عبدالقادر حسن صاحب کا شمار اُن صحافیوں اور کالم نگاروں میں ہوتا ہے جن کو پڑھ کر ہم نے لکھنا،بولنا اور معاملات کو سمجھنا سیکھا، وہ اُن چند صحافیوں میں شمار کیے جا سکتے ہیں جنہوں نے صحافت کے سفر پُر خار میں قدم رکھنے کے بعد پھر ساری زندگی صحافت ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا، اُنہوں نے اپنے صحافتی سفر کا آغاز سیاسی رپورٹر کے طور پر کیا اور اُن کا شمار اپنے دور کے بہترین سیاسی رپورٹرز میں ہوتا تھا،یہ ُاس زمانے کی بات ہے جب لاہور کا موچی گیٹ سیاسی جلسوں کا مرکز بنا رہتا تھا اور پورا لاہور سیاست دانوں کی باتیں سننے کے لیے اندرون شہر اْمڈ آتا تھا۔ میں نے بھی اپنے صحافتی سفر کی ابتداء سیاسی رپورٹر کے طور پر کی تھی اِس لئے مجھے اُن کی رپورٹنگ کے بارے میں دوسروں اور خود اُن سے سُن کر اِس کے رموز سیکھنے اور سمجھنے کا بہت موقع ملا،جب بھی موقع ملتا میں اُن سے رپورٹنگ،صحافت اور سیاسی لوگوں کے بارے میں باتیں کرتا اور بہت کچھ سیکھتا۔ قادر حسن صاحب نے ایک دفعہ بتایا کہ جس دور میں وہ رپورٹنگ کرتے تھے،اُس وقت یہ بڑا مشکل کام ہوتا تھا کیونکہ نہ تو ریکارڈنگ کی کوئی سہولت موجود تھی کہ ریکارڈنگ کر لی جاتی اور بعد میں اسے چلا کر خبر یا رپورٹ بنا لی جائے اور نہ ہی ٹیلی فون کے ذریعے سیاست دانوں کی تقریریں دفتر تک پہنچائی جا سکتی تھیں، جو کچھ کرنا ہوتا موقع ہی پر کرنا ہوتا تھا چنانچہ سیاستدانوں کی تقاریر بڑے دھیان سے سننا پڑتیں اور اُن کے نوٹس اُس سے بھی زیادہ دھیان سے مرتب کرنا پڑتے، پھر جب جلسہ ختم ہوتا تو دفتر جا کر اُن نوٹس کی مدد سے خبر تیار کی جاتی تھی جس کے لئے نوٹس کے ساتھ ساتھ یادداشت پر بھی انحصار کرنا پڑتا تھا تاہم انہوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے جتنا بھی عرصہ سیاسی رپورٹنگ کی اُس دوران انہیں کسی بھی جانب سے جوابدہی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔اُن دنوں رپورٹنگ کی مشکلات اور اُن سے نمٹنے کے لئے میں نے ”روزنامہ پاکستان“ کے موجودہ ایڈیٹوریل اور ماضی کے معروف رپورٹر چودھری خادم حسین سے بھی بہت کچھ سنا اور سیکھا۔

ویمن کرکٹ ٹیم کی کپتان ندا ڈار کا امپائرنگ میں بھی قسمت آزمانے کا فیصلہ

بہت کم دوست یہ جانتے ہوں گے کہ عبدالقادر حسن صاحب کا کالم ”غیر سیاسی باتیں“ شروع میں اِس عنوان سے شائع نہیں ہوتا تھا غالباً عنوان ”سیاسی ڈائری یا سیاسی باتیں“ تھا، یہ تو احباب جانتے ہی ہیں کہ آمرانہ ادوار میں سیاست اور سیاسی باتوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، ایسے ہی کسی دور میں کسی کی نظر قادر حسن صاحب کے کالم کے عنوان پر پڑ گئی چنانچہ اعتراض اُٹھا دیا گیا، خاصے سوچ بچار کے بعد اِس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ کالم کا عنوان ”سیاسی باتیں“ سے غیر سیاسی باتیں کر دیا گیا۔اِس سے اعتراض کرنے والوں کی تسلی ہو گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ قادر حسن صاحب نے اپنے اسلوب اور اپنی طرزِ نگارش میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔ ”غیر سیاسی باتیں“ کے عنوان سے جو کالم شائع ہوتا تھا اُس میں باتیں سیاسی ہی ہوتی تھیں، یہ الگ بات کہ بعد ازاں انہوں نے اپنے کالموں میں دوسرے سماجی شعبوں اور جہتوں پر بھی بات کرنا شروع کر دی اور یوں یہ ایک عوامی کالم بن گیا جسے سیاسی اور عوامی حلقوں میں بے پناہ پذیرائی ملی۔

بھارتی گلوکارہ کے ایس چترا کو متنازعہ مذہبی ویڈیو مہنگی پڑ گئی

عبدالقادر حسن صاحب نے اپنے کالموں میں عوامیت کو ہمیشہ برقرار رکھا،وہ اپنی تحریر میں سیدھے سادے الفاظ کا استعمال کرتے تھے، ایسے الفاظ جن کے معنی پڑھے لکھے اور دانشور طبقے کو تو سمجھ میں آتے ہی ہوں گے لیکن گلی محلے کا عام بندہ بھی جن کے معنی سے نا آگاہ نہ ہو۔ انہوں نے اپنی تحریروں کو مسجع و مقفیٰ اور نستعلیق الفاظ استعمال کر کے بوجھل بنانے کی کبھی کوشش نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ اُن کے کالم ہر طبقہ ئ فکر کے لوگ پڑھتے اور اِس کا لطف اُٹھاتے تھے۔ طویل عرصہ دشت ِ صحافت میں گزارنے اور ایک لمبی مدت تک سیاسی رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے انہیں ہر موضوع اور ہر ایشو کے بارے میں وافر معلومات ہوتی تھیں اور وہ اپنے کالموں میں اِن ذاتی معلومات کا خوب استعمال کرتے تھے مثلاً سیاست کے بارے میں لکھتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے انہوں نے ساری زندگی بس سیاست ہی کی ہے، معیشت پر قلم اٹھاتے تو اُن سے بڑا معیشت دان دکھائی نہ دیتا۔

جاپان کی بڑی شپنگ کمپنی نے بحیر احمر میں جہازوں کی آمدورفت معطل کر دی

قادر صاحب، صحافت میں نئے آنے والوں کی بھی بڑی راہنمائی کیا کرتے تھے،وہ روزنامہ ”امروز“ کے ایڈیٹر تھے تو میں اُن کے پاس رپورٹر بننے کے شوق میں گیا،میں نے اُنہیں بتایا کہ سر میں نے بی اے،صحافت کے مضمون کے ساتھ کیا ہے اور مجھے رپورٹر بننے کا شوق ہے تو اُنہوں نے مجھے پیار سے سمجھایا کہ آپ ایم اے صحافت کریں پھر میں آپ کو سٹاف رپورٹر رکھ لوں گا اور ساتھ ہی مجھے رپورٹنگ سیکھنے کے لئے کبھی کبھی امروز کے رپورٹنگ روم اور ڈیسک پر سینئرز سے سیکھنے کا مشورہ بھی دیا،وہ مجھ سے بڑی شفقت اور محبت کرتے تھے،میں لاہور پریس کلب کا صدر منتخب ہوا اور کبھی کوئی اچھا صحافتی کام کیا تو وہ اُس کا ذکر اپنے کالموں میں کرتے تھے۔

بہو کو کہنا تمہیں کھانا بنانا نہیں آتا ظلم کے مترادف نہیں، ممبئی ہائیکورٹ

سقراط نے کہا تھا میں کسی کو کچھ سکھا نہیں سکتا صرف انہیں سوچنے پر آمادہ کر سکتا ہوں لیکن میں خاصے وثوق کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ محترم عبدالقادر حسن کی تحریریں،پڑھنے والے کو سوچنے پر تو آمادہ کرتی ہی تھیں مگر بہت کچھ سکھاتی بھی تھیں۔معروف کالم نگار منو بھائی نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ اسلم شاہد کی شاعری زیتون کی انتہائی نرم و نازک جڑوں کی طرح سنگ مرمر کی رگوں میں اُترنے کی صلاحیت رکھتی ہے،کہا جاتا ہے کہ عام لوگوں کے خوابوں اور جذبوں کو عام لوگوں کی زبان میں آسان انداز میں بیان کرنا سب سے مشکل ہوتا ہے، قادر صاحب ساری زندگی یہی مشکل کام کرتے رہے۔

برطانیہ میں خالصتان تحریک کے حامیوں کی جان کو خطرہ ہے، برطانوی پولیس کی وارننگ

عبدالقادر حسن ایک نہایت سادہ انسان تھے، اندازہ اِس بات سے لگائیں جو مجھے روزنامہ ”ایکسپریس“ کے ایڈیٹوریل پیج کے لئے کئی برس سے خدمات سرانجام دینے والے میرے دوست ایڈیٹر ایڈیٹوریل لطیف چودھری صاحب نے بتائی،یہ تو سب جانتے ہی ہیں کہ کچھ کمپنیاں یا ادارے اتوار کے اخبارات کے ساتھ ایک صفحے پر مشتمل اشتہار بھی ڈلوا دیا کرتے ہیں، عبدالقادر حسن اِن اشتہارات کی پشت پر موجود خالی جگہ پر اپنا کالم لکھ کر بھیج دیا کرتے تھے۔وہ چونکہ صحافی تھے اِس لئے صحافتی نزاکتوں کا اُنہیں پورا پورا ادراک تھا،لطیف چودھری صاحب ہی کے بقول عبدالقادر حسن کا کالم روزانہ دن بارہ سے ایک بجے کے درمیان دفتر پہنچ جاتا تھا کبھی اِس سے لیٹ نہیں ہوا، اگر کبھی انہیں کالم لیٹ لکھنا ہوتا یا نہ لکھنا ہوتا تودفتر فون کر کے باقاعدہ آگاہ کرتے تھے۔اِس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ عبدالقادر حسن ایک نظریاتی آدمی تھے، وہ اُمت ِ مسلمہ کے اتحاد اور سماجی مساوات کے داعی تھے، وہ اپنی ذات میں ایک انجمن بھی تھے۔الامین فاونڈیشن اور اکیڈیمی کے روح رواں ضیاالحق نقشبندی اور اطہر قادر حسن کا ہم جیسوں پر احسان ہے کہ ہمیں اپنے پیارے جناب عبدالقادر حسن کے بارے میں یادیں تازہ کرنے کا موقع دیا۔

گجرات :پی ٹی آئی امیدوار کے ڈیرے پر چھاپہ، امریکی پولیس اہلکار گرفتار

QOSHE -       عبدالقادر حسن،ایک ہمہ جہت صحافی - محسن گواریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      عبدالقادر حسن،ایک ہمہ جہت صحافی

7 0
18.01.2024

عبدالقادر حسن صاحب کا شمار اُن صحافیوں اور کالم نگاروں میں ہوتا ہے جن کو پڑھ کر ہم نے لکھنا،بولنا اور معاملات کو سمجھنا سیکھا، وہ اُن چند صحافیوں میں شمار کیے جا سکتے ہیں جنہوں نے صحافت کے سفر پُر خار میں قدم رکھنے کے بعد پھر ساری زندگی صحافت ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا، اُنہوں نے اپنے صحافتی سفر کا آغاز سیاسی رپورٹر کے طور پر کیا اور اُن کا شمار اپنے دور کے بہترین سیاسی رپورٹرز میں ہوتا تھا،یہ ُاس زمانے کی بات ہے جب لاہور کا موچی گیٹ سیاسی جلسوں کا مرکز بنا رہتا تھا اور پورا لاہور سیاست دانوں کی باتیں سننے کے لیے اندرون شہر اْمڈ آتا تھا۔ میں نے بھی اپنے صحافتی سفر کی ابتداء سیاسی رپورٹر کے طور پر کی تھی اِس لئے مجھے اُن کی رپورٹنگ کے بارے میں دوسروں اور خود اُن سے سُن کر اِس کے رموز سیکھنے اور سمجھنے کا بہت موقع ملا،جب بھی موقع ملتا میں اُن سے رپورٹنگ،صحافت اور سیاسی لوگوں کے بارے میں باتیں کرتا اور بہت کچھ سیکھتا۔ قادر حسن صاحب نے ایک دفعہ بتایا کہ جس دور میں وہ رپورٹنگ کرتے تھے،اُس وقت یہ بڑا مشکل کام ہوتا تھا کیونکہ نہ تو ریکارڈنگ کی کوئی سہولت موجود تھی کہ ریکارڈنگ کر لی جاتی اور بعد میں اسے چلا کر خبر یا رپورٹ بنا لی جائے اور نہ ہی ٹیلی فون کے ذریعے سیاست دانوں کی تقریریں دفتر تک پہنچائی جا سکتی تھیں، جو کچھ کرنا ہوتا موقع ہی پر کرنا ہوتا تھا چنانچہ سیاستدانوں کی تقاریر بڑے دھیان سے سننا پڑتیں اور اُن کے نوٹس اُس سے بھی زیادہ دھیان سے مرتب کرنا پڑتے، پھر جب جلسہ ختم ہوتا تو دفتر جا کر اُن نوٹس کی مدد سے خبر تیار کی جاتی تھی جس کے لئے نوٹس کے ساتھ ساتھ یادداشت پر بھی انحصار کرنا پڑتا تھا تاہم انہوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے جتنا بھی عرصہ سیاسی رپورٹنگ کی اُس دوران انہیں کسی بھی جانب سے جوابدہی کا سامنا نہیں کرنا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play