الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرنے سے انکار کر دیا ہے اور سینیٹ میں گزشتہ دنوں منظور کی گئی قرارداد کے جواب میں سینیٹ سیکرٹریٹ کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں بھی عام انتخابات اور بلدیاتی انتخابات موسم سرما میں ہوتے رہے ہیں، علاوہ ازیں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن نے تمام تیاریاں مکمل کر رکھی ہیں اور آٹھ فروری کو انتخابات کے لیے سپریم کورٹ کو بھی یقین دہانی کروائی جا چکی ہے، لہٰذا اِس وقت عام انتخابات 2024 ء کو ملتوی کرنا ممکن نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس انکار کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے کہ اِس کے نتیجے میں ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے جو ابہام اب تک موجود تھا وہ ختم ہو گیا ہے اور یہ یقین ہو چلا ہے کہ تین ہفتوں کے بعد ہم لوگ ووٹ ڈال رہے ہوں گے، نئے عوامی نمائندے منتخب کر رہے ہوں گے، ایک نئی حکومت کی تشکیل ہو رہی ہو گی اور جمہوریت کے تسلسل کو یقینی بنانے کا قصد کیا جا رہا ہو گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو انتخابات ہوں گے اُن کو واقعی حقیقی، شفاف، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ الیکشن قرار دیا جا سکے گا؟ انٹرا پارٹی الیکشن کو بنیاد بنا کر ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کو الیکشن سے تقریباً آؤٹ کر دیا گیا ہے اور اربابِ اختیار کی جانب سے ملک کے تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کے جو دعوے کیے جاتے رہے، اُن کا انجام یہ ہے کہ تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے لیے دائر درخواست یہ کہتے ہوئے واپس لے لی ہے کہ لیول پلیئنگ کے لیے آئے تھے، ہم سے تو فیلڈ ہی چھین لی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں وہ ووٹرز کیا کریں جو پی ٹی آئی کے حامی ہیں؟ اِس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اہم ہے کہ آٹھ فروری کو جو انتخابات منعقد کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، اُن کے نتیجے میں ملک میں ایک مستحکم حکومت قائم ہو سکے گی جو ملکی معاملات کو ہموار طریقے سے آگے بڑھا سکے؟ جو ڈولتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے سلسلے میں جامع اور ٹھوس فیصلے کر سکے؟ جو عوام کو مہنگائی کے عفریت سے نجات دلا سکے؟ جو ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر بنا کر دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کر سکے؟ جو ہمسایہ ممالک، مشرق وسطیٰ، یورپ، امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کے ساتھ پاکستان کے دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے مناسب پالیسیاں وضع کر سکے؟ اِن سوالات کا میرے پاس تو کوئی جواب نہیں ہے، آپ کے ذہن میں کچھ آتا ہو تو بتائیے؟ ذہن میں اِن سوالات کا کوئی جواب آئے یا نہ آئے، آٹھ فروری کے بعد سامنے آنے والے حالات خود ہی بتا دیں گے کہ کیا ہوا، کیا ہو رہا ہے اور کیا ہو سکتا ہے۔

پاکستان کا میزائل حملے کا بھرپورجواب، ایران میں دہشتگردوں کیخلاف کارروائی

ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ پٹرول سستا کر دیا گیا ہے۔ اِس کے نتیجے میں عوام کو ٹرانسپورٹ، باربرداری اور سفر کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ریلیف ملے گا ہی، لیکن ضروری ہے کہ پٹرول کی قیمت 260 روپے فی لٹر کے قریب ہو چکی ہے تو ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور اشیاء صرف کی قیمتوں کو بھی اس سطح پر لایا جائے جس سطح پر وہ اُس وقت تھیں جب پٹرول 260روپے فی لیٹر ہوا کرتا تھا۔ ہمارے ہاں مہنگائی مہنگائی کا شور تو بہت مچایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ انتظامیہ کا پوری طرح فعال نہ ہونا بھی ہے۔ کوئی قیمتیں چیک کرنے والا نہیں ہے، کوئی ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کو کنٹرول کرنے والا نہیں ہے۔ایسے میں تاجر، دکان دار اور کاروباری حضرات من مانی کرتے ہیں اور اُن کی من مانیوں کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ جب پٹرول، بجلی یا گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے تو یہ بہانہ بنا کر اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھا لی جاتی ہیں کہ اُن کی تیاری کے کسی نہ کسی مرحلے میں توانائی کے اُن ذرائع کا استعمال ہوا ہے اور یہ ذرائع مہنگے ہیں لیکن جب کبھی توانائی کے ان ذرائع کی قیمتوں میں کمی کی جاتی ہے (اگرچہ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے) تو اشیائے صرف کی قیمتوں میں کیا گیا اضافہ واپس لینے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ اِسی لیے تو کہتے ہیں کہ ملک میں بلدیاتی نظام بھی قائم ہونا چاہیے تاکہ عوام کے منتخب کردہ کونسلر حضرات گلی محلوں اور مقامی بازاروں کی سطح پر چل پھر کر قیمتوں پر نظر رکھ سکیں اور یوں مہنگائی کو ایک خاص سطح سے زیادہ بڑھنے سے روکنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکیں، چنانچہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ8فروری کے انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی حکومت فوری ضروری معاملات پر توجہ دینے کے بعد ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کا بھی ڈول ڈالے۔ میں یہ بات خاصے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اِس کے نتیجے میں نہ صرف سماجی سطح پر پائے جانے والے ابہام ختم ہوں گے، معاشرتی غیر یقینی صورت حال کا خاتمہ ہو گا بلکہ مہنگائی کو بھی کنٹرول کیا جا سکے گا اور تجاوزات جو ٹریفک کی روانی کو متاثر کرتی ہیں اور لوگوں کی آمد و رفت میں رکاوٹ کا باعث بھی ہیں، جسے ختم کرنے کی بھی کوئی راہ نکل سکے گی کہ عوامی نمائندے تجاوزات قائم ہی نہیں ہونے دیں گے، اگر کوئی تجاوزات قائم کرے گا تو اُن کو ہٹانے کے لیے اپنے اختیارات کا استعمال کر سکیں گے۔ حقیقی جمہوریت کا تقاضا تو یہی ہے کہ ملک میں ہونے والے عام انتخابات مکمل طور پر شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوں جس میں سب کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے اور اُس کے بعد بلدیاتی انتخابات کی طرف بھی بڑھا جائے تاکہ عوام کے مسائل اُن کی دہلیز پر حل ہو سکیں۔

امریکا کی پاکستان پر ایران کی جانب سے حملے کی مذمت

ہم نے اِس ملک میں بہت سے تجربات کر لیے۔ اِن تجربات کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہم اقوام عالم سے ہر لحاظ سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہماری معیشت دگرگوں جبکہ معاشرت کی حالت بھی بہت زیادہ اطمینان بخش نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں ہم مزید تجربات کے متحمل نہیں ہو سکتے اِس لیے ضروری ہے کہ مزید تجربے نہ کیے جائیں اور جمہوریت پر کاربند رہتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔ ”نیچرل انتخابات“ اور ”نیچرل جمہوریت“ میں ہی ہمارے تمام مسائل کا حل مضمر ہے۔ یہی اختیار کیے جانے چاہئیں۔ سدھار اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کی ضد نہ کی جائے۔ پہلے کی گئی غلطیوں کو دہرانے کا عمل مسائل کی شدت اور گمبھیرتا کو بڑھا تو سکتا ہے، اُن میں کمی نہیں لا سکتا۔ اِس دلدل سے نکلنا ہے یا اِس میں مزید گہرا دھنسنا ہے۔ یہ فیصلہ بحیثیت ِ قوم ہم نے کرنا ہے اور میرے خیال میں یہی فیصلے کی گھڑی ہے۔

نسیم وکی اور خوشبو کے بیہودہ ڈانس پر عوام سیخ پا

QOSHE -      حقیقی جمہوریت کے تقاضے - محمد معاذ قریشی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

     حقیقی جمہوریت کے تقاضے

10 0
18.01.2024

الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرنے سے انکار کر دیا ہے اور سینیٹ میں گزشتہ دنوں منظور کی گئی قرارداد کے جواب میں سینیٹ سیکرٹریٹ کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں بھی عام انتخابات اور بلدیاتی انتخابات موسم سرما میں ہوتے رہے ہیں، علاوہ ازیں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن نے تمام تیاریاں مکمل کر رکھی ہیں اور آٹھ فروری کو انتخابات کے لیے سپریم کورٹ کو بھی یقین دہانی کروائی جا چکی ہے، لہٰذا اِس وقت عام انتخابات 2024 ء کو ملتوی کرنا ممکن نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس انکار کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے کہ اِس کے نتیجے میں ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے جو ابہام اب تک موجود تھا وہ ختم ہو گیا ہے اور یہ یقین ہو چلا ہے کہ تین ہفتوں کے بعد ہم لوگ ووٹ ڈال رہے ہوں گے، نئے عوامی نمائندے منتخب کر رہے ہوں گے، ایک نئی حکومت کی تشکیل ہو رہی ہو گی اور جمہوریت کے تسلسل کو یقینی بنانے کا قصد کیا جا رہا ہو گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو انتخابات ہوں گے اُن کو واقعی حقیقی، شفاف، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ الیکشن قرار دیا جا سکے گا؟ انٹرا پارٹی الیکشن کو بنیاد بنا کر ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کو الیکشن سے تقریباً آؤٹ کر دیا گیا ہے اور اربابِ اختیار کی جانب سے ملک کے تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کے جو دعوے کیے جاتے رہے، اُن کا انجام یہ ہے کہ تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے لیے دائر درخواست یہ کہتے ہوئے واپس لے لی ہے کہ لیول پلیئنگ کے لیے آئے تھے، ہم سے تو فیلڈ ہی چھین لی گئی ہے۔ سوال یہ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play