکومت میں وزیراعظم شہباز شریف بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ بجلی کے بلوں میں ایک پیسہ کمی کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے ناک رگڑنا پڑتی ہے،پھر اِس ملک میں تیس لاکھ گھر بنانے، تنخواہیں دوگنی کرنے اور بجلی کے 300 یونٹ فری فراہم کرنے کے وعدے شیخ چلی کا خواب دکھائی دیتے ہیں۔آئی ایم ایف کے مطابق اِس وقت 28ہزار ارب کا غیرملکی قرضہ پاکستان پر واجب الادا ہے،ان قرضوں کا سود دینا بھی دن بدن مشکل ہو تا جارہا ہے، ایک مہینے میں کئی بار بجلی، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کے باوجودخزانہ خالی دکھائی دیتا ہے، بلاول صاحب کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کے پچھلے دور میں بجلی کے بل تو ہر گھر میں آتے تھے لیکن بجلی اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے نہیں آتی تھی۔ دیہاتوں میں تو بجلی کا نام و نشان بھی ختم ہوچکا تھا۔بلاول صاحب جھوٹ بولنا اللہ کو ہرگز پسند نہیں۔ چکنی چوپڑی باتیں کرکے مہنگائی اور بے وسائلی کی دلدل میں دھنسی ہوئے غریب عوام کو مزید بیوقوف نہ بنائیں بلکہ قومی معیشت کی حقیقی شکل پیش کریں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پچھلے تیس سال سے جھوٹے وعدے کرنے والی پیپلز پارٹی کو میں ووٹ نہیں دے سکتا۔مجھے اس بات کا علم ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوا کرتے ہیں۔ اب ہم جماعت اسلامی کی جانب آتے ہیں۔ میری نظر میں جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک اِس جماعت کے عہدے دار نہ صرف دیانتدار ہیں،بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اِس جماعت کو صرف اپنے ممبر اور رکن ہی ووٹ دیتے ہیں جو پشاور سے کراچی تک امیر کے حکم پر ہر جلسے میں شریک ہونا اپنا فرض اولین تصور کرتے ہیں۔ اِس جماعت کا امیر جھوٹ نہیں بول سکتا اور نہ ہی کسی کو دھوکا دے سکتا ہے، کیونکہ امیر جماعت اسلامی کی نگرانی ایک مکمل ادارہ (جسے مجلس شوریٰ کہا جاتا ہے) کرتا ہے۔ اگریہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ بطور خاص پنجاب میں جماعت اسلامی کے ووٹروں کا تناسب صرف پانچ فیصد ہے۔ جماعت اسلامی اگر مسلم لیگ (ن) سے اشتراک کر لیتی ہے تو اسے پنجاب میں چار پانچ سیٹیں مل سکتی ہیں،

شادی کا جھانسہ دے کر نوجوان اغواء پھر کیسے ملا ؟ جانئے

اگر اشتراک نہ کیا جائے تو کسی بھی حلقے میں جماعت اسلامی کے ووٹ اتنے نہیں ہیں کہ وہ تنہا جیت جائے۔اگر کراچی کے حافظ نعیم الرحمان کو جماعت اسلامی کا مرکزی امیر بنا دیا جائے توشاید کراچی کی طرح وہ پورے پاکستان میں جماعت اسلامی کا بول بالا ہو جائے، کیونکہ وہ ایک انقلابی شخصیت بن کے ابھرے ہیں۔کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں انہوں نے جماعت اسلامی کو وننگ پوزیشن پر لا کھڑا کیا تھا اس لئے میرا تو یہی مشورہ ہے کہ سراج الحق سوسال بھی امیر رہیں تو انقلاب برپا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے میری نظر میں جماعت اسلامی کو ووٹ دینا ضائع کرنے کے مترادف ہے۔اب ہم مسلم لیگ (ن) کی جانب آتے ہیں۔ نواز شریف ایک ایسے عظیم رہنما کی شکل میں دکھائی دیتے ہیں جن کے تینوں ادوار میں ہونے والے میگا پروجیکٹ کی تفصیل خاصی طویل ہے۔وطن عزیز میں تعمیر ہونے والے موٹرویز ہی کو دیکھ لیں جو قومی ترقی اور معیشت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔یہ تمام موٹروے نواز شریف کے کھاتے میں موجود ہیں تو نواز شریف کو ناکام کہنے والوں کو اپنا چہرہ شیشہ میں ضرور دیکھنا چاہئے۔ نواز شریف کے سوا صرف ایوب خاں ایسا حکمران آیا جس نے صحیح معنوں میں پاکستان کی صنعتی ترقی کی بنیاد رکھی تھی۔اِس دور میں پاکستان آدھی دنیا کو قرضے دیا کرتا تھا۔انڈیا اتنا بڑا ملک ہے، وہاں بھی موٹروے کا تصور چند شہروں تک محدود ہے، ریل کا نظام ہی اِس کی معاشی لائف لائن ہے۔نواز شریف نے اپنے ادوار میں صرف موٹروے ہی نہیں بنائے 11ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرکے پیپلز پارٹی دور میں ہونے والی اٹھا رہ اٹھارہ گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ کو بڑی حد تک ختم کیا۔زرداری دور میں ڈوبی ہوئی سٹاک ایکسچینج کو دنیا کی بہترین مارکیٹ بنایا۔ پٹرول 68 روپے فی لیٹر اور بجلی 8روپے 15 روپے فی یونٹ نواز شریف کے دور میں ہی ملتی تھی۔پیلی ٹیکسی سکیم،لیپ ٹاپ کی نوجوانوں تک رسائی،سی پیک کو عملی شکل دینے، اربوں ڈالر کی چینی سرمایہ کاری لانے اور ڈالر کو کم سے کم قیمت پر مستحکم رکھنے کے اقدامات نواز شریف دور ہی کی یادگار ہیں۔اِس لئے میں ببانگ دہل اعلان کرتا ہوں کہ میرے ووٹ کا اصل حقدار صرف اور صرف نواز شریف ہے۔

افغانستان میں تباہ ہونیوالے بدقسمت طیارے کا مکمل روٹ سامنے آگیا

QOSHE -        میرے ووٹ کا حقدار کون ہے؟ - اسلم لودھی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       میرے ووٹ کا حقدار کون ہے؟

13 0
22.01.2024

الیکشن سر پر ہیں، میں سوچ رہا ہوں کہ میرے ووٹ کا حقدارکون ہے اور کس پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دوں۔ عمران خان تو فوج اور وطن دشمن سرگرمیوں کی وجہ سے جیل میں بند ہیں، جبکہ اِس کے چاہنے والے اپنی جماعت کو بچانے کی ہر ممکن کوشش میں ہیں۔ کبھی وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دروازے پر دستک دیتے ہیں، کبھی لاہور ہائی کورٹ کا رخ کرتے ہیں اگر یہاں سے بھی اُنہیں من پسند انصاف نہ مل سکے تو وہ پشاور ہائی کورٹ جا پہنچتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے۔ وکلاء کی ایک متحرک ٹیم پی ٹی آئی کو بچانے اور الیکشن میں حصہ لینے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔ قائد پی ٹی آئی کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملی اُن کی پارٹی کے لوگ آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں ضرور حصہ لیں گے اگر کامیابی ملتی ہے تو پھر ایک جماعت کی شکل دھار لیں گے۔ سوشل میڈیا پر تو اُنہیں مکمل کنٹرول حاصل ہے۔کھلاڑی کی شکل میں تو میں عمران خان کو چاہتا ہوں لیکن سیاست دان کی شکل میں مجھے وہ ہرگز پسند نہیں، کیونکہ اِن کی سیاست تعمیر کی بجائے تخریب پر منحصر ہے۔ فوج سے دشمنی ریاست سے دشمنی سمجھی جاتی ہے اور اِس کام میں وہ بہت آگے جاچکے ہیں۔یاد رہے کہ فوج ہی ایسا ادارہ ہے جو قومی سلامتی کا محافظ اور نگہبان ہے۔ جب تک فوج موجود ہے، دشمن پاکستان کومیلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ فوج کی مخالفت کرنے والوں کو غزہ کے فلسطینی مسلمانوں کی حالت اور بے بسی دیکھ لینی چاہئے۔9مئی 2023ء کے ہولناک اور شرمناک واقعات(جن کا تمام تر رخ فوج اور فوجی تنصیبات کی جانب تھا) اِس بات کا مکمل ثبوت ہیں کہ پی ٹی آئی والے فوج کو اپنا دشمن نمبر ون سمجھتے ہیں،جبکہ میں دل و جان سے وطن عزیز کی محافظ فوج کو الہانہ محبت کرتا ہوں، اِس لئے پی ٹی آئی کو ووٹ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play