ایک شاعر سے کسی نے پوچھا کہ تمہیں شاعری کا بڑا صلہ کیا ملا؟ اُس نے کہا کہ مجھے اپنے ماحول سے حسین و جمیل اور پاکیزہ چیزوں کو تلاش کرنے کی عادت پڑگئی ہے۔ شاعر اور شاعری کا خیال مجھے یوں آیا کہ 27دسمبر کو ہر دلعزیز شاعر مرزا اسداللہ خان غالب کی سالگرہ کا دن تھا۔ غالب کا نام آتے ہی اُن کے اشعار ذہن کے دریچوں سے جھانکنے لگتے ہیں۔ ایک شعر آپ کی نظر

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

غالب 27دسمبر1797 میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ مرزا اسد اللہ خان غالب کے والد کا نام عبداللہ بیگ اور وطن ثمرقند تھا۔ اُن کے دادا اپنا وطن چھوڑ کر آئے اور شاہ عالم کی فوج میں ملازم ہوگئے۔ وہاں وہ ایک لڑائی میں مارے گئے۔ غالب کی اُس وقت عمر تقریباً پانچ سال تھی۔ والد کے انتقال کے بعد اُن کی پرورش اور تعلیم و تربیت ان کے چچا نصراللہ بیگ خان نے کی۔ غالب نو سال کے تھے کہ چچا بھی وفات پاگئے۔ اُن کے وارث ہونے کی حیثیت سے مرزا غالب کے خاندان کو انگریزوں کی طرف سے ماہانہ ساڑھے سات سو روپے پنشن ملنے لگی مگر جنگ آزادی کے بعد وہ بھی بند ہوگئی اور مرزا غالب نے پنشن بند ہونے کے بعد بہت تنگ دستی کی زندگی گذاری۔

سینئر بھارتی اداکار راکیش بیدی کو نوسرباز نے بڑی رقم سے محروم کردیا

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

مرزا کا بچپن آگرہ میں گزرا ابتدائی تعلیم آگرہ کے مشہور عالم محمد اعظم سے حاصل کی۔ اسی زمانے میں نظیراکبرآبادی سے بھی کچھ ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ فارسی کی تکمیل عبدالصمد ایرانی سے کی اور فارسی زبان و ادب میں مہارت حاصل کی۔ شاعری میں مرزا غالب نے کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی اُنہوں نے پہلے اسد اور پھر غالب کا تخلص اختیار کیا۔ مرزا غالب بہت صاف گو، حق پسند اور خود دار طبیعت کے مالک تھے۔ مرزا غالب اُردو اور فارسی کے بلندپایہ شاعر ہیں اُن کی شاعرانہ عظمت کو سب نے تسلیم کیا۔ یہ امر شبہ سے بالا ہے کہ ایک فلسفی اپنے نظریات سے زندہ رہتا ہے لیکن اس کے برعکس شاعرانہ کلام نظریات سے مختلف ہوتا ہے۔ شعر صدیوں کے عمل سے بھی نہ پرانا ہوتا ہے نہ بوسیدہ۔ شعر کی تازگی کے عوامل کیا ہیں۔ اولاً کلام کی زندگی سے جڑت دوم کلام کا انوکھا پن انسانی نفسیات تعجب اور تحیر کا اثر سب سے زیادہ قبول کرتا ہے۔ نیاپن ایک ایسی خوبی ہے جو انسانی ذہن کو ترفع سے ہمکنار کردیتی ہے۔ تیری وجہ کلام کی فکری تحرک پیدا کرنے کی صلاحیت فکر میں جولانی پیدا کرنے کی قابلیت۔ غالب کی شوخیئ تحریر کو بہ نظر غائر پرکھا جائے تو اس میں تینوں خوبیوں کو بآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے کلامِ غالب کے بارے میں درست ہی کہا تھا ”غالب اس سیارے کی مانند ہے جس کے بارے میں جتنا کھوج لگاتے جاؤ گے کچھ نہ کچھ نیا دریافت ہوتا جائے گا۔“ اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ میں مرزا اسد اللہ خاں غالب نے ایک مختصر دیوان اُردو چھوڑا تحقیق کے مطابق غالب کے کل اشعار کی تعداد 1093 ہے۔ دیوانِ غالب پہلی بار 1841 میں شائع ہوا اُس وقت سے لے کر آج تک دو سو سال گزر چکے ہیں وقت کی گرد صدیوں کے گہرے بادل بھی کلامِ غالب کے سورج کو گہنا نہیں سکے۔ کلامِ غالب ایک ایسا گلدستہ ہے جس کی تازگی آج بھی جوں کی توں ہے غالب نے فارسی غزل میں کہا

بیٹی ایرا کی شادی پر عامر خان کا سابقہ اہلیہ کو بوسہ

زمن گرت نہ بود و باور انتظار بیا

بہا نہ جوئے مباش و شیزہ کار بیا

صوفی تبسم چونکہ غالب کے بہت معتقد تھے چنانچہ غالب کی اس فارسی غزل کا پنجابی ترجمہ کیا جو سحرپرور اور وجدان انگیز ہے۔ اس طرح غالب کی تازہ کاری کو صوفی تبسم نے پنجابی میں ڈھال کر تب وتاب بخش دی۔

میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں آ ویکھ میرا انتظار آ جا

اینویں لڑن بہانڑے لبھنا ایں کیہ توں سوچنا ایں ستمگار آ جا

صوفی تبسم نے فارسی دیباچہ جہاں معلوم میں افتخار عارف نے لکھا ہے کہ مرزا غالب کا مصرعہ ذہن میں طوفان اُٹھاتا ہے لیکن یہ طوفان اچانک نہیں اُٹھتا ذہن کا ارتعاش تدریجاً آگے بڑھتا ہے اولاً انسانی ذہن غالب کے مصرعے کو ڈائجسٹ کرتا ہے جو وقت اُسے ڈائجسٹ کرنے میں لگتا ہے اُسے Probation Period کہہ سکتے ہیں یا کمپیوٹر کی زبان میں Seek Period کہہ لیں۔ جب یہ Seek Period تکمیل پذیر ہوجاتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ لہریں شروع ہوتی ہیں۔ یہ لہریں اُٹھتے اُٹھتے اُٹھتی ہیں اور پھر انسانی ذہن جولانی پکڑتا ہے۔ طبیعت رواں اور رواں اور رواں ہوجاتی ہے۔ طبیعت وقت کی قید کو قبول کرنے سے انکار کردیتی ہے۔

نرگس فخری کی حالیہ اور سابقہ بوائے فرینڈ کے ساتھ پارٹی میں شرکت

غالب نے لکھا

شوق ہر رنگ رقیب بے سرو ساماں نکلا

قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

بوئے گل نالہئ دل دودِ چراغِ محفل

جو تیری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

بیسویں صدی کے رائٹرز نے غالب کے فارسی کلام پر بہت کام کیا جن میں شرح غزلیات غالب جو صوفی تبسم کی تصنیف ہے اس میں اُنہوں نے غالب کے فارسی کلام کا ترجمہ پیش کیا اور ساتھ ساتھ مشکل الفاظ کی لغوی تشریح بھی کی ہے۔

عہدحاضر میں بھی کلامِ غالب کی تب و تاب جاودانہ ہے۔ یہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ سوشل میڈیا کی بات کی جائے تو اس کے ساتھ جڑے ہوئے نغمہ و آہنگ کو کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں غالب کی حیات پر متعدد فلمیں بن چکی ہیں۔ وہاں غزل غالب کو موسیقی کے آہنگ سے ملبوس کیا جارہا ہے۔ کلامِ غالب کی یہ خاصیت ہے کہ موسیقی میں ڈھل کر یہ اپنی تازگی میں مزید اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اُردو شعرا میں سب سے زیادہ غالب کی غزلوں کو موسیقی کا پیراہن پہنایا گیا۔ انسانی کسک مرزا غالب کی غزل کا خاصہ ہے جب بھی غالب کی غزل کو موسیقی کا پیراہن پہنایا جاتا ہے تو اُس کی غزل کا ہر مصرع خوشبو کی لپٹیں بن کر پھیلتا چلا جاتا ہے۔

رہنماؤں کی جانب سے ذاتی حیثیت میں دیئے گئے بیانات پارٹی پالیسی نہیں، تحریک انصاف

غالب کی وہ غزلیں جو عہدحاضر کے میڈیا پر دھوم مچا چکی ہیں کچھ اس طرح ہیں:

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے

تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے

دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن

بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے

غالب کمالات کا شاعر ہے انسانیت کا شاعر ہے حقوقِ انسانی کا شاعر ہے۔ وہ ترقی پسند شاعر ہے اُن کی شاعری کے ساتھ ساتھ اُن کے خطوط بھی معنویت سے پُر ہیں۔ اسی لیے علامہ اقبال کے علاوہ بڑے شاعروں اور نقادوں نے بھی اُن کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ غالب حقیقتاً ہر دور کا شاعر ہے وہ ہر دور میں مقبول رہا ہے اور رہے گا۔ غالب کے کلام کو جس بھی زاویے سے دیکھیں غور کریں اُن کو بے جان شے کو بھی جاندار بنا کر پیش کردینے کا ہنر آتا ہے۔ وہ انسانی اقدار کے علمبردار رہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE -        کلامِ غالب اور عہدِ حاضر - ڈاکٹر فوزیہ تبسم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       کلامِ غالب اور عہدِ حاضر

6 0
05.01.2024

ایک شاعر سے کسی نے پوچھا کہ تمہیں شاعری کا بڑا صلہ کیا ملا؟ اُس نے کہا کہ مجھے اپنے ماحول سے حسین و جمیل اور پاکیزہ چیزوں کو تلاش کرنے کی عادت پڑگئی ہے۔ شاعر اور شاعری کا خیال مجھے یوں آیا کہ 27دسمبر کو ہر دلعزیز شاعر مرزا اسداللہ خان غالب کی سالگرہ کا دن تھا۔ غالب کا نام آتے ہی اُن کے اشعار ذہن کے دریچوں سے جھانکنے لگتے ہیں۔ ایک شعر آپ کی نظر

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

غالب 27دسمبر1797 میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ مرزا اسد اللہ خان غالب کے والد کا نام عبداللہ بیگ اور وطن ثمرقند تھا۔ اُن کے دادا اپنا وطن چھوڑ کر آئے اور شاہ عالم کی فوج میں ملازم ہوگئے۔ وہاں وہ ایک لڑائی میں مارے گئے۔ غالب کی اُس وقت عمر تقریباً پانچ سال تھی۔ والد کے انتقال کے بعد اُن کی پرورش اور تعلیم و تربیت ان کے چچا نصراللہ بیگ خان نے کی۔ غالب نو سال کے تھے کہ چچا بھی وفات پاگئے۔ اُن کے وارث ہونے کی حیثیت سے مرزا غالب کے خاندان کو انگریزوں کی طرف سے ماہانہ ساڑھے سات سو روپے پنشن ملنے لگی مگر جنگ آزادی کے بعد وہ بھی بند ہوگئی اور مرزا غالب نے پنشن بند ہونے کے بعد بہت تنگ دستی کی زندگی گذاری۔

سینئر بھارتی اداکار راکیش بیدی کو نوسرباز نے بڑی رقم سے محروم کردیا

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

مرزا کا بچپن آگرہ میں گزرا ابتدائی تعلیم آگرہ کے مشہور عالم محمد اعظم سے حاصل کی۔ اسی زمانے میں نظیراکبرآبادی سے بھی کچھ ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ فارسی کی تکمیل عبدالصمد ایرانی سے کی اور فارسی زبان و ادب میں مہارت حاصل کی۔ شاعری میں مرزا غالب نے کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی اُنہوں نے پہلے اسد اور پھر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play