الیکشن 2024ء سر پر آن پہنچا ہے مگر عوام کی نہیں سیاست دانوں اور انتخابات کو ”رکوانے اور اب کروانے“ والوں کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں، پریشان ہیں کہ اب ہو گا کیا اور کیسے ہو گا،وہ جن کو مشورہ دینے والے اور راستہ نہیں راستوں کا بتانے والوں کی ”فوج“ موجود ہے ان کو بھی لگتا ہے کہ ”ایسا ہوگا نہیں ویسا ہو گا“۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جیسا ”نتیجہ“چاہئے اور جس کی خواہش ہے وہ کیسے ہو گا۔ خواہشات کی لمبی فہرست ہے، مگر ان کے پورے ہونے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ جس راستے پر جاتے ہیں ایسا نہیں کہ آگے وہ بند ملتا ہے یہاں الٹ ہو رہا ہے سرنگ کا دوسرا سرا بند نہیں ہے کھلا ہے، مگر ہر راستے کے آگے ”ان“کا ہجوم ملتا ہے جو ”آپ جناب“کی بات سننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اکیسویں صدی کے سوشل میڈیا کے دور کی پیداوار ”اپنی مرضی“ کے مالک اور کسی معاملے میں بھی ”اپنے بڑوں“ کی بھی نہ سننے والی چھ کروڑ ”یوتھ“کو قابو کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ خاص طور پر وہ ڈھائی کروڑ ”یوتھ“، جنہوں نے پہلی بار ووٹ ڈالنا ہے ان کو کیسے قابو کیا جائے۔ اپنی مرضی کی راہ پر کیسے چلایا جائے۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا تو ”قابو“ میں ہے، مگر بے لگام سوشل میڈیا پیٹھ پر کاٹھی نہیں ڈالنے دے رہا، اڑیل اور سرکش گھوڑوں کو قابو کرنے والوں کو بھی یہاں ناکامی ہو رہی ہے۔ پہلے، دوسرے اور تیسرے مارشل لا کے تجربے کام نہیں آرہے۔ اس کے علاہ ایک اور ”فیکٹر“ ہے جو گھروں میں بیٹھا ہے۔ وہ جو اس معاشرے میں 51فیصد ہے اور اس بار وہ بھی”ان“ کے بتائے راستے پر چلنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ 52فیصد اس بار اپنے مجازی خدا، اپنے بھائیوں،اپنے بزرگوں کی سننے اور سر جھکانے کی بجائے اپنی مرضی کرنے پر بضد ہے۔ان مشکل حالات میں ”گول پوسٹ“کو بغیر گول کیپر سمجھ کر ”واپس“ آنے والے زیادہ مشکل میں ہیں انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ ”سب اچھا ہے“، مگر یہاں کچھ بھی اچھا نہیں ہے،جہاں قدم رکھتے ہیں دھنسنے لگ جاتے ہیں۔ ان کو جو سبز باغ اور نخلستان دکھائے گئے تھے وہ سراب ثابت ہوئے ہیں۔

عام انتخابات ، (ن)لیگ اور (ق)لیگ کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر جلد پیشرفت متوقع

بلوچستان میں صوبے پر حکمرانی کا جو دستر خوان ”سجا دکھا کر“ واپس آنے والوں کو کوئٹہ پہنچایا گیا تھا وہ بھی ایک سراب نکلا۔ پنجاب میں اگرچہ پارٹی کے پاس امیدواروں کی بظاہر کوئی کمی نہیں ہے مگر ”حوصلے اور اعتماد“کی شدید کمی ہے، لہٰذا حوصلے جواب دے رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کاغذات نامزدگی کے مرحلے کی تکمیل کے بعد بدترین شور شرابہ مچ گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنروں اور ان کے ماتحت افسروں نے ثابت کر دیا ہے کہ ”جج صاحبان“کو کیوں ”آر اوز“ کی ذمہ داریاں نہیں دی گئیں۔ لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایات اب تو واقعی سچ لگ رہی ہیں۔ واپس آنے والوں کے خوف نے انہیں اس حکمت عملی پر مجبور کیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ”اڈیالہ والے“کے اپنے اور اس کے ساتھیوں کے کاغذاتِ نامزدگی ”جواز“ پیدا کر کے مسترد کئے جائیں،بلکہ اس کے لئے بہتر مثال یہ ہے کہ ”کشتوں کے پشتے“ لگائے جاچکے ہیں۔ اب مظلوموں کے اس ہجوم سے ہائیکورٹوں کے جج حضرات پر مشتمل ٹریبونل کیا سلوک کرتے ہیں یہ آنے والے دس دنوں میں سامنے آ جائے گا،لیکن عدالتوں کے خلاف مسلم لیگ (ن) کی تازہ مہم بتا رہی ہے کہ ”کچھ“ تو ہے جو اس قدر شور برپا ہے۔ کاغذات نامزدگی کے استرداد میں کوئی بچا ہی نہیں ہے۔ سابق وزیر خارجہ اور پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی ان کے صاحبزادے زین قریشی اور صاحبزادی مہر بانو قریشی کے کاغذات نامزدگی ملتان کی دو اور اندرون سندھ تھر پارکر کی قومی اسمبلی کی ایک نشست سے مسترد کئے جا چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے صدر چودھری پرویز الٰہی ان کے صاحبزادے مونس الٰہی اور اہلیہ قیصرہ الٰہی(چودھری شجاعت حسین کی ہمشیرہ)کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد ہو گئے ہیں۔ سابق سپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد کئے گئے ہیں۔ سینیٹر اعظم سواتی اور زلفی بخاری پر بھی کلہاڑا چل چکا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کے قریبی عزیز میجر طاہر صادق کی اہلیہ اور دو بیٹیوں کے کاغذ بھی آر او کو پسند نہیں آئے لہٰذا ”نامقبول“ ٹھہرے۔ خواجہ آصف کے سامنے میدان میں اترنے کی جرأت کرنے والی اڈیالہ کے قیدی کے ساتھی عثمان ڈار کی والدہ ریحانہ اور اہلیہ اروبا کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد کئے گئے ہیں۔ سابق وزیر اطلاعات اور سائنس فواد چودھری اور ان کی اہلیہ حبا چودھری کے کاغذات بھی مسترد کر دئیے گئے ہیں۔

نگران وفاقی حکومت کا پاکستان سپر لیگ 9 بارے اہم فیصلہ

کے پی کے سے شہرام ترکئی، مشکل حالات میں میدان سجانے والے وکیل شیر افضل مروت، اڈیالہ کے قیدی کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ، لاہور سے جمشید چیمہ اور مسرت جمشید چیمہ، خیبرپختونخوا سے این اے 22کے امیدوار عاطف خان، طاہر شاہ، مردان سے افتخار مشوانی، این اے 96جڑانوالہ سے رائے حیدر کھرل، لاہور سے سابق گورنر میاں محمد اظہر کے فرزند سابق وفاقی وزیر حماد اظہر، جنوبی پنجاب سے سردار حسنین بہادر دریشک، قومی اسمبلی میں اجتماعی استعفوں کے بعد دبنگ تقریر کرنے والے علی محمد خان، بہاولنگر سے وکیل شوکت بسرا، ڈیرہ اسماعیل خان سے مولانا فضل الرحمن کے مخالف امیدوار علی امین گنڈاپور، سابق وزیر اور مدلل جواب دینے والی سابق وفاقی وزیر زرتاج گل، وہاڑی سے طاہر اقبال چودھری، لیہ سے عبدالمجید خان نیازی، این اے87 سے ملک عمر اسلم اعوان اور ملک حسن اسلم اعوان، لاہور سے سابق گورنر سردار لطیف کھوسہ کے فرزند خرم لطیف کھوسہ کے کاغذات مسترد ہوئے ہیں۔ سب نام لکھنے کے لئے اس کالم کی جگہ ناکافی ہے۔ یہ نام لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کو کاغذات نامزدگی مکمل کرنا نہیں آتا؟ اس کا جواب آپ خود بہتر دے سکتے ہیں، مگر اوپر والی فہرست ابھی نامکمل ہے ان دو ناموں کے بغیر ایک میاں نواز شریف کے خلاف کاغذات نامزدگی جمع کرانے والی ڈاکٹر یاسمین راشد اور دوسرے بلوچستان کی نامور سیاسی شخصیت بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر سردار اختر مینگل۔ یاسمین راشد تو جناح ہاؤس پر حملہ کے الزام میں ”بند“ ہیں، مگر سردار اختر مینگل پر الزام ہے کہ ان کے پاس متحدہ عرب امارات کا ”اقامہ“ہے۔ لگتا ہے ظالم”آر او“نے اقامہ کا الزام لگا کر اعلیٰ عدلیہ اور طاقتوروں کو کچھ یاد کرانے کی کوشش کی ہے۔اب کچھ اچھی خبر بھی ہوجائے لاہور سے سینئر وکلا سردار لطیف کھوسہ اور سلمان اکرم راجہ کے کاغذات حیران کن طور پر قبول کر لیے گئے ہیں۔سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پی پی 284پر برآمد ہوئے ہیں اور میدان میں اترنے کی اجازت بھی مل گئی ہے۔ انتظامی افسروں کی فہم وبصیرت کی بدولت مسترد ہونے والوں کو عدالتوں سے کتنا ریلیف ملتا ہے اس کا انتظار رہے گا۔

سڈنی ٹیسٹ،شاہین کے نہ کھیلنے کے فیصلے کو وقار یونس نے مضحکہ خیز قرار دیدیا

QOSHE -          مخمصہ۔۔۔ پریشانی۔۔۔ آخر ہو گا کیا - سید شعیب الدین احمد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         مخمصہ۔۔۔ پریشانی۔۔۔ آخر ہو گا کیا

18 0
04.01.2024

الیکشن 2024ء سر پر آن پہنچا ہے مگر عوام کی نہیں سیاست دانوں اور انتخابات کو ”رکوانے اور اب کروانے“ والوں کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں، پریشان ہیں کہ اب ہو گا کیا اور کیسے ہو گا،وہ جن کو مشورہ دینے والے اور راستہ نہیں راستوں کا بتانے والوں کی ”فوج“ موجود ہے ان کو بھی لگتا ہے کہ ”ایسا ہوگا نہیں ویسا ہو گا“۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جیسا ”نتیجہ“چاہئے اور جس کی خواہش ہے وہ کیسے ہو گا۔ خواہشات کی لمبی فہرست ہے، مگر ان کے پورے ہونے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ جس راستے پر جاتے ہیں ایسا نہیں کہ آگے وہ بند ملتا ہے یہاں الٹ ہو رہا ہے سرنگ کا دوسرا سرا بند نہیں ہے کھلا ہے، مگر ہر راستے کے آگے ”ان“کا ہجوم ملتا ہے جو ”آپ جناب“کی بات سننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اکیسویں صدی کے سوشل میڈیا کے دور کی پیداوار ”اپنی مرضی“ کے مالک اور کسی معاملے میں بھی ”اپنے بڑوں“ کی بھی نہ سننے والی چھ کروڑ ”یوتھ“کو قابو کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ خاص طور پر وہ ڈھائی کروڑ ”یوتھ“، جنہوں نے پہلی بار ووٹ ڈالنا ہے ان کو کیسے قابو کیا جائے۔ اپنی مرضی کی راہ پر کیسے چلایا جائے۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا تو ”قابو“ میں ہے، مگر بے لگام سوشل میڈیا پیٹھ پر کاٹھی نہیں ڈالنے دے رہا، اڑیل اور سرکش گھوڑوں کو قابو کرنے والوں کو بھی یہاں ناکامی ہو رہی ہے۔ پہلے، دوسرے اور تیسرے مارشل لا کے تجربے کام نہیں آرہے۔ اس کے علاہ ایک اور ”فیکٹر“ ہے جو گھروں میں بیٹھا ہے۔ وہ جو اس معاشرے میں 51فیصد ہے اور اس بار وہ بھی”ان“ کے بتائے راستے پر چلنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ 52فیصد اس بار اپنے مجازی خدا، اپنے بھائیوں،اپنے بزرگوں کی سننے اور سر جھکانے کی بجائے اپنی مرضی کرنے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play