ہماری دوست شاعرہ رخشندہ نوید نے پچھلے دنوں معروف شاعر پروین طاہر اور اُن کے نامدار شوہر طاہر صاحب کے لاہور آنے پر اُن کے اعزاز میں ڈیفنس کلب میں ظہرانہ دیا۔ رخشندہ نے اُن کے علاوہ بھی بہت سے شاعروں اور ادیبوں کو مدعو کررکھا تھا۔ جن میں حسین مجروح، شعیب بن عزیز، شاہد صاحب، سجاد بلوچ عنبرین صلاح الدین اور ثقلین کاظمی شریک محفل تھے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ اس پُرتکلف محفل میں جہاں میں لذیذ ظہرانے سے لطف اندوز ہوئی وہاں تمام دوستوں سے ملاقات کا موقع بھی مل گیا۔ ثقلین کاظمی سے یہ میری پہلی ملاقات تھی، یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ وہ مشیرکاظمی صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ شعیب بن عزیز نے اُن کا تعارف کرواتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ اُنہوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اپنے والد کا کلام جمع کیا اور ترتیب دے کر اُن کی کتاب کلیاتِ مشیرکاظمی شائع کروائی ہے۔ وہ امریکہ میں مقیم ہیں، مگر اس مقصد کے لیے آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ میں سب کی خوبصورت گفتگو اور خاص طور پر طاہر بھائی کی غزلوں سے بہت محظوظ ہوئی۔ اُنہوں نے خاص طور پر میز بجا کر میوزک کی کمی کو بھی پورا کردیا۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی جب ثقلین کاظمی نے اپنے والد گرامی کی کتاب کلیاتِ مشیرکاظمی اپنے دستخط کرنے کے بعد میرے ہاتھ میں تھما دی۔

سینئر اداکار میر محمد لاکھو انتقال کرگئے

مشیرکاظمی کے کلام سے کون واقف نہیں اُنہوں نے 1965ء کی جنگ میں جو ترانہ لکھا وہ امر ہوگیا۔ وہ اپنے ملک اور افواجِ پاکستان سے بے حد محبت کرتے تھے۔ اُن کا یہ ترانہ اتنا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی زبانِ زدِ عام ہے۔ اس ترانے کے بول سنتے ہی ہماری آنکھوں میں آنسو اُمڈ آتے ہیں اور روکے نہیں رکتے۔۔۔

اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو

تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

یہ کلیات 338 صفحات پر مشتمل ہے اور اسے ترتیب پبلی کیشنز 2۔شاہراہِ ایوان تجارت لاہور نے شائع کیا ہے۔ اس میں ان کی معاونت ان کے دو بھائیوں سبطین کاظمی (مرحوم) اور ذوالقرنین کاظمی نے بھی فرمائی ہے۔ کلیاتِ مشیر کاظمی کا انتساب اُنہوں نے اپنی والدہ مرحومہ روبینہ شاہین کے نام کیا ہے جن کے بارے میں کچھ یوں لکھا ہے کہ جنہوں نے حق رفاقت ادا کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی اور ثقلین کاظمی نے اپنے بیٹے علی زین العابدین کاظمی کے نام بھی یہ لکھا کہ اُنہوں نے کلیات کی اشاعت میں میری معاونت کی۔

احسن خان نے گردن پر ٹیٹو بنوانے کی وجہ بتا دی

کلیات میں آغا شورش کاشمیری، الطاف حسین قریشی، مجیب الرحمن شامی، عطاالحق قاسمی،امجد اسلام امجد، شعیب بن عزیز اور ناصرزیدی کے مضامین شامل ہیں۔ کلیاتِ مشیرکاظمی میں اُن کے مختلف کلام کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں قومی شاعری، منقبت سلام و مرثیہ اور شاہکار فلمی نغمے شامل ہیں۔

ثقلین کاظمی نے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ والد مشیرکاظمی کو انتقال کیے 46برس بیت چکے ہیں۔ اُن کے انتقال کے وقت اُن کی عمر صرف 16برس تھی۔ اس نوعمری میں ایک شفیق باپ اور دوست کو کھو دینا اُن کے لیے ایک بہت بڑا المیہ تھا جیسے یکایک زندگی میں تمام خوشیاں روٹھ گئیں ہوں۔ الحمدللہ بفضل خدا مشکل مراحل کو احسن طریقے سے سرانجام کیا۔ اُنہوں نے مشیرکاظمی کی کلیات کی رونمائی پر بتایا کہ جب اُن کے والد کا انتقال ہوا تو اُن کی والدہ نے مجھے بینک بھیجا کہ جاکر پتا کرو کہ بینک میں کتنے پیسے پڑے ہیں تو وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ہمارے والد کے اکاؤنٹ میں اُس وقت صرف 250روپے موجود تھے۔ یہ مشکل وقت ہم نے اپنی والدہ کے ساتھ بے حد صبر اور اُن کی ہدایات کے ساتھ محنت کرکے گزارا۔ ہم تین بھائی تھے اُن کی والدہ نے اُنہیں مشورہ دیا کہ آپ تینوں کو باہر چلے جانا چاہیے یہاں رہنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ اُنہوں نے شروع میں نوکری بھی کی اور تعلیم حاصل کی وہ صوفی غلام مصطفےٰ تبسم کے بیٹے صوفی نثار احمد کے شاگرد بھی ہیں اور اُس وقت وہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں پڑھتے تھے۔ پھر نوکری حاصل کرنے کے لیے اُن کی والدہ نے اُنہیں کہا کہ تم شعیب بن عزیز صاحب سے جاکر ملو اور اپنی نوکری کی بات کرو تو شعیب بن عزیز صاحب نے اُن کی بے حد مدد کی اور ایک نوکری دلائی جہاں انہوں نے بے حد محنت کی اور الحمدللہ! اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال رہی اور وہ وہاں سے پھر دوبئی چلے گئے اور آجکل امریکہ میں سکونت پذیر ہیں۔

کیا آپ سے وہاج علی کا نمبر مل سکتا ہے؟ مداح لڑکی کا یمنی سے سوال

آغا شورش کاشمیری نے کلیاتِ مشیرکاظمی میں مشیرکاظمی کے بارے میں کچھ یوں لکھا ہے کہ مشیر کاظمی……”حدی خوانِ جدید“ اخلاص و افلاس کے سانچہ میں ڈھلا ہوا انسان، خود ایک نظم متحرک، آواز میں جادو، افکار میں گداز اور شاعری میں قرنِ اوّل کے حدی خوانوں کی اُڑانوں کا ہمہمہ، بلاشبہ مشیر کاظمی میدانِ رستخیز کاحدی خوانِ جدید ہے۔

الطاف حسین قریشی لکھتے ہیں کہ وہ ایک حساس اور عوامی شاعر تھے جو سقوطِ مشرقی پاکستان سے غیرمعمولی طور پر متاثر ہوئے۔ اُن کے اشعار کرب میں ڈوبے ہوئے اور شعلہئ درد بنے ہوئے تھے۔ تاثیر کا یہ عالم تھا کہ لوگ بے اختیار زاروقطار اشکبار ہوتے اور سسکیاں بھرنے لگتے۔

نیوزی لینڈ نے پاکستان کو تیسرے ٹی ٹوئنٹی میں شکست دے دی

مجیب الرحمن شامی رقمطراز ہیں کہ مشیرکاظمی مرحوم کی ”کلیات“ مشیر کاظمی مرحوم شاعر باکمال تھے اُنہوں نے گیت لکھے، قومی نغمے لکھے، جنگ ستمبر کے دوران نعرہئ تکبیر بن گئے، سقوطِ ڈھاکہ کے بعد تو جو کچھ کہا اس نے اہل وطن کو تڑپا دیا رُلا دیا ایسی نظمیں کہیں کہ اور کوئی نہ کہہ سکا۔

کلیاتِ مشیرکاظمی میں عطاالحق قاسمی نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے کہ مشیرکاظمی مرحوم و مغفور کو میں زندگی میں شاید صرف دو دفعہ ملا ہوں لیکن میرے خیال میں حقیقی ملاقات جو ہوتی ہے کسی شاعر یا ادیب سے وہ اُس کی تحریروں میں ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے میں مشیرکاظمی سے ایک دفعہ نہیں بیسیوں دفعہ ملا ہوں۔ اُن کے ملّی نغمے اور اُن کی منقبتیں اور اُس کے علاوہ اُن کے فلمی گیت وہ سارے کے سارے لاجواب تھے۔

پی ٹی آئی سے جے یو آئی شیرانی گروپ کا اتحاد ختم

مشیرکاظمی کے بارے میں شعیب بن عزیز نے اپنے احساسات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے کہ مشیرکاظمی ”ایک شاعر ایک ساحر“ کالج کے ایام کے دوران مشاعروں میں جن شاعروں کے کلام اور ترنم سے سامعین کو محسوس ہوتے دیکھا مشیر کاظمی ان چند شاعروں میں سے ایک تھے۔ دراز قامت، کھلتے ہوئے رنگ، کشادہ پیشانی اور وجیہہ شخصیت کے ساتھ اپنی پُرسوز آواز میں جب وہ شعر کاجادو جگاتے تو وقت جیسے تھم جاتا۔

ایک ملاقات میں ثقلین کاظمی اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگے میرے والد نے ایک خواب دیکھا تھا کہ وہ اپنے معاشی حالات بہتر ہونے پر اپنا مسودہ چھپوائیں گے، مگر زندگی نے اُنہیں مہلت نہ دی اور وہ اُس خواب کو پورا نہ کرسکے، مگر آج میں اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ اُن کے خواب کو پورا کیا مجھے یقین ہے کہ اُن کی روح میری ان پُرخلوص کاوشوں سے مطمئن ہو گی۔

یواے ای کی جانب سے رواں ہفتے 2 ارب ڈالر کا قرض رول اوور کیے جانے کا امکان

QOSHE -    ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات  - ڈاکٹر فوزیہ تبسم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

   ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات 

13 0
17.01.2024

ہماری دوست شاعرہ رخشندہ نوید نے پچھلے دنوں معروف شاعر پروین طاہر اور اُن کے نامدار شوہر طاہر صاحب کے لاہور آنے پر اُن کے اعزاز میں ڈیفنس کلب میں ظہرانہ دیا۔ رخشندہ نے اُن کے علاوہ بھی بہت سے شاعروں اور ادیبوں کو مدعو کررکھا تھا۔ جن میں حسین مجروح، شعیب بن عزیز، شاہد صاحب، سجاد بلوچ عنبرین صلاح الدین اور ثقلین کاظمی شریک محفل تھے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ اس پُرتکلف محفل میں جہاں میں لذیذ ظہرانے سے لطف اندوز ہوئی وہاں تمام دوستوں سے ملاقات کا موقع بھی مل گیا۔ ثقلین کاظمی سے یہ میری پہلی ملاقات تھی، یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ وہ مشیرکاظمی صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ شعیب بن عزیز نے اُن کا تعارف کرواتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ اُنہوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اپنے والد کا کلام جمع کیا اور ترتیب دے کر اُن کی کتاب کلیاتِ مشیرکاظمی شائع کروائی ہے۔ وہ امریکہ میں مقیم ہیں، مگر اس مقصد کے لیے آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ میں سب کی خوبصورت گفتگو اور خاص طور پر طاہر بھائی کی غزلوں سے بہت محظوظ ہوئی۔ اُنہوں نے خاص طور پر میز بجا کر میوزک کی کمی کو بھی پورا کردیا۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی جب ثقلین کاظمی نے اپنے والد گرامی کی کتاب کلیاتِ مشیرکاظمی اپنے دستخط کرنے کے بعد میرے ہاتھ میں تھما دی۔

سینئر اداکار میر محمد لاکھو انتقال کرگئے

مشیرکاظمی کے کلام سے کون واقف نہیں اُنہوں نے 1965ء کی جنگ میں جو ترانہ لکھا وہ امر ہوگیا۔ وہ اپنے ملک اور افواجِ پاکستان سے بے حد محبت کرتے تھے۔ اُن کا یہ ترانہ اتنا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی زبانِ زدِ عام ہے۔ اس ترانے کے بول سنتے ہی ہماری آنکھوں میں آنسو اُمڈ آتے ہیں اور روکے نہیں رکتے۔۔۔

اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو

تمہیں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play