پاکستان کی معیشت کا حجم تقریبا 300 ارب ڈالر کے برابر ہے 67 فی صد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور اپنی گزربسر کے لئے زراعت اور اس سے وابستہ پیشوں پر انحصار کرتی ہے ہماری صنعت اور اسکی پیداوار کا انحصار بھی زرعی خام مال پر ہے ہماری برآمدات کا60/70 فی صد زراعت اور اس سے منسلک شعبہ جات پر انحصار کرتا ہے کپاس، چاول، چینی، چمڑے کی مصنوعات وغیرہ کا تعلق زراعت سے ہے۔ ہماری سب سے بڑی برآمدی شے، ٹیکسٹائل کا بھی زراعت پرہی انحصار ہے۔ زرعی شعبہ ہماری خام قومی آمدنی کے 23 فی صد کے برابر ہے۔ زراعت کے لئے پانی، روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں دنیا کا بڑا نہری نظام موجودہے جسے پانچ دریا پانی مہیا کرتے ہیں۔ یہ پانچ دریا کوہ ہندوکش سے نکلتے مقبوضہ کشمیرسے ہوتے ہوئے پنجاب کے میدانوں میں داخل ہوتے ہیں، پھر آگے بڑھتے ہوئے یہ انڈس یعنی سندھ طاس کا حصہ بن کر بالآخر بحیرہ عرب میں ضم ہو جاتے ہیں۔ ہم سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریاؤں کے پانی پر اپنا حق ختم کر چکے ہیں۔ اب ان تین دریاؤں کا پانی قانونی طور پر ہندوستان کے قبضے میں چلا گیا ہے وہ جب چاہتا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ وہ پانی روک کر ہمیں خشک سالی کا شکار بھی کرتا ہے اور مون سون کے موسم میں بے دریغ پانی چھوڑ کر سیلاب کی نذر بھی کر دیتا ہے۔ ہم مجبور محض بن کر دیکھے رہتے ہیں۔ آبپاشی کا دوسرا ذریعہ بارشیں ہیں اور انکے ساتھ جڑاہوا زیر زمین پانی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مون سون نہ صرف الٹ پلٹ ہوچکا ہے، بلکہ بارشوں کی اوسط میں بھی تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔ ہم نے دستیاب پانی کو بھر پور انداز میں استعمال کرنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے جس کا نتیجہ پانی کی کمیابی اور فی ایکٹر پیداوار میں مطلوبہ بڑھوتی حاصل نہیں ہوسکی۔ ہماری آبادی بڑھتی چلی جارہی ہے لیکن ہماری زمین کی پیداواری صلاحیت اس حساب سے بڑھ نہیں پائی ہے جس کے باعث ہمارے ہاں خوراک و اجناس کی حسب ضرورت دستیابی ممکن نہیں ہوسکی، زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں گندم،دالیں، ادرک پیاز چینی وغیرہ درآمد کرنا پڑتاہے۔ہماری سب سے بڑی پرابلم روٹی کا حصول بن چکا ہے۔ قدر زر میں کمی کے باعث مہنگائی 48 فی صد تک پہنچی ہوئی ہے۔ اندرونی اور بیرونی غیر موافق حالات کے باعث معاشی نمو سکڑ چکی ہے۔ روزگار کے مواقع نہ ہونے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ سیاسی بے ضابطگیوں اور سفارتی ناہمواریوں نے مستقبل قریب میں بہتری کے امکانات معدوم کر دیئے ہیں،ایسے میں دہشت گردی کی نئی لہرکااٹھنا اورپھیلتے ہی چلے جانا قومی سلامتی کے لئے انتہائی مضرہے ان حالات میں ابھی تک کسی سیاسی جماعت یا قائد نے کوئی ایسا لا ئحہ عمل تجویز نہیں کیا، جو قوم کو امید کی کرن دکھا کر تعمیر و ترقی کی راہ پر ڈال سکے سوال یہ پید اہوتا ہے کہ کیا ایسے میں ہم ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں اور ملک وقوم کو تباہی کی طرف جاتا دیکھتے رہیں۔

ہانیہ عامر کا شاہ رخ خان سٹائل میں ڈانس

جی نہیں،ہرگز نہیں۔ پاکستان ہماری امیدوں اور امنگوں کامسکن ہی نہیں 24 کروڑ انسانوں کی جائے پناہ بھی ہے۔آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔2023ء کی حتمی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 24 کروڑسے کچھ زائد ہے جن میں 49.6 فی صد خواتین اور 50.4 فی صد مرد شامل ہیں، افزائش آبادی کی شرح 2.55 فی صد سالانہ ہے 35 فی صد آبادی 15 سال اور اس سے کم عمرافرادپر مشتمل ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز ڈوپلیمنٹ پروگرام کے سروے کے مطابق پاکستان دنیا میں نوجوان آبادی رکھنے والے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے اس کی آبادی کا 64 فی صد30 سال اور اس سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔اتنی بڑی نوجوان آبادی کو روز گار مہیا کرنا کسی بھی حکومت کے بس میں نہیں ہے،پھر 2.55 فی صد سالانہ کی افزائش آبادی بھی بہت زیادہ ہے جبکہ معاشی نمو کی کم ترین سطح بھی ایک عظیم مسئلہ ہے ایسے میں نوجوان نسل کو خود انحصاری اور خود کفالت کی راہ پر ڈالنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے چین سری لنکا، سنگا پور، ملائیشیاء کو ریا، بنگلہ دیش اورانڈیا جیسے ترقی کرتے ہوئے بلکہ ترقی کی اعلیٰ منازل طے کرتے ہوئے ممالک نے اپنے نوجوانوں کو ہنر مند بنایا انہیں آئی ٹی سے لیس کیا، انہیں لوکل اور عالمی مارکیٹ میں پنپنے اور اپنا مقام بنائے کا سلیقہ سکھایا اور اسکا نتیجہ ہے کہ یہ اقوام تعمیرو ترقی کی منازل طے کرتی ہوئی آج کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہیں ہندوستان آبادی کے لحاظ سے اب پہلے نمبر پر ہے اس سے پہلے چین اس مقام پر فائز تھا۔ ان ممالک نے اپنی آبادی کو نوجوانوں کے دو ہاتھوں کو معاشی ہتھیار بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ عالمی اقتصادی منظر پر چھا گئے۔ بنگلہ دیش بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ہم تمام تر مشکلات اور ناموافق حالات کی موجودگی کے باوجود نوجوانوں کی کثیر تعداد کی موجودگی میں ایک عظیم نعمت سے مالا مال قوم ہیں یہ ہمارا عالمی اعزاز بھی ہے ہمیں مثبت عمل کو ایک عملی حقیقت کی شکل دینی ہے مشرق وسطی تعمیرو ترقی کے عظیم الشان عمل سے گزر رہا ہے وہاں اگلے دس بیس سالوں کے لئے افرادی قوت کی بکنگ ہو رہی ہے یورپ ہنر مند افراد کی قلت کا شکا ر ہے۔ خطے میں سی پیک نے ہنر مند افراد کے لئے روزگارکے بے پناہ مواقع پیدا کر دیئے ہیں۔ اب بھی موقع ہے کہ ہم لوکل علاقائی اور بین الاقوامی روز گار مارکیٹ کے رجحانات کو دیکھے ہوئے اپنی نوجوان نسل کو ہنر مند بنانے کی پالیسی تشکیل دیں اور مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔

پولیس کا ہیروئین بنانے والی فیکٹری پر چھاپہ، بڑی تعداد میں منشیات برآمد

QOSHE -         نوجوانوں کو ہنر مند بنائے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے   - علی عالم قمر
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        نوجوانوں کو ہنر مند بنائے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے  

5 0
13.01.2024

پاکستان کی معیشت کا حجم تقریبا 300 ارب ڈالر کے برابر ہے 67 فی صد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور اپنی گزربسر کے لئے زراعت اور اس سے وابستہ پیشوں پر انحصار کرتی ہے ہماری صنعت اور اسکی پیداوار کا انحصار بھی زرعی خام مال پر ہے ہماری برآمدات کا60/70 فی صد زراعت اور اس سے منسلک شعبہ جات پر انحصار کرتا ہے کپاس، چاول، چینی، چمڑے کی مصنوعات وغیرہ کا تعلق زراعت سے ہے۔ ہماری سب سے بڑی برآمدی شے، ٹیکسٹائل کا بھی زراعت پرہی انحصار ہے۔ زرعی شعبہ ہماری خام قومی آمدنی کے 23 فی صد کے برابر ہے۔ زراعت کے لئے پانی، روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں دنیا کا بڑا نہری نظام موجودہے جسے پانچ دریا پانی مہیا کرتے ہیں۔ یہ پانچ دریا کوہ ہندوکش سے نکلتے مقبوضہ کشمیرسے ہوتے ہوئے پنجاب کے میدانوں میں داخل ہوتے ہیں، پھر آگے بڑھتے ہوئے یہ انڈس یعنی سندھ طاس کا حصہ بن کر بالآخر بحیرہ عرب میں ضم ہو جاتے ہیں۔ ہم سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریاؤں کے پانی پر اپنا حق ختم کر چکے ہیں۔ اب ان تین دریاؤں کا پانی قانونی طور پر ہندوستان کے قبضے میں چلا گیا ہے وہ جب چاہتا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ وہ پانی روک کر ہمیں خشک سالی کا شکار بھی کرتا ہے اور مون سون کے موسم میں بے دریغ پانی چھوڑ کر سیلاب کی نذر بھی کر دیتا ہے۔ ہم مجبور محض بن کر دیکھے رہتے ہیں۔ آبپاشی کا دوسرا ذریعہ بارشیں ہیں اور........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play