انتخابات ہونے یا نہ ہونے اور تمام سیاسی جماعتوں کو ان انتخابات میں لیول پلینگ فیلڈ ملنے یا نہ ملنے کا معمہ ابھی پوری طرح حل نہیں ہوا تھا کہ ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے، سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان نے اپنے عہدے سے اچانک استعفا دے دیا، بتایا جا رہا ہے کہ انہوں نے استعفا کسی کے دباؤ پر نہیں دیا بلکہ صحت کی خرابی ان کے استعفے کی وجہ بنی۔ ایسے وقت پر ان کا مستعفی ہونا جب ملک میں عام انتخابات کے انعقاد میں محض ایک ماہ باقی رہ گیا تھا سب کے لیے حیرت و استعجاب کا باعث ہے، عمر حمید کی دو سالہ مدت ملازمت گزشتہ برس جولائی میں ختم ہوئی تھی لیکن چیف الیکشن کمشنر نے ان کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع کر دی تھی، اگرچہ حکومت کی جانب سے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں تھا اور یہ کہ انہوں نے اپنی بیماری کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفا دیا ہے، پھر بھی بہت سے سوالات ہیں ابہام دور کرنے کے لیے جن کے جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے، پہلی بات یہ ہے کہ ایک اہم موقع پر الیکشن کمیشن کے ایک اہم عہدے دار کا مستفی ہو جانا معمولی بات نہیں ہے،

ایم کیو ایم نے کراچی سے انتخابات میں حصہ لینے والےامیدواروں کے نام فائنل کرلیے

اگر وہ بیمار تھے تو چیف الیکشن کمشنر نے ان کو ایکسٹینشن کیوں دی؟سب سے اہم یہ کہ اگر وہ بیماری کی وجہ سے مستعفی ہوئے تو اس حوالے سے پیش کی گئی وضاحت کے ساتھ یہ لاحقہ لگانے کی کیا ضرورت تھی کہ وہ کسی دباؤ کی وجہ سے مستعفی نہیں ہوئے؟ بہت سے دوسرے بھی معاملات ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ضلع دیر کی حلقہ بندیوں سے متعلق عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے پر سیکرٹری الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی تھی، پھر پی ٹی آئی نے 27 دسمبر کو سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کرتے ہوئے اس پر فوری سماعت کی استدعا کی تھی جس میں چاروں چیف سیکرٹریز، آئی جیز، سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا تھا، درخواست میں کہا گیا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کے حکم کے باوجود پی ٹی آئی کی شکایات کا ازالہ نہیں کیا، درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ہراساں اور گرفتار کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کہیں جواب دہی سیے بچنا ہی تو سیکرٹری الیکشن کمیشن کے استعفا کا باعث نہیں بنا؟ پھر پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید علی شاہ نے اس معاملے میں کہا کہ دال میں کچھ کالا ہے،اگر ان کی بات درست ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے تو سوال یہ ہے کہ دال میں وہ کالا ہے کیا؟

مسلم لیگ ن نے فرح گوگی کے سسر چوہدری محمد اقبال کو پارٹی ٹکٹ جاری کردیا

سیکرٹری الیکشن کمیشن کے مستفی ہونے سے تشویش اس لیے پیدا ہوئی کہ الیکشن کے معاملات پہلے ہی غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں، الیکشن کمیشن اور حکومت کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں گے، عدالت کی جانب سے بھی یہ کہا گیا کہ الیکشن پتھر پر لکیر ہیں، اس کے باوجود کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی شوشا ایسا چھوڑ دیا جاتا ہے جن کی وجہ سے یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ معاملات مکمل طور پر ٹھیک نہیں اور کچھ قوتیں ایسی ہیں جو ملک میں عام انتخابات کرانے اور اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد کرنے کے خلاف ہیں ورنہ سینٹ میں وہ قرارداد لانے کی کیا ضرورت تھی جس کا مقصد الیکشن ملتوی کرانا تھا۔آزاد سینیٹر دلاور خان کی جانب سے پیش کردہ اس قرارداد میں کہا گیا ہے ملک میں سکیورٹی کے حالات خاص طور پر چھوٹے صوبوں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں انتخابی مہم چلانے کے لیے موزوں نہیں ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ فروری میں ان صوبوں کے زیادہ تر علاقوں میں موسم انتہائی سرد ہو گا اس لیے وہاں زیادہ لوگ ووٹنگ میں حصہ نہیں لے پائیں گے۔ قرارداد کا ایوان میں پیش ہونا اتنی اچنبھے کی بات نہیں تھی جتنی اچنبھے کی بات یہ تھی کہ فوری طور پر یہ قرارداد منظور بھی کر لی گئی،اس جلدی، برق رفتاری اور اس سرعت کے پس منظر میں کون سی قوت کارفرما ہو سکتی ہے؟

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

یہ طے کرنا ارباب سیاست اور ارکان سینٹ کی ذمہ داری ہے کہ 100 ارکان پر مشتمل اس ایوان میں محض 14 ارکان کی جانب سے منظور کردہ قرارداد کی کیا حیثیت ہے اور یہ ملک میں سیاسی ارتقا اور جمہوری بقا کے لیے کتنا فائدہ مند یا نقصان دہ ہو سکتی ہے، سوال یہ بھی ہے کہ ملک میں جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ریل کرنے کی خواہش مند قوتیں اتنی دیدہ دلیر ہو چکی ہیں کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر دئیے جانے اور الیکشن کی تیاریاں شروع ہو جانے کے باوجود وہ کھلم کھلا انتخابات کے انعقاد کی مخالفت کر رہی ہیں اور اس کے لیے بے بنیاد اور لا یعنی جواز تراشے جا رہے ہیں۔ اگر انتخابات کے کسی ممکنہ التوا کے لیے سکیورٹی کو بنیاد بنایا جائے تو سکیورٹی کے معاملات تو ہمارے ملک میں پچھلے 20 سالوں سے مخدوش ہیں اور پتا نہیں کب اس پر پوری طرح قابو پایا جا سکے گا، تو کیا انتخابات کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا جا سکتا ہے؟ دوسرے یہ کہ جب انتخابات کے لیے آٹھ فروری کی تاریخ طے کی جا رہی تھی تو اس وقت یہ سینٹر حضرات کہاں تھے؟ اس وقت کیوں نہیں کہا گیا کہ آٹھ فروری کو ملک کے مختلف علاقوں میں بہت زیادہ ٹھنڈ ہو گی اور لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے باہر نہیں آ سکیں گے؟ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انتخابات تو جنگوں کے دوران بھی ہوتے رہتے ہیں اور ہو سکتے ہیں اس لیے کہ اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد کرنا ہوتا ہے تاکہ اگر جنگ ہو رہی ہے تو وہ جنگ کے معاملات کو سنبھال سکیں اور اگر معیشت خراب ہے تو وہ معیشت کو درست کرنے کے لیے اقدامات کر سکیں۔ ہمارا ملک تو کئی ماہ بلکہ کئی سالوں سے غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے، اس کو اس غیر یقینی صورت حال سے نکالنے کا واحد حل اور واحد طریقہ انتخابات کا انعقاد ہے۔ ایسے میں الیکشن کی مخالفت کو ملک کو کمزور کرنے کی سازش ہی قرار دیا جا سکتا ہے، چلیں باقی جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو ہو ہی رہا ہے لیکن الیکشن کمیشن میں کیا چل رہا ہے؟ شفاف، غیر جانب دارانہ اور آزادانہ الیکشن کرانا ہی اس ادارے کی سب سے بڑی اور سب سے اہم ذمہ داری ہے، کیا یہ ذمہ داری بہ طریق احسن پوری ہو رہی ہے؟ کہیں سے کوئی باوثوق وضاحت آئی کہ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے اس موقع پر اچانک کیوں استعفا پیش کر دیا؟ ملک میں انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے ایسا کیوں کر دیا گیا؟ لیول پلیئنگ فیلڈ اور دوسرے کچھ معاملات پر الیکشن کمیشن کی طرف ایک عرصے سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں، کیا ایسے اقدامات کا مطلب اور مقصد خود کو چہار جانب سے ہونے والی تنقید سے بچانا تو نہیں ہے؟

بلاول بھٹو زرداری کی لاہور میں تاجر رہنماؤں، صنعت کاروں اور کاروباری طبقے کے نمائندوں سے ملاقات

QOSHE -         غیر یقینی صورتحال کب تک؟ - محسن گواریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        غیر یقینی صورتحال کب تک؟

15 0
11.01.2024

انتخابات ہونے یا نہ ہونے اور تمام سیاسی جماعتوں کو ان انتخابات میں لیول پلینگ فیلڈ ملنے یا نہ ملنے کا معمہ ابھی پوری طرح حل نہیں ہوا تھا کہ ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے، سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان نے اپنے عہدے سے اچانک استعفا دے دیا، بتایا جا رہا ہے کہ انہوں نے استعفا کسی کے دباؤ پر نہیں دیا بلکہ صحت کی خرابی ان کے استعفے کی وجہ بنی۔ ایسے وقت پر ان کا مستعفی ہونا جب ملک میں عام انتخابات کے انعقاد میں محض ایک ماہ باقی رہ گیا تھا سب کے لیے حیرت و استعجاب کا باعث ہے، عمر حمید کی دو سالہ مدت ملازمت گزشتہ برس جولائی میں ختم ہوئی تھی لیکن چیف الیکشن کمشنر نے ان کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع کر دی تھی، اگرچہ حکومت کی جانب سے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں تھا اور یہ کہ انہوں نے اپنی بیماری کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفا دیا ہے، پھر بھی بہت سے سوالات ہیں ابہام دور کرنے کے لیے جن کے جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے، پہلی بات یہ ہے کہ ایک اہم موقع پر الیکشن کمیشن کے ایک اہم عہدے دار کا مستفی ہو جانا معمولی بات نہیں ہے،

ایم کیو ایم نے کراچی سے انتخابات میں حصہ لینے والےامیدواروں کے نام فائنل کرلیے

اگر وہ بیمار تھے تو چیف الیکشن کمشنر نے ان کو ایکسٹینشن کیوں دی؟سب سے اہم یہ کہ اگر وہ بیماری کی وجہ سے مستعفی ہوئے تو اس حوالے سے پیش کی گئی وضاحت کے ساتھ یہ لاحقہ لگانے کی کیا ضرورت تھی کہ وہ کسی دباؤ کی وجہ سے مستعفی نہیں ہوئے؟ بہت سے دوسرے بھی معاملات ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ضلع دیر کی حلقہ بندیوں سے متعلق........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play