شاعر، نثرنگار، کالم نویس، سفرنامہ نگار، مصور، خطاط اور ڈیزائنر اسلم کمال کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اسلم کمال 23جنوری 1939ء میں ضلع سیالکوٹ موضع کورپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام میاں محمد شفیع تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اقبال میموریل ہائی سکول گوٹھ پور مراد پور سے حاصل کی جس کی خاص بات یہ تھی کہ یہ وہ پہلا سکول تھا جو علامہ اقبال کی یاد میں قائم ہوا۔ انہوں نے ایف اے گورنمنٹ کالج کوہاٹ سے کیا اور پھر بی اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔

اسلم کمال کی ملک و قوم کے لیے خدمات کا اعتراف بہت ضروری سمجھتی ہوں۔ اسلم کمال جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اسلم یعنی پناہ اور کمال تکمیل، ان کی جائے پناہ ماں تھی اور اُن کی تکمیل ماں کی آغوش سے شروع ہوئی اور جب تک وہ حیات رہیں پوری محبت اور ذمہ داری سے اس پودے کو پروان چڑھاتی رہیں۔ اسلم کمال ہمیشہ گفتگو کے دوران اپنی ماں کا تذکرہ ضرور کرتے اور کہتے کہ میری روح آج بھی اپنی ماں کی آغوش کو ڈھونڈتی ہے۔ ان کی والدہ نہایت شفیق تھیں، ماں کو یاد کرتے ہوئے اُن کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور وہ چند لمحوں کے لیے کہیں کھو کر خاموش ہوجاتے تھے۔

تحریک انصاف کی اہم خاتون رہنما کے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے گئے

انہوں نے بچپن ہی سے اپنی والدہ کے تمام رنگ اور زاویے نئے اسلوب کے ساتھ اپنے تخیل میں کہیں سمیٹ لیے تھے۔ وہ اپنی تخلیقی رعنائیوں کو کام میں لاتے ہوئے تخیلات کی نئی دنیا کو دیکھ رہے تھے۔ اسلم کمال نے تخیلات کے سمندر کی انتہا کو چھو لیا تھا۔ وہ کم عمری میں ہی اپنے آپ میں مسکراتے اپنے اردگرد کے مزاج کو سمجھنے لگے تھے یہی اُن کی پہلی سیڑھی تھی۔ تخلیقی زمین پالینا ہی اصل میں آپ کی قسمت کو جگانے کے لیے کافی ہوتا ہے، اسلم کمال سے میری شناسائی کئی برسوں پر محیط ہے۔ میرے لیے یہ ماننا مشکل ہے کہ اُن کی تخلیقات میں زیادہ چمک ہے یا اُن کی چمکتی دمکتی شخصیت میں۔ میں اُن کی بہت سی تخلیقی کیفیات سے واقف ہوں جو اُن کی شخصیت اور اُن کے فن کا حوالہ ہیں۔

تنخواہ دار طبقے نے ایکسپورٹرز سے 243فیصد زیادہ ٹیکس جمع کرادیا

اسلم کمال اُس وقت کمال کرتے جب وہ ساری دنیا سے بیگانہ ہوکر بھی عالم استغراق میں اپنے اسٹوڈیو میں پناہ لیتے اور تکمیل و تخلیق کی آخری منزل کو پالیتے اور یہی اُن کی کامیابیوں کا راز تھا۔ اُن کا دل نرم اور گداز تھا اُن کی آنکھوں کا پانی اُن کی تمام تر تخلیقات کا آئینہ دار تھا۔ وہ ایک نرم طبع، دھیمے مزاج کے انسان تھے۔ ان کی سوچ میں ایمان داری تھی، رواداری کا اثاثہ اُن کی روح میں سمایا ہوا تھا۔ وہ خط ِ کمال کے موجد تھے مگر اُس کے ساتھ ساتھ وہ شاعر تھے، ادیب تھے اور اُن کا تخلیقی کام ”اقبالیاتی مصوری“ سے روشناس کرواتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے اس کے علاوہ اُن کی بیشتر تخلیقات اب بلاشبہ نوادرات کا درجہ پا چکی ہیں۔ اسلم کمال ایک مکتب فکر اور معیارِ فن کا نام ہے۔

جنوبی افریقہ کے سٹار وکٹ کیپر بلے باز ہینرک کلاسن ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر

اسلم کمال کو تخلیقی مصورانہ خطاطی میں بلند مقام حاصل ہے۔ انہوں نے بصیرتِ رنگ کے ساتھ نادر کمپوزیشن سے بے حد کمالات دکھائے۔ ان کے تخلیق کیے فن پاروں میں مقدس الفاظ میں موجزن پیغام متاثر کرتا ہے۔

اسلم کمال نے چین کا دورہ کیا تو ”لاہور سے چین تک“ سفرنامہ تحریر کیا۔ وہ ناروے گئے تو ”اسلم کمال اوسلو میں“ انہوں نے نارویجن تہذیب و ثقافت اور ادب و فن کے گنج ہائے گرانمایہ کو اپنے دامن میں سمیٹا اور تحریر کردیا۔ اس سفرنامہ کو پڑھتے ہوئے تازگی اور مہک کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ انہوں نے بڑے فنکاروں، مجسمہ سازوں، مصوروں اور ادیبوں کو قریب سے متعارف بھی کروایا۔ وہ ایسے تخلیق کار تھے جو اپنی ذمہ داریاں خوب پہچانتے تھے۔

عامر خان کے داماد نے پیدل بارات لانے کی وجہ بتا دی

اسلم کمال نے اس تخلیقی سفر میں خطاطی میں سادگی اور پرکاری پر مبنی ایک جداگانہ طرز کو رواج دیا۔ وہ اپنے مضامین، موضوع اسلوب کو پوری طرح سمجھتے تھے۔ وہ اپنے ادراک کی رنگ آرائی سے لذتِ گوش ہی نہیں ہوش و خرد بھی چھین لیتے تھے۔ اُن کی زندگی جستجو اور آرزو کا سفر ہے جو ازل سے تخلیقی انسان کا مقدر ہے۔ انہوں نے گنبد، مینار، محراب، طاق کے جمالیاتی استفادہ سے اپنی ایک ایسی تصویری فرہنگ ایجاد کرلی جس کی صوری ثروت نے اسلامی خطاطی کو جدید مصوری کا ہم پلہ بنا دیا۔ اسلم کمال نے اپنی ساری عمر مصورانہ خطاطی کے لیے وقف کررکھی تھی۔

گلوکار شیراز اپل نے مدینہ منورہ میں پیش آنے والا دلچسپ واقعہ سنا دیا

حنیف رامے سابق چیئرمین لاہور میوزیم اسلم کمال کے نظریے کی تائید کرتے رہے کہ کتابوں اور رسالوں کا گردپوش (Dust Cover) فن مصوری کا ابتدائی ذوق اور اوّلین شعور دیتا ہے۔ کتابوں اور رسالوں کے 20000سے زائد گردپوش تخلیق کرنے پر اُن کا نام اُردوسائنس بورڈ وزارت قومی ورثہ یک جہتی حکومت پاکستان نے گنیز آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کرنے کی سفارش بھی کر رکھی تھی جو پاکستان کے لیے قابلِ فخر مقام ہے۔

میں اپنی خوش قسمتی سمجھتی ہوں کہ اُنہوں نے میری اُردوشاعری کی کتاب ”رستے میں دیوار تو ہے“ کے لیے بہترین کمالات اور رنگوں سے خوبصورت Dust Cover تخلیق کیا جو میری کتاب کی زینت بنا اور جس کی وجہ سے میری کتاب کے رنگ روپ میں مزید نکھار آگیا اور یہ گردپوش انہوں نے مجھے بطورِ تحفہ عنایت کیا۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟

اسلم کمال نے آرٹس اور کلچر پر 9کتب تحریر کیں۔ ان کی کتاب ”گردپوش“ اس موضوع پر پاکستان میں پہلی کتاب ہے۔ اسلم کمال صاحب کے اشعار اقبال پر فن پاروں کو بے انتہا مقبولیت حاصل رہی جو کسی اور مصور کے حصے میں نہیں آئی۔ انہوں نے تہذیب و ثقافت پر بھی 8کتب تحریر کیں جن میں (1)اسلامی خطاطی، (2)قلم موقلم، (3)اسلم کمال اوسلو میں، (4)گمشدہ، (5)لاہور سے چین تک، (6)گردپوش، (7)ادیبوں اور شاعروں کے کیری کیچر، (8)کسبِ کمال۔

انہیں بہت سی یونیورسٹیز سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ مل چکے ہیں۔ ایوانِ اقبال میں مستقل آرٹ گیلری کا قیام بھی ان کے کریڈٹ پر ہے۔ یونیورسٹی کالج آف فارمیسی پنجاب یونیورسٹی لاہور کلامِ اقبال کے سلسلے میں خدمات کے اعتراف میں ایک مستقل گیلری اقبال آرٹ گیلری کے نام سے قائم کی گئی۔ اسلم کمال کو حکومت پاکستان کی طرف سے اُن کی خدمات پر پرائیڈآف پرفارمنس دیا گیا اور پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے پرائیڈ آف پنجاب بھی دیا گیا۔

اسلم کمال کی تجزیاتی، فکری یا روحانی مصوری ہو، کلامِ غالب، کلامِ اقبال یا کلامِ فیض اور صوفی تبسم کی تشریحی مصوری ہو وہ خود بول کر اسلم کمال کے نقش ایک حرف اور ایک رنگ کی پہچان ہے۔ اُن کی انفرادیت، جامعیت، شناخت اور سالمیت ہی اُن کا اصل آرٹ ہے۔ اسلم کمال کا کام تھا روشنی پھیلانا سو وہ بکھیر گئے ہیں۔ علاوہ ازیں چراغ یعنی روشنی کا مخزن زمانی و مکانی قید سے آزاد ہے۔ اس کا کام روشنی بکھیرنا ہے سو وہ بکھیرتا ہے۔ 2جنوری 2024ء کو اسلم کمال وفات پاگئے۔ اہل نظر اُداس ہیں مگر موت کے ہاتھوں کس کو رستگاری ہے۔ شاعر ہو یا مصور اُن کا تخیل ایک ہی ہوتا ہے، صوفی تبسم نے یہ نظم (بند ہوجائے مری آنکھ اگر) وفات سے کچھ عرصہ پہلے لکھی تھی اسی نظم پر اپنا مضمون ختم کرتی ہوں۔

بند ہوجائے مری آنکھ اگر

اس دریچے کو کھلا رہنے دو

یہ دریچہ ہے اُفق آئینہ

اس میں رقصاں ہیں جہاں کے منظر

اس دریچے سے اُبھرتی دیکھی

چاند کی شام

ستاروں کی سحر

اس دریچے کو کھلا رہنے دو

اس دریچے سے کیے ہیں میں نے

کئی بے چشم نظارے

کئی بے راہ سفر

اس دریچے کو کھلا رہنے دو

QOSHE -          باکمال مصور اسلم کمال  - ڈاکٹر فوزیہ تبسم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         باکمال مصور اسلم کمال 

23 0
09.01.2024

شاعر، نثرنگار، کالم نویس، سفرنامہ نگار، مصور، خطاط اور ڈیزائنر اسلم کمال کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اسلم کمال 23جنوری 1939ء میں ضلع سیالکوٹ موضع کورپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام میاں محمد شفیع تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اقبال میموریل ہائی سکول گوٹھ پور مراد پور سے حاصل کی جس کی خاص بات یہ تھی کہ یہ وہ پہلا سکول تھا جو علامہ اقبال کی یاد میں قائم ہوا۔ انہوں نے ایف اے گورنمنٹ کالج کوہاٹ سے کیا اور پھر بی اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔

اسلم کمال کی ملک و قوم کے لیے خدمات کا اعتراف بہت ضروری سمجھتی ہوں۔ اسلم کمال جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اسلم یعنی پناہ اور کمال تکمیل، ان کی جائے پناہ ماں تھی اور اُن کی تکمیل ماں کی آغوش سے شروع ہوئی اور جب تک وہ حیات رہیں پوری محبت اور ذمہ داری سے اس پودے کو پروان چڑھاتی رہیں۔ اسلم کمال ہمیشہ گفتگو کے دوران اپنی ماں کا تذکرہ ضرور کرتے اور کہتے کہ میری روح آج بھی اپنی ماں کی آغوش کو ڈھونڈتی ہے۔ ان کی والدہ نہایت شفیق تھیں، ماں کو یاد کرتے ہوئے اُن کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور وہ چند لمحوں کے لیے کہیں کھو کر خاموش ہوجاتے تھے۔

تحریک انصاف کی اہم خاتون رہنما کے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے گئے

انہوں نے بچپن ہی سے اپنی والدہ کے تمام رنگ اور زاویے نئے اسلوب کے ساتھ اپنے تخیل میں کہیں سمیٹ لیے تھے۔ وہ اپنی تخلیقی رعنائیوں کو کام میں لاتے ہوئے تخیلات کی نئی دنیا کو دیکھ رہے تھے۔ اسلم کمال نے تخیلات کے سمندر کی انتہا کو چھو لیا تھا۔ وہ کم عمری میں ہی اپنے آپ میں مسکراتے اپنے اردگرد کے مزاج کو سمجھنے لگے تھے یہی اُن کی پہلی سیڑھی تھی۔ تخلیقی زمین پالینا ہی اصل میں آپ کی قسمت کو جگانے کے لیے کافی ہوتا ہے، اسلم کمال سے میری شناسائی کئی برسوں پر محیط ہے۔ میرے لیے یہ ماننا مشکل ہے کہ اُن کی تخلیقات میں زیادہ چمک ہے یا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play