پچھلے سال کے آغاز پر جو حالات تھے،اور اب نئے سال کے آغاز پر جو صورت حال ہے،مجھے اس میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ سیاسی بے یقینی اس وقت بھی موجود تھی اور اب بھی ہے۔ تب عمران خان پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے کے درپے تھے تاکہ اس وقت کے حکمران یعنی پی ڈی ایم کے اتحادی جلد از جلد انتخابات کرانے پر مجبور ہو جائیں۔ دونوں صوبوں کی اسمبلیاں توڑ دی گئیں،لیکن انتخابات نہیں ہوئے، اس کے بعد قومی اسمبلی اور بلوچستان و سندھ اسمبلی کی آئینی معیاد پوری ہو گئی اور وہ اسمبلیاں بھی توڑ دی گئیں۔ اس کے بعد آئین کے مطابق تین ماہ کے اندر الیکشن ہو جانا چاہئیں تھے لیکن انتخابات پھر بھی نہ ہو سکے۔ اور اب جبکہ الیکشن کمیشن نے اگلے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے،اور شیڈول بھی جاری کیا جا چکا ہے،کاغذات نامزدگی جمع کرائے جا چکے ہیں اور ملک میں سیاسی سرگرمیاں بھی شروع ہو چکی ہیں،الیکشن مقررہ تاریخ پر ہو سکیں گے،اس بارے میں تا حال وثوق کے ساتھ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مختلف آوازیں سننے میں آ رہی ہیں۔ پچھلے سال کے آغاز پر ہمارے پاس اتنے ڈالر نہیں تھے یا دوسرے لفظوں میں زر مبادلہ کے قومی ذخائر اتنے نہیں تھے کہ بین الاقوامی تجارت کر سکیں،اور ضرورت کی چیزیں درآمد کی جا سکیں۔ اب ایک سال گزرنے کے بعد اور آئی ایم ایف کا پیکج بحال کرا لینے کے باوجود لگتا ہے کہ ہم وہیں کھڑے ہیں اور اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ بین الاقوامی تجارت کر سکیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

پچھلے سال بھی مہنگائی کا یہی عالم تھا جو اس سال کے آغاز میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ لوگ تب بھی ایک روپے والی چیز 140 روپے میں خریدنے پر مجبور تھے اور اب بھی وہ اسی تکلیف اور پریشانی میں مبتلا ہیں۔ پچھلے سال بھی ہم نے اپنی خوراک کا کافی بڑا حصہ دوسرے ممالک سے درآمد کر کے اپنی غذائی ضروریات کو پورا کیا تھا اور ایک زرعی معیشت والا ملک ہونے کے باوجود اس سال بھی کوئی امکان نہیں کہ ہم غذائی خود کفالت کی منزل تک پہنچ سکیں گے۔ پچھلے سال بھی ہماری سڑکوں پر ٹریفک کا ایسا ہی اژدحام تھا جیسا اس سال مشاہدے میں آ رہا ہے،چنانچہ مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ کس چیز کا ہیپی نیو ایئر،کس چیز کی خوشیاں،کس چیز کا جشن ہم بنائیں؟ ہمارے لیے تو ہر نیا سال ایک نیا لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ ہم نے اس ملک کو کس مقصد کے لیے حاصل کیا تھا،اور اسے کس طرف لے آئے ہیں اور ابھی مزید آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ ایک شترِ بے مہار کی سی کیفیت ہے۔ کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔ ہم نے کم تولنا، پچھلے سال روکا تھا نہ اس سال ہی ایسا کوئی ارادہ نظر آتا ہے کہ ہم ایماندار ہو جائیں گے۔ ملاوٹ، رشوت، کرپشن،ناجائز منافع خوری،ذخیرہ اندوزی کو بھی ہم نے ابھی تک ترک نہیں کیا اور نہ ایسا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔ دہشت گردی پچھلا پورا سال ملک کے امن و امان اور عوام کے سکون و چین کو برباد کرتی رہی اور امسال بھی صورت حال اطمینان بخش نظر نہیں آتی کہ نئے سال کا آغاز ہی بری خبر سے ہوا کہ باجوڑ میں پاک افغان سرحد پر سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں میں جھڑپ ہوئی جس میں تین دہشت گرد مارے گئے۔ جانے دہشت گردی کے عفریت سے قوم اور ملک کی کب مکمل جان چھوٹے گی؟

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے پلیئر آف دی ایئر کی نامزدگیوں کا اعلان کردیا

عالمی منظر کا جائزہ لیں تو معاملات اس سے بھی زیادہ گمبھیر نظر آتے ہیں۔ 2023 شروع ہوا تھا تو یوکرین اور روس کی جنگ جاری تھی اور تب اس کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا۔ اب نیا سال ایک ایسے وقت پہ شروع ہوا ہے جب روس یوکرین جنگ تو ابھی ختم نہیں ہوئی،لیکن اسرائیل اور فلسطین کی جنگ کے شعلے بھی عالمی امن کو جھلسائے دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہوتے ہوئے ان دونوں جنگوں کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے،اور آگے حالات کیا رخ اختیار کریں گے،اس کا بھی کسی کو کچھ پتا نہیں ہے۔ ایک طرف کچھ ممالک ان دونوں جنگوں کے شعلوں کو بجھانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں،تو کچھ دوسرے ممالک ان پر تیل چھڑکنے کی کوششوں میں ہیں۔ ایسے میں یہ آگ بجھے گی تو کیسے بجھے گی؟ سمجھ نہیں آتی۔ ان حالات میں کیسا ہیپی نیو ایئر اور کیسا جشن؟ گزشتہ سال کے آغاز میں بین الاقوامی برادری عالمی کساد بازاری کا شکار تھی اور یہ کساد بازاری اب بھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ ملکوں اور قوموں کے معاشی ڈھانچے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور عوام افراطِ زر کی چکی میں پس رہے ہیں۔ لوگوں کی روٹی پوری نہ ہو رہی ہو تو جشن کا سماں کیسے بندھ سکتا ہے؟

ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی جائیدادیں بیچ کر قرضے اتارے جائیں گے،سراج الحق

ان تمام چیزوں کے باوجود،ان تمام خرابیوں کے باوصف،ان تمام مسائل کے ہوتے ہوئے یہ تو ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کا ایک اور سال مکمل کر لیا اور ایک نئے سال میں داخل ہو گئے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا،معاملات اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ ان کے سلجھنے کا کہیں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ یہ ہم انسانوں کی پیدا کی گئی الجھنیں ہیں جن کو ہم خود ہی سلجھا نہیں پا رہے۔ ہاں ایک ذات اور صرف ایک ذات ایسی ہے جو ان مسائل کا حل کر سکتی ہے،ہمیں ان مشکلات سے نکال سکتی ہے اور وہ ذات ہے پروردگار عالم کی،جو اکیلا ہے اور لا شریک ہے،جو قادر مطلق ہے،لہٰذا اسی کے آگے دعا گو ہوتے ہیں کہ وہ ہمیں ان گمبھیر مسائل سے نجات دلا دے،ہمارے لیے آسانیاں پیدا کرے،ہمیں جنگوں کی تباہ کاریوں سے بچائے،ہمیں کساد بازاری کی جکڑ سے محفوظ رکھے،ہمیں آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے،عالمی سطح پر امن قائم ہو اور سب مل کر انسانیت کی ترقی کے بارے میں سوچ سکیں۔ آئیے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور ہاتھ اٹھاتے ہیں۔

نیوزی لینڈ کاپاکستان کیخلاف ٹی 20 سیریز کیلئے 15 رکنی سکواڈ کا اعلان

QOSHE -        کیسی خوشیاں‘ کیسا جشن؟ - محمد معاذ قریشی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       کیسی خوشیاں‘ کیسا جشن؟

9 0
04.01.2024

پچھلے سال کے آغاز پر جو حالات تھے،اور اب نئے سال کے آغاز پر جو صورت حال ہے،مجھے اس میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ سیاسی بے یقینی اس وقت بھی موجود تھی اور اب بھی ہے۔ تب عمران خان پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے کے درپے تھے تاکہ اس وقت کے حکمران یعنی پی ڈی ایم کے اتحادی جلد از جلد انتخابات کرانے پر مجبور ہو جائیں۔ دونوں صوبوں کی اسمبلیاں توڑ دی گئیں،لیکن انتخابات نہیں ہوئے، اس کے بعد قومی اسمبلی اور بلوچستان و سندھ اسمبلی کی آئینی معیاد پوری ہو گئی اور وہ اسمبلیاں بھی توڑ دی گئیں۔ اس کے بعد آئین کے مطابق تین ماہ کے اندر الیکشن ہو جانا چاہئیں تھے لیکن انتخابات پھر بھی نہ ہو سکے۔ اور اب جبکہ الیکشن کمیشن نے اگلے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے،اور شیڈول بھی جاری کیا جا چکا ہے،کاغذات نامزدگی جمع کرائے جا چکے ہیں اور ملک میں سیاسی سرگرمیاں بھی شروع ہو چکی ہیں،الیکشن مقررہ تاریخ پر ہو سکیں گے،اس بارے میں تا حال وثوق کے ساتھ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مختلف آوازیں سننے میں آ رہی ہیں۔ پچھلے سال کے آغاز پر ہمارے پاس اتنے ڈالر نہیں تھے یا دوسرے لفظوں میں زر مبادلہ کے قومی ذخائر اتنے نہیں تھے کہ بین الاقوامی تجارت کر سکیں،اور ضرورت کی چیزیں درآمد کی جا سکیں۔ اب ایک سال گزرنے کے بعد اور آئی ایم ایف کا پیکج بحال کرا لینے کے باوجود لگتا ہے کہ ہم وہیں کھڑے ہیں اور اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play