ماں کی گود۔۔۔ایک ادارہ
پچھلے کئی سال سے جنوری کا مہینہ جب آتا ہے تو دِل و دماغ میں یادوں کا ہڑ آجاتا ہے۔ سوچ میں خیالات کا دیکھتے ہی دیکھتے جنگل تیار ہو جاتا ہے اور اوپر سے اس جنگل میں جدائی اور وچھوڑے کی جھڑی کی بدولت آنکھوں کے آنسو چھم چھم برسنا شروع کر دیتے ہیں۔ ماضی بھی کیا چیز ہے اگر انسان اس میں کھو جائے تو اس کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ مسکرا، بلکہ کھل کھلا کے ہنس بھی سکتا ہے۔ اور رو بلکہ رودھو بھی سکتا ہے۔ اس کا سر چکرا بھی سکتا ہے اس کو چپ بھی لگ سکتی ہے، وہ مشتعل بھی ہو سکتا ہے، وہ بے ہوش بھی ہو سکتا،بلکہ اس کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے مزید یہ کہ اس کے مرنے کے امکان کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یادوں کی بارات اور وہ بھی لمبی چوڑی، بلکہ بہت ہی لمبی چوڑی بارات کا بوجھ اس کے سر پر سوار ہوتا ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا ہے اِس ساری صورتحال کا کوانٹم بڑھتا چلا جاتا ہے۔ شاید اِسی لئے انسان عمر کے ساتھ ساتھ سنجیدہ ہوتا چلاجاتا ہے اور بعض اوقات تو وہ بالکل ہی خاموش ہوجاتا ہے اور پھر اس کی خاموشی بولتی ہے اور گزرے دِنوں کاپتہ دیتی ہے۔ اس امکانی تصویر پر اگر غور کیا جائے تو انسان جب آنکھ کھولتا ہے تو اس کو کیا کیا نہیں دیکھنے کو ملتا۔ کائنات کی بوقلمونیاں اور حالات کے اَن گنت رنگ اور ان رنگوں میں رنگے ہوئے تغیرات زمانہ کے شب وروز اور پھر ان شب و روز کی ککھ سے نمودار ہونے والے دکھ سکھ۔ بس یہی دُکھ اور سُکھ گہری سوچ میں گم ہونے والے کو مار دیتے ہیں۔ شاید اسی لئے دانا لوگ کہتے ہیں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہئے۔ ان کی رائے اپنی جگہ اہم ہے، لیکن پیچھے سے اگر ماں آواز دے دے تو کون بد بخت نہ مڑ کر دیکھنے کی جرأت کر سکتا ہے۔ ماں کا وہ واحد رشتہ ہے جس کے بدن سے انسان جدا ہوتا ہے اور پھر اس کی گود میں پلتا بڑھتا ہے اور بڑا ہو کر اس کی دعاؤں کا محتاج ہوتا ہے۔ دنیا کی تتی ہواوئں، بے........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website