تحقیق زندگی کے ہر شعبے کے لئے ضروری ہے لیکن تعلیم کے میدان میں تحقیق ہی بنیادی اکائی ہے اور تعلیم ہر شعبہ ہائے زندگی کے لئے لازمی جزو ہے۔ تعلیم و تحقیق کے میدان میں دیکھا جائے تو خاص طور پر یونیورسٹیاں علم و تحقیق کا بنیادی اور اہم ترین مراکز ہوتی ہیں جہاں تعلیم کے مختلف میدانوں میں ابتدائی مراحل سے تخصیص تک دادِ تحقیق دی جاتی ہے۔

جامعات سے فارغ التحصیل طالب علم ہی زندگی کے ہر شعبے میں اپنی مہارت کے جوہر دکھاتے نظر آتے ہیں۔ دنیا کی دیگر یونیورسٹیوں کی طرح پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کے اردو، اسلامیات، تاریخ، عربی، سائنس، ریاضی، مقامی و غیر مقامی زبانوں کے علاوہ دیگر شعبہ جات میں ایم اے، ایم فل، پی ایچ ڈی اور دیگر سندی مقالات تحریر کروائے جاتے ہیں۔

ہانیہ عامر کا شاہ رخ خان سٹائل میں ڈانس

مختلف النوع موضوعات پر مقالات لکھوانے کی وجہ سے طلبا و طالبات کی تحقیقی صلاحیتیں ابھرتی ہیں اور اُن کو تحقیق کے میدان میں آگے بڑھنے کے مواقع ملتے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنے کے لئے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ اس موضوع پر اس سے قبل کیا تحقیق ہوچکی ہے اور کتنے مقالات و کتب تحریر ہوچکے ہیں۔ تحقیق کا یہ مرحلہ نہایت مشکل ہوتا ہے۔

پہلے سے تحریر کردہ علمی مقالے، کتب، مقالات اور دیگر تحریروں تک رسائی اور ان کے بارے میں معلومات سے آگاہی حاصل کرنے کا درست ذریعہ تو ان مقالات کا حصول ہے، لیکن چونکہ مشکل امر ہے اس لیے اس کمی کا ازالہ کرنے لیے ”کتابیات“ کے نام سے ایک موضوع پر دستیاب مواد و کتب کے بارے میں معلومات بہم پہنچانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ”کتابیات“ کے کام کو مزید کھولنے اور نکھارنے کا عمل ”اشاریہ سازی“ سے ممکن ہوا۔ اشاریہ سازی کا عمل ابتدا میں کتب پھر رسائل و جرائد تک تھا، لیکن جب جامعاتی تحقیققات کا دائرہ وسیع تر ہوا تو جامعاتی سندی تحقیق مقالات کے بارے میں آگہی اورمعلومات دینے کے لئے ان کی ”اشاریہ سازی“ ضروری قرار پائی۔

پولیس کا ہیروئین بنانے والی فیکٹری پر چھاپہ، بڑی تعداد میں منشیات برآمد

جامعاتی سطح پر لکھے جانے والے تحقیقی مقالات کی اشاریہ سازی نہ صرف طلبا اور اساتذہ بلکہ دیگر محققین کے لیے بھی نہایت اہم ہے، جس سے تمام لوگوں کا قیمتی وقت اور سرمایہ بچتا ہے نیز نئے موضوع کو مقرر کروانے کے علاوہ سابقہ تحقیق سے استفادہ بھی آسان تر ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں باقاعدہ سرکاری سطح پر تو نہیں لیکن انفرادی طور پر مختلف لوگ اور اداروں نے ضرور کام کیا ہے اور کربھی رہے ہیں۔ اُن میں سید جمیل احمد رضوی، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر حافظ محمد سجاد، ڈاکٹر معین الرحمن، ڈاکٹر سعید الرحمن اور محمد شاہد حنیف اور سمیع الرحمن کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

فہد مرزا کا پہلی شادی اور ثروت گیلانی سے بریک اپ کا انکشاف

”جامعات میں اسلامی تحقیقی مقالہ جات“ کے نام سے زیر نظر تحقیقی کام جس کو ”پراجیکٹ“ کا نام دیا گیا ہے۔ اسے یونیورسٹی آف لاہور نے شائع کیا ہے۔ اور مرتبین یا مدیران کے لفظ کی بجائے ”پراجیکٹ کمیٹی“ میں جو نام دیئے گئے ہیں اُن میں محمد شاہد حنیف اور سمیع الرحمن کے ناموں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تحقیقی شاہکار ان کی محنت کا ہی نتیجہ ہے۔ شاید اسی لئے ہی کتاب میں پراجیکٹ کمیٹی کے افراد کا تعارف بھی نہیں دیا گیا۔ بہرحال اس علمی و تحقیقی پراجیکٹ میں پاک و ہند کی بیاسی (82) سے زائد یونیورسٹیوں میں لکھے جانے والے مقالات کی اشاریہ سازی کی گئی ہے۔ زیر نظر کتاب میں نو سو (900) سے زائد ماہرین (اساتذہ کرام) کی نگرانی میں ہونے والے تقریباً پندرہ ہزار مقالات کو ایک ہزار کے قریب بنیادی اور ذیلی موضوعات میں پیش کیا گیا ہے،جس سے کسی بھی موضوع سے متعلقہ مقالہ تک رسائی نہایت آسان ہو گئی ہے۔ بعض مقالات کو ایک سے زائد موضوع میں رکھنا ناگزیر ہوتا ہے اس لئے کتاب میں اندراجات کی تعداد19ہزار139ہے۔

کنزیٰ ہاشمی کا سوشل میڈیا پر ذاتی تصاویر شیئر نہ کرنے کا مشورہ

”جامعات میں اسلامی تحقیقی مقالہ جات“ کے عنوان سے اس تحقیقی شاہکار میں اکیس بنیادی ابواب بنائے گئے ہیں جن میں قرآن و علومِ قرآن، حدیث و علومِ حدیث، ایمان و عقائد، عبادات، فقہ و اجتہاد، معاشرتی نظام، تعلیم و تعلم، دعوت و تبلیغ اور تزکیہ نفس، سیاسی نظام، معاشی نظام، عدلیہ اور نظامِ قضا، طب و سائنس، عالم اسلام و عالم مغرب، سیروسوانح، تاریخ، اسلام اور مغرب، تقابل فِرق و ادیان، ادارے، جماعتیں، صحافت، شعر و ادب اور لسانیات اور متفرقات شامل ہیں۔

ہر باب کے اندر بیسیوں ذیلی موضوعات بھی درج کیے گئے، جس کی مثال یہ ہے کہ پہلے باب قرآن و علومِ قرآن میں اعجاز القرآن، وحی و نزولِ قرآن، تدوین و کتابت قرآن، اُصولِ تفسیر، قرآن کے حقوق، قرآن اور سائنس، قرآن اور دیگر سماوی کتب، اسماء القرآن، قرآن اور مستشرقین، فہم قرآن، علوم قراء ات، قصص القرآن، ارض القرآن، مشکلات القرآن، نسخ و منسوخ، نظمِ قرآن وغیرہ۔ …… مزید برآں تعارف تفسیر، تراجم قرآن کے ضمن میں کئی ذیلی موضوعات بھی ملیں گے جن میں صرف تعارف تفسیر کے حصے میں 140تفاسیر کے بارے میں لکھے گئے مقالات سے آگاہی ملتی ہے۔اس طرح تمام ابواب میں بیسیوں ذیلی موضوعات کے تحت مقالات کو احسن انداز میں مرتب کیا گیا ہے، جس سے کوئی بھی محقق یا طالب علم قدیم تحقیق سے آگاہ ہوتے ہوئے اپنے لئے نئے موضوعات کا تعین کرنے میں مدد لے سکتا ہے۔

ٹرمپ نے عدالت میں جج کوڈانٹ دیا، موکل کو سنبھالو ، جج کی وکیل کو تنبیہہ

تحقیقی دنیا میں یہ ایک علمی شاہکار ہے۔ بنیادی ابواب بندی کے بعد ذیلی موضوعات میں پیش کیے گئے ان مقالات کی جامع فہرست طلبا، محققین اور اساتذہ کرام کے لئے ایک نعمت الٰہی ہے۔ کتاب کے آخر میں مقالہ جات کے نگرانوں کا اشاریہ بھی دیا گیا ہے۔ بعض اندراجات میں معلومات نامکمل نظرآتی ہیں، آئندہ ایڈیشن میں اس کی تلافی کی جاسکتی ہے۔ زیر نظر کتاب جو 1630 صفحات پر لمبائی کے رُخ (Land Scap) پر تین جلدوں میں آرٹ پیپر پر دو رنگہ شائع کی گئی ہے، لیکن لمبوتری، دو رنگہ اور آرٹ پیپر پر شائع کرنے کی وجہ سے نہ صرف کتاب کی ہیئت متاثر ہوئی، بلکہ بہت زیادہ مہنگی ہونے کی وجہ سے طلبا و محققین کی پہنچ سے بھی دور ہوگئی ہے۔ کتاب کے آغاز میں اشاعتی ضابطہ اور سن وغیرہ بھی نہیں لکھا گیا۔ بہرحال یہ ایک بہت بڑی علمی کاوش ہے، جس کے لئے پراجیکٹ کمیٹی اور دی یونیورسٹی آف لاہور کے ذمہ داران مبارک باد کے مستحق ہیں۔

امارات میں سال کا سرد ترین دن، درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گر گیا

QOSHE -     ”جامعات میں اسلامی تحقیقی مقالہ جات“  - رانا شفیق پسروری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

    ”جامعات میں اسلامی تحقیقی مقالہ جات“ 

13 0
13.01.2024

تحقیق زندگی کے ہر شعبے کے لئے ضروری ہے لیکن تعلیم کے میدان میں تحقیق ہی بنیادی اکائی ہے اور تعلیم ہر شعبہ ہائے زندگی کے لئے لازمی جزو ہے۔ تعلیم و تحقیق کے میدان میں دیکھا جائے تو خاص طور پر یونیورسٹیاں علم و تحقیق کا بنیادی اور اہم ترین مراکز ہوتی ہیں جہاں تعلیم کے مختلف میدانوں میں ابتدائی مراحل سے تخصیص تک دادِ تحقیق دی جاتی ہے۔

جامعات سے فارغ التحصیل طالب علم ہی زندگی کے ہر شعبے میں اپنی مہارت کے جوہر دکھاتے نظر آتے ہیں۔ دنیا کی دیگر یونیورسٹیوں کی طرح پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کے اردو، اسلامیات، تاریخ، عربی، سائنس، ریاضی، مقامی و غیر مقامی زبانوں کے علاوہ دیگر شعبہ جات میں ایم اے، ایم فل، پی ایچ ڈی اور دیگر سندی مقالات تحریر کروائے جاتے ہیں۔

ہانیہ عامر کا شاہ رخ خان سٹائل میں ڈانس

مختلف النوع موضوعات پر مقالات لکھوانے کی وجہ سے طلبا و طالبات کی تحقیقی صلاحیتیں ابھرتی ہیں اور اُن کو تحقیق کے میدان میں آگے بڑھنے کے مواقع ملتے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنے کے لئے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ اس موضوع پر اس سے قبل کیا تحقیق ہوچکی ہے اور کتنے مقالات و کتب تحریر ہوچکے ہیں۔ تحقیق کا یہ مرحلہ نہایت مشکل ہوتا ہے۔

پہلے سے تحریر کردہ علمی مقالے، کتب، مقالات اور دیگر تحریروں تک رسائی اور ان کے بارے میں معلومات سے آگاہی حاصل کرنے کا درست ذریعہ تو ان مقالات کا حصول ہے، لیکن چونکہ مشکل امر ہے اس لیے اس کمی کا ازالہ کرنے لیے ”کتابیات“ کے نام سے ایک موضوع پر دستیاب مواد و کتب کے بارے میں معلومات بہم پہنچانے کا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play