الطاف حسن قریشی نہ صرف قد آور صحافی،دانش ور اور ادیب بھی ہیں۔ان کی رگوں میں ایک عظیم پاکستانی اور بہترین مسلمان کاخون دوڑتا ہے۔وہ تلوار لے کر میدان جنگ میں نہیں اترتے بلکہ قلم سے ہی تلوار کا کام لے کر بڑوں بڑوں کی طبیعت صاف کردیتے ہیں۔وہ عالمی سطح پر پہچان رکھنے والے جریدے"اردو ڈائجسٹ"کے روح رواں ہیں اور علم و دانش کا محور بھی۔ اردو ڈائجسٹ نے ایک نہیں، کئی نسلوں آبیاری کی ہے۔ اسے پڑھ کر جوان ہونے والے لوگ پاکستان کے تقریبا سبھی شعبوں کی ترقی و خوشحالی میں موثر کردار ادا کررہے ہیں۔ صحافیوں کی جس کھیپ نے الطاف حسن قریشی کی سرپرستی میں اپنا صحافتی سفر شروع کیاتھا، ان کا شمار آج قد آور صحافیوں میں ہوتا ہے۔اس وقت میرے پیش نظر کتا ب "الطاِف صحافت" ہے۔اس کتا ب کو مرتب کرنے کا فریضہ ڈاکٹر طاہر مسعود نے انجام دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ الطاف حسن قریشی میرے بچپن کے دوست ہیں۔بچپن تو کب کا گزر چکا لیکن جب اردو ڈائجسٹ میں الطاف حسن قریشی کے اداریے،تجزیئے اور انٹرویو پڑھتا ہو ں تومیرا کھویاہوا بچپن واپس لوٹ آتا ہے۔یہ کتاب بھی اپنے بچپن کی انہی یادوں کو آواز دینے کی ایک کوشش ہے۔ الطاف حسن قریشی کی پیدائش 3 مارچ 1932 ء کوہندوستان کے ضلع کرنال کے ایک گاؤں "ہابڑی" میں ہوئی۔1931ء میں یہ خاندان سرسہ میں جابسا۔ الطاف صاحب کے بچپن کا بیشتر حصہ سرسہ میں ہی گزرا۔1947ء میں الطاف صاحب میٹرک کے امتحان میں اول آئے۔ الطاف حسن قریشی لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد نومبر1947 ء کو ہمارا خاندان پہلے ہارون آباد اور بعد ازاں لاہور میں آ بسا۔ بڑے بھائی گل حسن محکمہ انہار میں سینئر کلرک کی حیثیت سے ملازم تھے،میں نے ان سے ٹیلی گرافی سیکھی اور ساڑھے سولہ سال کی عمر میں محکمہ انہار کے اپرچناب سرکل میں بطورسیگنیلربھرتی ہو گیااورمیری تعیناتی مرالہ ہیڈ ورکس پر کردی گئی،جہاں میں 1950ء تک رہا۔ وہاں رہتے ہوئے میں نے ادیب فاضل کا امتحان پاس کرلیا۔

تھائی لینڈ کا غیرملکی سیاحوں کیلئے ویزہ فری انٹری کا اعلان

1952ء کے اوائل میں میرا تبادلہ محکمہ انہار سیکرٹریٹ لاہور میں ہو گیا۔جہاں میں نے پولیٹکل سائنس اور عربی کے اختیاری مضامین کے ساتھ گرایجویشن مکمل کر لی۔بعد ازاں میں ایم اے پولیٹکل سائنس میں اول آیا۔اس کے بعد مجھے علامہ علاؤ الدین صدیقی کی راہنمائی میں علوم اسلامیہ میں بھی ایم اے کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔محکمہ انہا ر میں سیگنیلرایسوسی ایشن کا دس سال سیکرٹری جنرل بھی رہا۔ دوران ملازمت میں نے سندھ طاس معاہدہ اور واپڈا کو وجود میں آتے دیکھا،ان معلومات کی بنا پر ایم اے پولیٹیکل سائنس میں، میں نے اپنا مقالہ اریگیشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لکھا۔بارہ سال بعد محکمہ انہار کی ملازمت سے مستعفی ہوکر بڑے بھائی ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کی سربراہی میں -5مین سمن آباد لاہور میں مسلم کالج کی بنیاد رکھی۔جہاں سے قدرت ہمیں کوچہ صحافت میں لے آئی۔اس مقدس پیشے میں کا م کرتے ہوئے ہمیں اب 64سال ہو چکے ہیں۔ ظفراللہ خاں ملک اردو ڈائجسٹ کا منصوبہ لے کر آئے۔اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں کئی ماہ گزر گئے۔ بالاخر نومبر 1960ء کی صبح اردو ڈائجسٹ کا پہلاشمارہ صحافتی افق پر طلوع ہوا۔ابتدائی چند برسوں ہی میں اس کی اشاعت پچیس تیس ہزار تک پہنچ گئی جو بعد ازاں سوا لاکھ سے بھی تجاوز کرگئی۔اس ڈائجسٹ نے عوام بالخصوص نوجوانوں میں پڑھنے کا شوق اور ذوق پیدا کیا۔

لاہور میں مفت کھانا نہ دینے پر پولیس اہلکاروں کا ہوٹل ملازم پر تشدد

شائستگی،متانت اور سیاسی تہذیب کو فروغ دیا۔1969ء میں مجیب الرحمان شامی کی ادارت میں ہفت روزہ "زندگی" کا اضافہ ہوااور 1970ء میں روزنامہ "جسارت" پہلے ملتان پھر کراچی سے میری ادارت میں منصہ شہود پر آیا۔"الطاف صحافت " میں مجیب الرحمان شامی صاحب لکھتے ہیں۔بے شک الطاف حسن قریشی حرفوں کے بنے ہوئے نہیں ہیں لیکن ایک ایک حرف کے پس منظر اور پیش منظر سے واقف ہیں۔الطاف صاحب کو ڈائجسٹ کہانی بھی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن صرف کہانی کہنے سے ان کی وسعتوں کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ کہاجائے تو مضائقہ نہیں کہ وہ خود ڈائجسٹ ہیں ۔الطاف صاحب کو اردو ڈائجسٹ قریشی بھی کہا جا سکتاہے اور اردو ڈائجسٹ کا نام "الطاف ڈائجسٹ " بھی رکھا جا سکتا ہے۔وہ سب کچھ الطاف صاحب میں موجود ہے جو اردو ڈائجسٹ میں ہے۔رنگا رنگ،سرورق، مضبوط جلد،المیہ،طربیہ،چونکا دینے والے واقعات، گنگ کردینے والے معاملات،معانی کا شکوہ،افسانے سے دل چسپ حقائق،حال کا انبوہ، مستقبل کے خواب۔ وہ اگر سیاست دان ہوتے تو ذوالفقار علی بھٹو کی بے تابیوں کو سید موددی کا سوز مل جاتا۔ اگر ناول نگار ہوتے تو نسیم حجازی اور قرۃ العین حیدر کو یک جان کرنا پڑتا۔شاعر ہوتے تو اقبال ؒ کی آرزوئیں داغ کے لہجے میں ڈھل جاتیں۔ اردوڈائجسٹ کی ایجاد سے انہوں نے ادب کو عام آدمی تک پہنچایا، حقائق کہانی کے انداز میں سنائے اور گھر گھر میں اپنا سکہ جمایا۔الطاف صاحب نے یہ بات منوا لی کہ عوام کی زبان میں دل کی بات کی جائے تواس کا راستہ روکا نہیں جا سکتا۔الطاف صاحب کے ہاں جنس تھی،نہ بداخلاقی،جذبات کا کاروبار تھا،نہ الفاظ کا بیوپار۔وہ دل میں اس طرح جا اترتے اور جگہ بنالیتے کہ آہٹ تک نہ ہو پاتی۔کانوں کان خبرنہیں ہوتی اور دل ان کی مٹھی میں آجاتا۔وہ بھٹو دور میں معتوب ٹھہرے اور زندان ان کا مستقل گھر بن گیا۔بھٹو کا عہد رسوائی ختم ہوا تو ان کی اسیری ختم ہوئی۔پھر جنرل ضیاء الحق کے دوستوں میں شمار ہونے لگے۔اس میں کیا شک ہے کہ الطاف صاحب ایک مکتبہ فکر کے، ایک سکول آف تھاٹ کے امام ہیں۔جنرل ضیاء الحق کے دور کے آخری دنوں میں انہیں "ستارہ امتیاز "دیا گیا۔بے نظیر بھٹو نے یہ امتیاز واپس لے کر ضبط کرلیا۔جب بے نظیر کا اقتدار ختم ہو ا تو ستارہ امتیاز پھر الطاف صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔مجھے ان کے خلیفہ مجاز ہونے کا شرف حاصل یوں ہواکہ انہوں نے اپنی نگرانی میں مجھے ہفت روزہ "زندگی "کا باقاعدہ ایڈیٹربنا دیا۔پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ "زندگی " کاڈیکلریشن ہی مجھے مرحمت فرما دیا۔ ڈاکٹر شفیق جالندھری لکھتے ہیں کہ الطاف حسن قریشی ان چند بلند قامت شخصیات میں سے ہیں جنہیں اردو صحافت میں نئی راہیں تراشنے اور بلند معیار متعارف کرانے کا ا عزاز حاصل ہے۔ان کا نام اردو کے ایسے ممتاز صحافیوں میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے اپنی طویل صحافتی زندگی میں قومی فکراور سوچ پر اپنے گہرے نقوش مرتب کیے اور مشکل وقت میں قوم کا حوصلہ بڑھانے اور درپیش مسائل کا حل بتانے کا فریضہ انجام دیا۔الطاف صاحب کا اسلوب بے حد دل نشین اور بات کہنے کا طریقہ بے مثل ہے۔ان کے معروضی تجزیوں میں بھی ایک چاشنی ہے۔قوم و ملت کی بڑی شخصیات سے لیے گئے ان کے انٹرویو جیسا اسلوب اور موثرانداز کسی بھی انٹرویو لکھنے والے کو نصیب نہیں ہوا۔ان کی شخصیت محبت کا پیکر ہے۔ان سے ملنے والے ہمیشہ ان کی شخصیت کے جادو کا شکا رہو جاتے ہیں۔

سابقہ گلوکارہ رابی پیرزادہ نے خاموشی سے شادی کرلی

ڈاکٹر شفیق جالندھری مزیدلکھتے ہیں کہ الطاف حسن قریشی صاحب رات ایک بجے فون کر کے مجھ سے پوچھا کرتے تھے، بھئی کیا خبر یں ہیں،اب تک کیں؟ میں انہیں تمام خبروں کے متعلق بتاتا اور جو خبر میرے ہاتھ میں ہوتی، اس کے متعلق بتایا کہ اس کا بہت کم حصہ ترجمہ ہوا ہے۔ اس پر الطاف صاحب کہتے۔ بھئی پھر تو بہت دیر ہو جائے گی اور آپ یہ انگریزی کی خبر پڑھ کر مجھے سنائیں۔میں نے گز بھر لمبی خبر انہیں سنا دی۔اسے ایک بار سننے کے بعد الطاف صاحب نے فون پر اس طویل خبر کا اردو ترجمہ اسی ترتیب سے لکھوا دیا۔ان کی یہ مہارت دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔دراصل وہ فوٹو جینک میموری کے مالک عظیم انسان ہیں۔ان کے مطالعے کی رفتار بے حد تیز اور حافظہ بھی بلا کا ہے۔ایک اور دلچسپ واقعے کا ذکر محسن فارانی کچھ ان الفاظ میں کیا کرتے ہیں کہ ایک بار الطاف صاحب نے مشرقی پاکستان کے ڈپٹی سپیکر عبدالمتین کا انٹرویو ہوٹل میں بیٹھے بیٹھے کچھ اس طرح کیا کہ دو اڑھائی گھنٹے مختلف موضوعات پرگپ شپ ہوئی پھر ان سے اجازت چاہی تووہ حیران ہو کر کہنے لگے۔ انٹرویو کب لیناہے؟ الطاف صاحب نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہاوہ تو ہوگیا۔اس پر وہ حیران ہوئے کہ اچھا۔الطاف صاحب نے اپنی یاد داشت سے وہ انٹرویو قلم بند کیا جو اگلے شمارے میں شائع ہوا۔یاد رہے کہ دسمبر 2023ء میں تحریک کارکنان پاکستان کے دفتر میں ایک شیایان شان تقریب میں صدر پاکستان ڈاکٹر محمدعارف علوی نے جناب مجیب الرحمان شامی صاحب کی موجودگی میں جناب الفاف حسین قریشی کو گولڈ میڈل سے نوازا ہے۔جس پر الطاف صاحب یقینا مبارک باد کے مستحق ہیں۔

فلم 'انیمل' کے اداکارنے خودکشی کرنیوالی لڑکی کو بچالیا

QOSHE -            کتاب  "ا لطاف صحافت"  پر ایک نظر  - اسلم لودھی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

           کتاب  "ا لطاف صحافت"  پر ایک نظر 

9 0
08.01.2024

الطاف حسن قریشی نہ صرف قد آور صحافی،دانش ور اور ادیب بھی ہیں۔ان کی رگوں میں ایک عظیم پاکستانی اور بہترین مسلمان کاخون دوڑتا ہے۔وہ تلوار لے کر میدان جنگ میں نہیں اترتے بلکہ قلم سے ہی تلوار کا کام لے کر بڑوں بڑوں کی طبیعت صاف کردیتے ہیں۔وہ عالمی سطح پر پہچان رکھنے والے جریدے"اردو ڈائجسٹ"کے روح رواں ہیں اور علم و دانش کا محور بھی۔ اردو ڈائجسٹ نے ایک نہیں، کئی نسلوں آبیاری کی ہے۔ اسے پڑھ کر جوان ہونے والے لوگ پاکستان کے تقریبا سبھی شعبوں کی ترقی و خوشحالی میں موثر کردار ادا کررہے ہیں۔ صحافیوں کی جس کھیپ نے الطاف حسن قریشی کی سرپرستی میں اپنا صحافتی سفر شروع کیاتھا، ان کا شمار آج قد آور صحافیوں میں ہوتا ہے۔اس وقت میرے پیش نظر کتا ب "الطاِف صحافت" ہے۔اس کتا ب کو مرتب کرنے کا فریضہ ڈاکٹر طاہر مسعود نے انجام دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ الطاف حسن قریشی میرے بچپن کے دوست ہیں۔بچپن تو کب کا گزر چکا لیکن جب اردو ڈائجسٹ میں الطاف حسن قریشی کے اداریے،تجزیئے اور انٹرویو پڑھتا ہو ں تومیرا کھویاہوا بچپن واپس لوٹ آتا ہے۔یہ کتاب بھی اپنے بچپن کی انہی یادوں کو آواز دینے کی ایک کوشش ہے۔ الطاف حسن قریشی کی پیدائش 3 مارچ 1932 ء کوہندوستان کے ضلع کرنال کے ایک گاؤں "ہابڑی" میں ہوئی۔1931ء میں یہ خاندان سرسہ میں جابسا۔ الطاف صاحب کے بچپن کا بیشتر حصہ سرسہ میں ہی گزرا۔1947ء میں الطاف صاحب میٹرک کے امتحان میں اول آئے۔ الطاف حسن قریشی لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد نومبر1947 ء کو ہمارا خاندان پہلے ہارون آباد اور بعد ازاں لاہور میں آ بسا۔ بڑے بھائی گل حسن محکمہ انہار میں سینئر کلرک کی حیثیت سے ملازم تھے،میں نے ان سے ٹیلی گرافی سیکھی اور ساڑھے سولہ سال کی عمر میں محکمہ انہار کے اپرچناب سرکل میں بطورسیگنیلربھرتی ہو گیااورمیری تعیناتی مرالہ ہیڈ ورکس پر کردی گئی،جہاں میں 1950ء تک رہا۔ وہاں رہتے ہوئے میں نے ادیب فاضل کا امتحان پاس کرلیا۔

تھائی لینڈ کا غیرملکی سیاحوں کیلئے ویزہ فری انٹری کا اعلان

1952ء کے اوائل میں میرا تبادلہ محکمہ انہار سیکرٹریٹ لاہور میں ہو گیا۔جہاں میں نے پولیٹکل سائنس........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play