زندگی میں بہت سے لوگ ملتے ہیں جن میں چند ایک اپنے فن اور شخصیت کا ایسا گہرا تاثر چھوڑ جاتے ہیں کہ بقول شاعر ”عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے“ کا مصداق بن جاتے ہیں۔اسلم کمال صاحب کی رحلت کی خبر سے نئے سال کا آغاز ہوا۔ ان سے زندگی میں ایک ہی ملاقات پلاک کی بلڈنگ میں ہوئی جس کی یادیں اب وہاں کے در و دیوار میں محفوظ ہو گئی ہیں۔ان کے کام اور نام کا تعارف تو عرصہ دراز سے جناب حفیظ تائبؒ کی زبانی سنا جب ان کی کتاب ”صلو علیہ وآلہ“ کے ٹائٹل کو بہت آرٹسٹک انداز سے لکھا گیا تھا اور اسی کی کشش ان سے تعارف کا اولین حوالہ بنی۔فنون لطیفہ اور خطاطی سے ایک خاص لگاؤ کے پیش نظر ہمیشہ اچھا اور مختلف کام اپنی طرف کھینچتا ہے۔جب اسی انداز کے ٹائٹل کچھ اور کتابوں کے بھی دیکھے تو ان سے ملاقات کا شوق مزید بڑھتا گیا،لیکن بوجوہ یہ ممکن نہ ہو سکی۔ ایوانِ اقبال سے ان کی بے دخلی اور اس کے بعد ان کے یک شخصی احتجاجی مظاہرے کی خبریں بھی نظر سے گزرتی رہیں۔ مجھے اپنی نعت کی کتاب مرتب کرتے ہوئے اس کے ٹائٹل کا خیال آیا تو ایک نام جیسے ذہن سے چپک گیا اور یوں برادرم نعمان منظور صاحب کے ذریعے ان تک عرض مدعا پہنچایا گیا جس کے بعد انہوں نے اپنی علالت کا ذکر کیا، لیکن ساتھ کہا کہ چونکہ نعت کا معاملہ ہے اس لئے جیسے بھی ہو میں اسے ضرور کروں گا، لیکن میری صرف ایک شرط ہے کہ ان سے کہیں کہ اس کام کا نہ تو مجھے کوئی معاوضہ دیں اور نہ ہی اس کے عوض کوئی تحفہ تحائف دینے کی کوشش کریں۔یہ بات مجھ تک پہنچا دی گئی جو بہر حال میرے لئے حیران کن تھی کہ ایک فنکار جس کا ذریعہ روزگار یہی ہے، لیکن وہ ایسا کیوں کہے گا۔ اس دوران دو تین بار ان سے فون پر رابطہ ہوا جس پر انہوں نے کہا کہ آپ کا کام ہو جائے گا، لیکن اس کے لئے جو موڈ مجھے درکار ہے اس کے انتظار میں ہوں۔ جیسے ہی بن جاتا ہے آپ کو خود مطلع کر دوں گا۔ میں خاموش رہا اور پھر کم و بیش ایک ماہ کے بعد ان کی کال آئی کہ آپ آج دوپہر پلاک آ جائیں اور اپنا ٹائٹل مجھ سے لے لیں اور جو بات نعمان منظور کو کہی گئی ہے اس کی مکمل پابندی ہونی چاہئے۔میں دیئے گئے وقت پر پہنچا اور ان سے کچھ دیر گفتگو ہوئی جس کا تاثر اتنا گہرا ہے کہ اس کی مختلف جہات پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔

عامر خان کے داماد نے اپنی شادی پر شارٹس اور بنیان کیوں پہنی؟ وجہ سامنے آگئی

سب سے بڑ ا تاثر عشق رسالت مآبؐ کا تھا جن کے ذکر پر ان کی آنکھیں بھی جھکتی دیکھیں اور ان میں نمی بھی تیرتی دکھائی دی۔دوسرا تاثر ایک سچے محب وطن پاکستانی کا تھا کہ ان کے وجود میں اس مٹی سے محبت کا جو اثردوران گفتگو محسوس کیا وہ ناقابل بیا ن ہے۔انہوں نے بتایا کہ میں کم وبیش پچھلے پچاس سال سے پاکستان کا جھنڈا اپنے تن پر لگا کے نکلتا ہوں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ اس کے بغیرمیں نے گھر سے باہر قدم نکالا ہو۔تیسرا تاثر قرآن حکیم سے محبت کا تھا جس کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ میں نے قرآنی موضوعات کو پورٹریٹ کیا ہے جو ایک انفرادیت کا حامل کا م ہے۔قرآنی آیات کو بڑی سہولت اور روانی سے پڑھتے ہوئے ان کے مفاہیم پر ایک الگ انداز سے گفتگو کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ آیت کو پڑھنے اور غور کرنے سے جو نقش میرے ذہن میں بنا اسے قرطاس پر اتار دیا۔ چوتھا تاثر صوفیائے کرا م سے عشق کا تھا کہ انہوں نے پنجابی زبان کے صوفی شعرا کے اشعار کو رنگوں میں ڈھالا ہے جن میں بابا فریدؒ، سلطان باہوؒ، میاں محمد بخشؒ، وارث شاہ اور دیگر صوفی شعرا شامل ہیں۔ گفتگو کے دوران عشق اقبال بھی بنیادی حوالہ تھا جس کے حوالے سے وہ بہت جذباتی تھے کہ ان کے کلام کی عکس ریزی ان کے فن کا اوج کما ل ہے۔ کوئی عاشق اقبال ہو اور وہ رومی سے محروم رہے یہ ممکن ہی نہیں۔ رومی و اقبال کے مشترکات پر بھی ان کے فنکارانہ ذہن نے بہت سی تخلیقی عکس ریزیاں کی ہیں۔شعری جمالیات کا دلدادہ فیض کے کلام سے کیسے گزر سکتا ہے، جس پر ان کا کام بھی انفرادیت کا حامل ہے۔ شاید وہ اپنے ہاتھوں سے کتابوں کے سب سے زیادہ ٹائٹل بنانے والے پاکستانی آرٹسٹ ہیں۔

پتوکی جھونپڑی میں لیجاکر اوباش ملزم کی شادی شدہ لڑکی سے زیادتی دوسرا ملزم پہرا دیتا رہا

سرکاری اداروں کی سیٹوں پر براجمان کچھ لوگوں کے حوالے سے خفگی کا اظہار بھی اتنی بے نیازی سے کر گئے کہ یوں لگا جیسے انہیں ان کی کج فہمی کا ادراک تھا اس لئے اسے رنج یا روگ کی سطح پر لے کر نہیں گئے۔ خط ِ کمال جس کے خود ہی موجد و خاتم ہیں اس پر بھی بات ہوئی جس پر ان کا کہنا تھا کہ فنکار ہوتا ہی وہ ہے جس کے اندر کوئی اپنا راستہ نکالنے کی جستجو اور لگن ہو۔جب کوئی سچے جذبے سے اس کے لئے کوشش کرتا ہے کہ اللہ کے خزانوں میں سے اسے کچھ ضرور عطا ہوتا ہے اور یہی خط کمال کا پس منظر ہے۔ کہنے لگے کہ بہت سے بچے میرے پاس شاگر د ہونے کے لیے آتے ہیں تو میں ان کو راستہ دکھا دیتا ہوں،کسی کو اسلم کمال کو فالو کرنے کا نہیں کہتا کہ جب اللہ نے صورتیں ایک جیسی نہیں بنائیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کو صلاحیت عطا فرمائے اور وہ اپنا راستہ نہ بنا سکے۔ اس ملاقات کے اپنے ذہن پر گہرے تاثر کے ساتھ ان کو واپس گھر چھوڑنے جا رہا تھا اور اسی رات ا ن کے لئے ایک نظم کہی۔یہ نظم ان کو علالت کے سبب براہ راست پیش نہ کرسکا،مگر ان کے بیٹے کے ذریعے جب ان تک پہنچی ہو گی تو ایسے سچے اور تخلیقی فنکار کی دعائیں ضرور ملی ہوں گی۔غالباً میری نعتیہ کتاب کا بنایا گیا ٹائٹل ان کی زندگی کا آخری کام تھا۔اللہ کریم انہیں صاحب نعت کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے۔آمین

ٹیسلا کا چین میں 16لاکھ سے زیادہ گاڑیاں واپس منگوانے کا اعلان

QOSHE -          اسلم کمال۔ ایک ملاقات کا تاثر - سرور حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         اسلم کمال۔ ایک ملاقات کا تاثر

9 0
06.01.2024

زندگی میں بہت سے لوگ ملتے ہیں جن میں چند ایک اپنے فن اور شخصیت کا ایسا گہرا تاثر چھوڑ جاتے ہیں کہ بقول شاعر ”عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے“ کا مصداق بن جاتے ہیں۔اسلم کمال صاحب کی رحلت کی خبر سے نئے سال کا آغاز ہوا۔ ان سے زندگی میں ایک ہی ملاقات پلاک کی بلڈنگ میں ہوئی جس کی یادیں اب وہاں کے در و دیوار میں محفوظ ہو گئی ہیں۔ان کے کام اور نام کا تعارف تو عرصہ دراز سے جناب حفیظ تائبؒ کی زبانی سنا جب ان کی کتاب ”صلو علیہ وآلہ“ کے ٹائٹل کو بہت آرٹسٹک انداز سے لکھا گیا تھا اور اسی کی کشش ان سے تعارف کا اولین حوالہ بنی۔فنون لطیفہ اور خطاطی سے ایک خاص لگاؤ کے پیش نظر ہمیشہ اچھا اور مختلف کام اپنی طرف کھینچتا ہے۔جب اسی انداز کے ٹائٹل کچھ اور کتابوں کے بھی دیکھے تو ان سے ملاقات کا شوق مزید بڑھتا گیا،لیکن بوجوہ یہ ممکن نہ ہو سکی۔ ایوانِ اقبال سے ان کی بے دخلی اور اس کے بعد ان کے یک شخصی احتجاجی مظاہرے کی خبریں بھی نظر سے گزرتی رہیں۔ مجھے اپنی نعت کی کتاب مرتب کرتے ہوئے اس کے ٹائٹل کا خیال آیا تو ایک نام جیسے ذہن سے چپک گیا اور یوں برادرم نعمان منظور صاحب کے ذریعے ان تک عرض مدعا پہنچایا گیا جس کے بعد انہوں نے اپنی علالت کا ذکر کیا، لیکن ساتھ کہا کہ چونکہ نعت کا معاملہ ہے اس لئے جیسے بھی ہو میں اسے ضرور کروں گا، لیکن میری صرف ایک شرط ہے کہ ان سے کہیں کہ اس کام........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play