جانگلوس والے، شوکت صدیقی صاحب نے کسی زمانے میں ایک افسانہ لکھا تھا،جس کا عنوان تھا راتوں کا شہر، اس میں آزادی کے بعد والے کراچی کے حالات کی عکاسی کی گئی تھی، تب کراچی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، خوف، دہشت اور بھتہ خوری کا عفریت ابھی وہاں سیاست کی بوری سے برآمد نہیں ہوا تھا۔ ہم سب کا پسندیدہ شہر لاہور ان دنوں راتوں کا شہر بنا ہوا ہے، یہاں دکانداری، تجارت اور کاروبار سے لیکر سیاست اور اب حکومت تک سب کچھ راتوں کو ہی نظر آتا ہے،بد قسمتی سے لاہور کو میں روشنیوں کا شہر اِس لئے نہیں کہہ سکتا کہ آج کل بھرپور سردیوں میں بھی یہاں دن اور رات میں کئی کئی گھنٹے بجلی بند رہتی ہے، گیس کے بارے میں نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے، چولہے کو دِیا سلائی دکھائیں تو برنر پر ایک لُو سی ٹمٹمانا شروع کر دیتی ہے،ویسی ہی لو جیسی شمع جلانے پر یا لالٹین روشن کرنے پر نظر آتی ہے۔

شادی کا جھانسہ دے کر نوجوان اغواء پھر کیسے ملا ؟ جانئے

میں نے لاہور کو راتوں کا شہر اس لئے کہا ہے کہ صبح سورج طلوع ہونے سے لے کر دوپہر بارہ بجے تک فوگ،سموگ اور اَن دیکھے بادلوں کی وجہ سے دن بھی رات کی مانند دکھائی دیتا ہے، زندگی متحرک تو نظر آتی ہے لیکن اُونگھتی ہوئی، سْست سْست، نیم باز آنکھوں جیسی، پوری طرح کھلی ہوئی نہ پوری طرح بند، ہاں 12 بجے کے بعد دکانیں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں، گلیوں اور بازاروں میں رونق شروع ہونے لگتی ہے۔ اس رونق میں اب ہماری نگران حکومت نے اضافہ کر دیا ہے،جس کی صبح بھی شام کو طلوع ہوتی ہے، ویسے تو یہ چند ماہ کی حکومت تھی جو کئی مہینوں پر محیط ہو گئی ہے، اس حکومت کا کام برسر اقتدار آنا اور اگلی منتخب حکومت کے قیام کے لئے شفاف،غیر جانبدار اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا تھا، لیکن آپ اسے اب راتوں کی حکومت بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ ہمارے وزیراعلیٰ صاحب کی نگرانی کا وقت تیسرے،چوتھے پہر کے بعد شروع ہوتا ہے،وہ اکثر شام ڈھلے اپنا دفتر سنبھالتے ہیں، کابینہ کے اجلاس اور اہم کام بھی شاموں یا راتوں میں ہی منعقد ہوتے ہیں،پھر ایسی خبریں ہی آتی ہیں کہ وزیراعلیٰ فلاں جگہ رات کو گئے، سخت سردی میں وہ رات بھر کا موں کا جائزہ لیتے رہے، مجھے انگریز دور کے حوالے سے بنی ایک پنجابی فلم یاد آ گئی جس کا نام شائد ملنگی تھا اور اس کا یہ ڈائیلاگ بڑا مشہور ہوا تھا۔

افغانستان میں تباہ ہونیوالے بدقسمت طیارے کا مکمل روٹ سامنے آگیا

دن نوں راج فرنگی دا

رات نوں راج ملنگی دا

ہمارے پنجاب میں تین دفعہ میاں شہباز شریف بھی وزیراعلیٰ رہے، ان کے بارے مشہور تھا کہ انہیں بہت کم نیند آتی ہے،وہ صبح سویر سے بھی بہت پہلے جاگ جاتے تھے اور اپنے کام میں جْت جاتے تھے، ان کی وجہ سے افسروں کو بھی جلدی اُٹھنا پڑتا تھا اور دفاتر بھی وقت پر لگتے تھے،چودھری پرویز الٰہی بھی وزیراعلیٰ پنجاب رہے، وہ دفتر آرام سے آتے تھے، یعنی دن کے دس گیارہ بجے اور شام ڈھلے واپس اپنی رہائش گاہ چلے جاتے تھے۔

اب لاہور راتوں کو جاگتا ہے اور اسے جگانے والوں میں دکانداروں، کاروباریوں اور تاجروں کے علاوہ اب حکمران بھی شامل نظر آتے ہیں،وزیراعلیٰ نقوی کئی دفعہ رات بارہ بجے بھی کابینہ کا اجلاس بلا لیتے ہیں،اِسی وجہ سے ہمارے اکثر سرکاری دفاتر تو اپنے جوبن پر ہی شام کے بعد آتے ہیں اور رات گئے تک وہاں کام ہو رہا ہوتا ہے، پہلے ادوار میں چیف سیکرٹری صبح کے وقت اپنے سیکرٹریوں کی حاضری چیک کرتے تھے،موجودہ حالات میں چیف سیکرٹری پنجاب زاہد زمان راتوں کو حاضری لگاتے ہوں گے کہ کون سا سیکرٹری دفتر میں موجود ہے اور کون سا موجود نہیں ہے، اُنہیں کوئی اور ملے نہ ملے سیکرٹری مواصلات و تعمیرات سہیل اشرف اور سیکرٹری صحت علی جان دفاتر میں ضرور ملتے ہوں گے، یہ ان دِنوں مصروف ترین افسر ہیں،اِسی طرح سیکرٹری محکمہ انہار واصف خورشید رات کو بھی کسی نہ کسی نہر سے بھل صفائی کی نگرانی کرتے پائے جاتے ہیں اور ہمارے چیئرمین پی اینڈ ڈی افتخار سہو تو ان دنوں سرکاری کاموں کے علاوہ شائد ہی کسی سے ملتے ہوں گے۔ ان کی مصروفیات کا روزانہ چارٹ دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر کب جاتے ہیں؟ شہباز شریف کو ان کی تیزی اور تیز رفتاری کی وجہ سے شہباز سپیڈ کہا جاتا تھا، موجودہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی ان کی تیزی اور بے حد سرگرمی کی وجہ سے محسن سپیڈ کا نام دیا گیا ہے،اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ایک سال کے عرصے میں انہوں نے لا تعداد ترقیاتی اور تعمیراتی کام کرائے ہیں، تعمیراتی کاموں پر اب بھی کھربوں روپے لگائے جا رہے ہیں، یہ سارے ترقیاتی اور تعمیراتی کام تو دن میں ہوتے ہیں تو پھر حکمرانوں کی شبینہ سرگرمیوں اور اجلاسوں کا کیا مطلب؟ سیکریٹریٹ بن رہے ہیں، سرکاری دفاتر ٹھیک ہو رہے ہیں، سرکاری افسروں کے لئے نئی رہائش گاہوں کی تعمیر ہو رہی ہیں، سکولوں کی طرف توجہ دی جا رہی ہے، ہسپتالوں کے وزٹ ہو رہے ہیں، یہ سارے اچھے کام ہیں لیکن توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ یہ سارے کام کسی منتخب سیاسی حکومت میں نہیں ہو رہے، بلکہ ایک نگران سیٹ اپ کے تحت ہو رہے ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری منتخب حکومتیں بھی اسی جذبے، اسی رفتار، اسی تیزی اور اِسی سرگرمی کا مظاہرہ کریں۔

بارشوں کی پیشنگوئی

نگران سیٹ اپ میں سرگرمی تو بہت ہو رہی ہے، ترقیاتی کام بھی نظر آ رہے ہیں لیکن اب تک ٹریفک کے مسائل وہیں کے وہیں ہیں، تمام بڑے شہروں میں آج بھی جگہ جگہ ٹریفک بلاک نظر آتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے میں دشواری اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یوں انہیں اپنی مقررہ جگہ پر پہنچنے میں اکثر تاخیر ہو جاتی ہے۔ پولیس کے محکمے کو سدھارنے اسے عوام دوست بنانے اور اس کی کارکردگی میں اضافہ کرنے کی کوششیں ماضی کے ہر دور میں جاری رہی ہیں، یہ کوشش اب بھی جاری ہے اور پولیس کو سنوارنے سدھارنے کے دعوے موجودہ سیٹ اپ میں بھی کیے گئے، لیکن پتہ نہیں کیا وجہ ہے کہ نہ تو ٹریفک ٹھیک ہو پا رہی ہے اور نہ ہی پولیس کے محکمے کو مکمل طور پر فرض شناس بنایا جا سکا ہے، لوگ اب بھی اپنی کسی تکلیف کے ازالے کے لئے تھانے جاتے ہچکچاتے اور ڈرتے ہیں، چند ہفتے پہلے تجاوزات کے خلاف بڑی بھرپور مہم شروع کی تھی، یہ چند دن جاری رہی، اب کسی کو کچھ پتا نہیں کہ اس کی کیا پوزیشن ہے، سٹریٹ کرائمز کا گراف بھی نیچے نہیں لایا جا سکا ہے، لوگ اب بھی سرِ راہ گلیوں محلوں میں اپنی نقدی اور اثاثوں سے محروم ہو رہے ہیں اور خود کو سکیور محسوس نہیں کرتے، سرکاری اداروں میں چلے جائیں تو کوئی جائز کام بھی سفارش یا پھر مٹھی گرم کئے بغیر نہیں ہوتا، کرپشن کا گراف بھی ایک سال میں نیچے نہیں لایا جا سکا ہے، ترقیاتی کام تو ہر حکومت بوجوہ ذوق و شوق سے کرتی ہے، اصل حقیقی اور زمینی مسئلہ توعوامی مسائل ہیں جو ابھی بھی حل نہیں ہو رہے۔

بھارت میں 67 افراد کو 40 سال مقدمہ لڑنے کے بعد نوکری مل گئی

٭٭٭٭٭

QOSHE -          راتوں کی پنجاب حکومت  - محسن گواریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         راتوں کی پنجاب حکومت 

12 0
22.01.2024

جانگلوس والے، شوکت صدیقی صاحب نے کسی زمانے میں ایک افسانہ لکھا تھا،جس کا عنوان تھا راتوں کا شہر، اس میں آزادی کے بعد والے کراچی کے حالات کی عکاسی کی گئی تھی، تب کراچی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، خوف، دہشت اور بھتہ خوری کا عفریت ابھی وہاں سیاست کی بوری سے برآمد نہیں ہوا تھا۔ ہم سب کا پسندیدہ شہر لاہور ان دنوں راتوں کا شہر بنا ہوا ہے، یہاں دکانداری، تجارت اور کاروبار سے لیکر سیاست اور اب حکومت تک سب کچھ راتوں کو ہی نظر آتا ہے،بد قسمتی سے لاہور کو میں روشنیوں کا شہر اِس لئے نہیں کہہ سکتا کہ آج کل بھرپور سردیوں میں بھی یہاں دن اور رات میں کئی کئی گھنٹے بجلی بند رہتی ہے، گیس کے بارے میں نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے، چولہے کو دِیا سلائی دکھائیں تو برنر پر ایک لُو سی ٹمٹمانا شروع کر دیتی ہے،ویسی ہی لو جیسی شمع جلانے پر یا لالٹین روشن کرنے پر نظر آتی ہے۔

شادی کا جھانسہ دے کر نوجوان اغواء پھر کیسے ملا ؟ جانئے

میں نے لاہور کو راتوں کا شہر اس لئے کہا ہے کہ صبح سورج طلوع ہونے سے لے کر دوپہر بارہ بجے تک فوگ،سموگ اور اَن دیکھے بادلوں کی وجہ سے دن بھی رات کی مانند دکھائی دیتا ہے، زندگی متحرک تو نظر آتی ہے لیکن اُونگھتی ہوئی، سْست سْست، نیم باز آنکھوں جیسی، پوری طرح کھلی ہوئی نہ پوری طرح بند، ہاں 12 بجے کے بعد دکانیں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں، گلیوں اور بازاروں میں رونق شروع ہونے لگتی ہے۔ اس رونق میں اب ہماری نگران حکومت نے اضافہ کر دیا ہے،جس کی صبح بھی شام کو طلوع ہوتی ہے، ویسے تو یہ چند ماہ کی حکومت تھی جو کئی مہینوں پر محیط ہو گئی ہے، اس حکومت کا کام برسر اقتدار آنا اور اگلی منتخب حکومت کے قیام کے لئے شفاف،غیر جانبدار........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play