شرائط کیا تھیں، طے کیا ہوا تھا، کیسے تکمیل ہوئی۔ یہ ساری کہانی مورخ لکھے گا، کب لکھے گا یہ تو نہیں کہا جا سکتا، مگر اُمید رکھنی چاہیے کہ اِس بار ”حقائق“ زیادہ دیر چھپ نہیں سکیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی بدولت ”90 فیصد“ سچ کا عوام کو پتہ پہلے سے ہی لگ چکا تھا،جو جو کچھ سوشل میڈیا بتا رہا ہے ویسا ہی ہورہا ہے، تاحیات قائد یعنی میاں نوازشریف سے ”لندن میں کون ملا اور کس نے کیا طے کیا“ یہ تو کسی بچے سے پوچھیں گے تو وہ بھی یہ بتا دے گا، ایسا لگتا ہے سوشل میڈیا والے اب ”ایم آئی سکس“ سے تربیت لیتے ہیں کہ وہ جو بھی ہمیں بتا رہے تھے سب ویسے ہی ہوتا رہا اور اب تو یہ بھی لگتا ہے کہ جب ”فیصلہ کرنے والے“ لندن میں تاحیات قائد سے مل کر معاملات کو حتمی شکل دے رہے تھے تو سوشل میڈیا والے وہاں کیمرے لگائے سب ریکارڈ کر رہے تھے۔ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب آنے والے ”فیصلے“ کے بعد اب لندن پلان کے ”آخری ایکٹ“ کا انتظار ہے جو تاحیات قائد کے وزیراعظم بننے کا منظر ہوگا، اس وقت کے لئے یقینا تاحیات قائد اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے جتنی محنت کی وہ ”قابل ِ ستائش“ ہے کہ وہ کر دکھایا جو مجھ جیسے بہت سے لوگوں کو نظر تو آرہا تھا مگر ہمارے لئے اس پر یقین کرنا مشکل تھا، مگر ایک اور سچ یہ بھی ہے کہ تاحیات قائد سے لندن پلان کے ”مراحل“ طے کرنے والوں نے اپنا سب کچھ ”داؤ“ پر لگا کر عملدرآمد کیا ہے۔ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں لندن پلان کئی بار بنائے گئے اور ان کی بازگشت بھی سنائی دی، مگر ”عملدرآمد“ کروانے والے فریق کی مشکلیں پہلے کبھی اتنی نہ تھیں۔

سابق بیو روکریٹ اور معروف افسانہ نگار وحید بھٹی انتقال کرگئے

لندن پلان کی جو تفصیلات یا شرائط سامنے آتی رہیں ان میں سب سے اہم لیول پلیئنگ فیلڈ تھی۔ لیول پلیئنگ فیلڈ کی جو شرائط مسلم لیگ(ن) کی مستقبل کی قائد مریم نوازشریف نے اپنے جلسوں میں بیان فرمائیں وہ ”کپتان“ کی اقتدار سے علیحدگی سے شروع ہوتی تھیں، جس کے بعد کے مراحل میں کپتان اور ان کے کھلاڑیوں پر مقدمات، گرفتاریاں، جیل کی کال کوٹھری، تحریک انصاف کو بھولی بسری یاد بنانا، کپتان کو سخت سزائیں دلوانا، ترازو کے پلڑے برابر کرنا نہیں،بلکہ مسلم لیگ (ن) کی طرف جھکانا، بلے کا نشان چھیننا، کھلاڑیوں کو سر بازار رسوا کرنا، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی جیت ”یقینی“ بنا کر دینا، انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو دوتہائی اکثریت دلوانا اور جناب تاحیات قائد میاں نوازشریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنوانا بتایا گیا تھا۔ 13 جنوری کو یہ مراحل تقریباً مکمل ہوچکے ہیں۔ مریم نواز صاحبہ کو مطلوبہ نتائج دینے کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ نظر تو نہیں آرہی۔ بلے کا نشان چھیننے سے 227 مخصوص نشستوں میں سے تحریک انصاف کو اب بظاہر تو کچھ ملتا نظر نہیں آ رہا، مگر تحریک انصاف کے پلان A.B.C.D.E.F کے کچھ حصے ابھی باقی ہیں۔ باخبروں کے مطابق اگر 1979ء میں جنرل ضیاء الحق جیسا ظالم ڈکٹیٹر جیالوں کو کوڑے لگانے اور پھانسیاں دینے کے باوجود واضح اکثریت لینے سے نہیں روک سکا تو سوشل میڈیا کے دور میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی انتخابی مہم اب موبائل سکرین تک محدود ہو جائے گی۔ ہر ضلع کے امیدواروں کے نام اور انتخابی نشان کے حوالے سے دن رات ووٹروں کو آگاہ کیا جا ئے گا، خصوصاً تحریک انصاف کے نوجوان ووٹرز اور خواتین کو یاد کرا دیا جائے گا کہ اُنہیں کس کو ووٹ دینا ہے۔

حکومت نے پیٹرول سستا کرکے بجلی مہنگی کرنے کی تیاری کرلی

ووٹرز کو یاد کرایا جائے گا کہ ان کے حلقے میں ”ان کے کپتان“ کا اصلی کھلاڑی کون ہے اور اس کا نشان کیاہے سارس (بگلا)، کھسہ، کلاک، انناس، دروازہ، چمٹا، ڈولفن، گھڑی، درانتی، نلکا، ٹرانسفارمر، لیب ٹاپ، چمچہ، وکٹ، ریکٹ، پیالہ یا گھریلو استعمال کی کوئی اور شے ہے۔ ووٹرز کے لئے یہ یقینا مشکل کام ہو گا، مگر دو سال سے اپنے ”کپتان اور مرشد“ کا ہر مشکل میں ساتھ دینے والے دیوانے عوام جو ابھی تک اپنے ”قائد“ کے خلاف کچھ سننے کو تیار نہیں اور تہیہ کئے بیٹھے ہیں کہ ”سازشیوں“ کی سازشوں کو ناکام بنا کر دکھائیں گے، یہی امتحان ہے۔ قوم کو تعلیم کی روشنی سے محروم رکھا گیا تاکہ یہ غلام ان کے اشاروں پر چلتے رہیں اور احتجاج کا حق استعمال کرنے کا طریقہ نہ سیکھ پائیں، مگر کپتان نے کھلاڑیوں کو احتجاج کرنا اور بولنا سکھا دیا ہے۔ غلاموں نے 2018ء میں اپنے مرشد کو ایک کروڑ 69 لاکھ 2 ہزار 702 ووٹ دئیے تھے، جبکہ متوالوں نے اپنے تا حیات قائد کو ایک کروڑ 29 لاکھ 34 ہزار 589 ووٹ اور جیالوں نے اپنی بے نظیر کے بیٹے بلاول کو 69 لاکھ 24 ہزار 356 ووٹ دئیے تھے۔ گزشتہ دو سال میں پارٹی اور کھلاڑیوں پر تمام تر سختیوں کے باوجود کھلاڑیوں کے قدم ڈگمگائے نہیں۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے کئے گئے سروے بتا رہے ہیں کہ کپتان کے ”بکسے“ اب 2018ء سے بہت زیادہ ”بھاری“ ہوں گے۔ بکسے بھاری ہونے کے اسی خوف نے ”ساتھیوں“ کی نیندیں اُڑا دی ہیں۔ لیول پلیئنگ فیلڈ کے لئے طے شدہ شرائط کی تقریباً تکمیل ہوچکی ہے، مگر کپتان کے کھلاڑیوں کے خوف سے الیکشن کے التواء کے لئے بھی کھیل جاری ہے۔ تحریک انصاف کے پاس مخصوص سیٹیں بچانے کا ابھی ایک راستہ بچا ہے۔ 8 فروری کو ”کپتان کے دیوانوں“ نے اگر بازی پلٹ دی تو ان ”آزاد“ پنچھیوں کو ایک ڈال پر بیٹھنا ہو گا جس کے لئے اُنہیں تین چار دن دیئے جائیں گے۔ گزشتہ دو برسوں میں مشکل حالات میں کپتان کا ساتھ دینے والی جماعت وحدت المسلمین نے گزشتہ رات پھر یاد دلایا ہے کہ اگر ان سے ”الحاق یا اتحاد“ کر لیا جاتا تو وہ تحریک انصاف نظریاتی کے اقبال ڈار نہ بنتے، بلکہ ثابت قدم رہتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”ہم کربلا والے ہیں، سر کٹانے والے ہیں“۔ عمران خان نے اگر اپنے کھلاڑیوں کو کامیابی کے بعد تحریک وحدت المسلمین کے ”خیمے“ (انتخابی نشان) میں پناہ لینے کی ہدایات کردیں تو کیا ہوگا۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE -          لیول پلیئنگ فیلڈ مل گئی؟ - سید شعیب الدین احمد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         لیول پلیئنگ فیلڈ مل گئی؟

11 0
16.01.2024

شرائط کیا تھیں، طے کیا ہوا تھا، کیسے تکمیل ہوئی۔ یہ ساری کہانی مورخ لکھے گا، کب لکھے گا یہ تو نہیں کہا جا سکتا، مگر اُمید رکھنی چاہیے کہ اِس بار ”حقائق“ زیادہ دیر چھپ نہیں سکیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی بدولت ”90 فیصد“ سچ کا عوام کو پتہ پہلے سے ہی لگ چکا تھا،جو جو کچھ سوشل میڈیا بتا رہا ہے ویسا ہی ہورہا ہے، تاحیات قائد یعنی میاں نوازشریف سے ”لندن میں کون ملا اور کس نے کیا طے کیا“ یہ تو کسی بچے سے پوچھیں گے تو وہ بھی یہ بتا دے گا، ایسا لگتا ہے سوشل میڈیا والے اب ”ایم آئی سکس“ سے تربیت لیتے ہیں کہ وہ جو بھی ہمیں بتا رہے تھے سب ویسے ہی ہوتا رہا اور اب تو یہ بھی لگتا ہے کہ جب ”فیصلہ کرنے والے“ لندن میں تاحیات قائد سے مل کر معاملات کو حتمی شکل دے رہے تھے تو سوشل میڈیا والے وہاں کیمرے لگائے سب ریکارڈ کر رہے تھے۔ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب آنے والے ”فیصلے“ کے بعد اب لندن پلان کے ”آخری ایکٹ“ کا انتظار ہے جو تاحیات قائد کے وزیراعظم بننے کا منظر ہوگا، اس وقت کے لئے یقینا تاحیات قائد اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے جتنی محنت کی وہ ”قابل ِ ستائش“ ہے کہ وہ کر دکھایا جو مجھ جیسے بہت سے لوگوں کو نظر تو آرہا تھا مگر ہمارے لئے اس پر یقین کرنا مشکل تھا، مگر ایک اور سچ یہ بھی ہے کہ تاحیات قائد سے لندن پلان کے ”مراحل“ طے کرنے والوں نے اپنا سب کچھ ”داؤ“ پر لگا کر عملدرآمد کیا ہے۔ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں لندن پلان کئی بار........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play