پھونکوں سے یہ چراغ جلائے نہ جائیں گے۔۔
بادشاہ کے محل کے چاروں طرف دریا تھا۔یوں لگتا تھا کہ سمندر دریا سے آن ملا ہے۔البتہ شہر کے لوگوں کو تمام اطراف ریت ہی ریت دکھائی دیتی تھی۔بادشاہ اپنے محل سے خوش نما نظارے دیکھتا اور شہر کے باسی خاک اڑنے پر تشویش کا اظہار کرتے۔بادشاہ کو شہر کی خوش حالی کے اتنے قصے سنائے گئے تھے کہ وہ اپنے آپ کو دیوتا سمجھنے لگا۔اسے ہر طرف اپنی مسکراتی تصاویر میں عوام کی جھلک دکھائی دیتی۔کھانے کی میز پر بیٹھتا تو اسے پورا ہال کمرہ لوگوں سے بھرا نظر آتا جن کے سامنے کھانے کی رنگا رنگ ڈشیں موجود ہوتیں اور وہ اپنے آپ میں مست نظر آتے۔ سردی میں بادشاہ ہیٹر جلاتا تو اس کا تصور میں اسے ہر طرف ہیٹر اور نرم گرم بستر میں چمکتے چہرے دکھائی دیتے جو ڈرائی فروٹ سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے۔ بادشاہ کے وزراء اور مشیران کی محنت کا عکس بادشاہ کے دماغ پر قابض تھا اور زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی۔بادشاہzappirano جادوگر کی لاجواب صلاحیتوں سے اتنا متاثر تھا کہ وہ خود کو اسی روپ میں دیکھنے لگا۔اسے لگا کہ اسے پوری دنیا میں پوجا جاتا ہے، مصر سے افریقہ، آسٹریلیا سے انگلینڈ، یورپ سے ایشیا تک اور بہت سے ممالک جیسا کہ zappirano جادوگر کی شہرت تھی۔اسے یہ بھی یقین تھا کہ وہ ہر........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website