غالباً سال 2009 ء کے آخری مہینے چل رہے تھے جب اخبار میں نئی نئی ”کامرس رپورٹنگ“ شروع کی۔27 دسمبر 2007 ء کو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 18 فروری 2008 ء کو انعقاد پذیر ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں 116 نشستوں کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر واپس آئی تھی۔ اکثریت کی بناء پر یوسف رضا گیلانی 13ویں نیشنل اسمبلی میں قائد ایوان چُنے گئے۔ جنہوں نے 25 مارچ 2008ء سے 19 جون 2012ء تک پاکستان کے 18 ویں وزیراعظم کے طور پر ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ بطور کامرس رپورٹر ہمارا واسطہ صرف وزارت خزانہ اور ملکی معیشت سے متعلقہ سرگرمیوں اور اداروں میں تھا، جن میں بزنس، فنانس، صنعت و تجارت، خوراک و زراعت وغیرہ شامل تھے۔ شوکت ترین اس زمانے میں پہلی دفعہ یوسف رضا گیلانی کی وفاقی کابینہ میں خزانہ اور ریونیو ڈویژن کے وزیر بنے۔ ان دنوں صوبوں کے درمیان ”قابل تقسیم محاصل“ کے مسئلے پر زور و شور سے بحث چل رہی تھی۔ آئے روز ہونیوالے اجلاسوں میں چاروں صوبوں کے نمائندہ ممبران مجموعی محصولات سے اپنے صوبے کا حصہ وصول کرنے کیلئے زور لگا رہے تھے جو خاصا ٹیکنیکل ایشو تھا۔”ڈی وزیبل پُول“ میں ٹیکس وصولیوں کی شکل میں صوبوں کا شیئر ”حصہ بقدر جُثہ“ کے فارمولے کے مطابق تھا، یعنی وفاقی محصولات کی مد میں جس صوبے سے وفاق کو جتنی رقم اکٹھی ہوئی ہے اسی تناسب سے وہ صوبہ حصے دار تھا۔

پتوکی جھونپڑی میں لیجاکر اوباش ملزم کی شادی شدہ لڑکی سے زیادتی دوسرا ملزم پہرا دیتا رہا

مذکو رہ بالا صورتحال ایک روز صبح کو ہونیوالی رپورٹرز کی میٹنگ میں زیر بحث آ گئی اور یہ طے پایا کہ اس انتہائی ٹیکنیکل ایشو پر روشنی ڈالنے کے لئے کامرس رپورٹر صاحب اقتصادی و خزانہ امور کے ماہر، سابق وزیر خزانہ سرتاج عزیز سے گفتگو کر کے تفصیلی خبر فائل کریں گے۔ سرتاج عزیز کا نام سُنتے ہی میرے ذہن میں کسی نہایت قد آور اور بڑی شخصیت کا نقش اُبھرا۔ ایک وجہ تو بذات خود یہ نام تھا سر۔ تاج۔ عزیز۔ یعنی ایک تو سر کا تاج اور دوسرا ہر دلعزیز سے عزیز، سرتاج عزیز۔جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے کہ ابھی کامرس رپورٹنگ شروع کئے ہوئے چند دن ہی ہوئے ہوں گے تو یہ ”اسائنمنٹ“ لگ گئی لہٰذا میٹنگ ختم ہوتے ہی سابق وزیر خزانہ سر تاج عزیز سے گفتگو کرنے کی تگ و دو شروع ہو گئی۔اس کے لئے سب سے پہلا مرحلہ بزرگوں کا رابطہ نمبر حاصل کرنا تھا،اس زمانے میں ابھی ”ڈیجیٹلائزیشن“ اس سطح پر نہیں پہنچی تھی کہ ہر شئے ”پیپر لیس“ ہو جائے لہٰذا رپورٹرزنے اپنی ذاتی ٹیلی فون ڈائریاں بنائی ہوتی تھیں جن میں انگریزی کے حروف تہجی کے مطابق ملک بھر کی نمایاں حکومتی، سیاسی، سماجی و دیگر شخصیات کے نمبرز محفوظ کئے جاتے تھے۔ سر تاج عزیز کا نمبر حاصل کرنے کے لئے ساتھی رپورٹرز سے بھی رابطہ کیا گیا اور بیٹ رپورٹرز سے بھی لیکن کہیں سے بھی کامیابی نہ ملی۔ جس کے بعد لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا رخ کیا جہاں انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ شاہد خلیل ہمیشہ بڑے بھائیوں کی طرح گائیڈ کرتے تھے جبکہ ڈیپارٹمنٹ کے دیگر سینئر اراکین میں راشد یعقوب اور دلدار وغیرہ کسی بھی پیشہ وارانہ ضرورت کے پیش نظر ہر ممکن تعاون کرتے تھے۔

ٹیسلا کا چین میں 16لاکھ سے زیادہ گاڑیاں واپس منگوانے کا اعلان

انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ لاہور چیمبر کی ایکسچینج سے سرتاج عزیز کا نمبر مل سکتا ہے، جب میں نے صفر ملاکر آپریٹر سے سرتاج عزیز کا نمبر مانگا تواس نے کہا کہ نمبر تو ہے لیکن یہ ”بابا“ کسی کا فون نہیں اُٹھاتا۔ میں نے استفسار کیا کہ مجھے نمبر عنایت کردیں میں ٹرائی کر لیتا ہوں۔خیر اللہ کی کرنی ایسی تھی کہ میں نے نمبر ملایا اور سرتاج عزیز صاحب نے بقلم خود پہلی ٹرائی پرہی فون اٹھا لیا، اس کی ایک وجہ شاید یہ تھی کہ اس زمانے میں موبائل کا ”گولڈن نمبر“ حاصل کرنا بڑا مشکل سمجھا جاتا تھا اور میرے ذاتی موبائل نمبر میں ہندسوں کی ترتیب ذرا پُر کشش تھی اسی لئے بابا جی نے ”ان ناؤن“ نمبر ہونے کے باوجود میرا فون سن لیا اور میری ان سے تفصیلاً بات ہو گئی۔ جس کے بعد میں نے خبر فائل کر دی جو اگلے روز کے اخبار میں سرتاج عزیز صاحب کی تصویر کے ساتھ صفحہ اوّل پر تین کالم باکس میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد میرا ”چاکا“ کھل گیا اور میں وقتاً فوقتا کسی خبر یا فالو اپ کے سلسلے میں بابا جی کو فون کر لیتا اور وہ بھی خصوصی شفقت کرتے ہوئے فون سن کر جواب دیتے، شاید پہلی خوشگوار گفتگو کے بعد انہوں نے میرا نمبر یہ سوچ کر سیو کر لیا ہو کہ ”منڈا“ غیر ضروری تنگ نہیں کرتا اور کبھی کبھار کام کی بات کے لئے زحمت دیتا ہے۔ بعد ازاں کامرس رپورٹنگ کے دوران کئی سال میرا سرتاج عزیز صاحب سے ٹیلی فونک رابطہ رہا اور ایک آدھ مرتبہ لاہور کی کسی تقریب میں ملاقات بھی ہوئی۔

آئی ایم ایف کی تجاویز پر عمل جاری، ایف بی آر کی تنظیم نو کے منصوبے کو حتمی شکل دیدی گئی

سرتاج عزیز 7 فروری 1929ء کو خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں پیدا ہوئے، وہ تحریک پاکستان کے رکن رہے۔پنجاب یونیورسٹی سے لے کر ہارورڈ یونیورسٹی تک کی ڈگریاں حاصل کیں، 1983ء سے لے کر 2017ء تک کے 35 برسوں میں ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن سے لے کر متعدد بار وفاقی وزیر، مشیر اور دیگر حکومتی عہدوں پر رہے۔ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے 1959 ء میں انہیں تمغہء پاکستان کے اعلیٰ قومی اعزاز سے نوازا۔وہ ایک عہد ساز، با وقار، قابل اور غیر متنازعہ شخصیت جو سیاست میں بھی وضع داری کی علامت تھے۔

فٹبالر کو بوسہ دینے کا معاملہ،خاتون فٹبالر نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروادیا

تاہم ایک بات جس نے سر تاج عزیز کی وفات کی خبر کو مزید غمناک بنا دیا وہ اس معاشرے کی ذہنی پستی،اخلاقی زوال اور سوچ کی پسماندگی یعنی جہالت کی اتھاہ گہرائیاں ہیں۔عمران خان کے فالورز کی شکل میں عجیب و غریب قسم کی گندی زبان سے لیس مسلح جتھے سوشل میڈیا پر گالیاں بکنے کیلئے ہمہ وقت موجود ہیں یہ ایک ایسی مخلُوق بن چکی ہے جنہوں نے کوئی نغمہء شادی تو کیا کوئی نوحہ ء غم بھی نہیں چھوڑا، حالانکہ ”کالا چور“ بھی جب فوت ہو جائے توبڑے لوگ کہتے ہیں کہ دنیا سے چلا گیا اب اس کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے، لیکن قوم یوتھ کی اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ سرتاج عزیز کے انتقال کی خبر کے نیچے انہیں جانے بغیر گھٹیا ترین کمنٹس کی بھرمار صرف اس لئے کی گئی کہ وہ نواز شریف کے دیرینہ ساتھی تھے۔

بوائے فرینڈ نے متعدد بار تشدد کا نشانہ بنایا، عائشہ عمر

میں ابھی اس کشمکش سے گزررہا تھا کہ زرتاج گل کی ”مظلوم میک اپ“ سے اٹی ہوئی پریس کانفرنس دیکھنے کو مل گئی جنہوں نے گوجرانوالہ میں درج مقدمہ میں ضمانت کیلئے لاہور ہائیکورٹ کی بجائے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کر کے ضمانت حاصل کر لی۔زرتاج گل کی موجودہ اور سابقہ گفتگو اس کے لیڈر اور فالورز کی طرح تضادات کا مجموعہ ہے۔پاکستانی سماج میں وضع داری،رکھ رکھاؤ اور سیاسی اقتدار سے اخلاقی، سماجی، سیاسی اور معاشی ابتری کے اس بد صورت سفر کو اگر ایک لائن میں بیان کرنا ہو تو اسے ”سرتاج سے زرتاج“ تک کا سفر کہا جا سکتا ہے۔

امریکہ قومی سلامتی کے نام پر چینی طلبا کو دھمکانا اور محدود کرنا بند کرے، چین

QOSHE -           سرتاج سے زرتاج تک کا سفر - صبغت اللہ چودھری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

          سرتاج سے زرتاج تک کا سفر

10 0
06.01.2024

غالباً سال 2009 ء کے آخری مہینے چل رہے تھے جب اخبار میں نئی نئی ”کامرس رپورٹنگ“ شروع کی۔27 دسمبر 2007 ء کو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 18 فروری 2008 ء کو انعقاد پذیر ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں 116 نشستوں کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر واپس آئی تھی۔ اکثریت کی بناء پر یوسف رضا گیلانی 13ویں نیشنل اسمبلی میں قائد ایوان چُنے گئے۔ جنہوں نے 25 مارچ 2008ء سے 19 جون 2012ء تک پاکستان کے 18 ویں وزیراعظم کے طور پر ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ بطور کامرس رپورٹر ہمارا واسطہ صرف وزارت خزانہ اور ملکی معیشت سے متعلقہ سرگرمیوں اور اداروں میں تھا، جن میں بزنس، فنانس، صنعت و تجارت، خوراک و زراعت وغیرہ شامل تھے۔ شوکت ترین اس زمانے میں پہلی دفعہ یوسف رضا گیلانی کی وفاقی کابینہ میں خزانہ اور ریونیو ڈویژن کے وزیر بنے۔ ان دنوں صوبوں کے درمیان ”قابل تقسیم محاصل“ کے مسئلے پر زور و شور سے بحث چل رہی تھی۔ آئے روز ہونیوالے اجلاسوں میں چاروں صوبوں کے نمائندہ ممبران مجموعی محصولات سے اپنے صوبے کا حصہ وصول کرنے کیلئے زور لگا رہے تھے جو خاصا ٹیکنیکل ایشو تھا۔”ڈی وزیبل پُول“ میں ٹیکس وصولیوں کی شکل میں صوبوں کا شیئر ”حصہ بقدر جُثہ“ کے فارمولے کے مطابق تھا، یعنی وفاقی محصولات کی مد میں جس صوبے سے وفاق کو جتنی رقم اکٹھی ہوئی ہے اسی تناسب سے وہ صوبہ حصے دار تھا۔

پتوکی جھونپڑی میں لیجاکر اوباش ملزم کی شادی شدہ لڑکی سے زیادتی دوسرا ملزم پہرا دیتا رہا

مذکو رہ بالا صورتحال ایک روز صبح کو ہونیوالی رپورٹرز کی میٹنگ میں زیر بحث آ گئی اور یہ طے پایا کہ اس انتہائی ٹیکنیکل ایشو پر روشنی ڈالنے کے لئے کامرس رپورٹر صاحب اقتصادی و خزانہ امور کے ماہر، سابق وزیر خزانہ سرتاج........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play