”پاکستان میں پولیس کا کردار“، یہ عنوان حساس موضوعات سے تعلق رکھتا ہے، عملاً پاکستانی عوام، اپنی اپنی سطح پر بحیثیت مجموعی سرکاری اہلکاروں کے یرغمالی ہیں، ریاستِ پاکستان کے سرکاری اہلکاروں کی ”طبائع“ قانون کی جس تعبیر کا اطلاق کرنا چاہیں لوگوں کو، اپنی اپنی سطح پر وہی تعبیر قبول اور برداشت کرنا پڑتی ہے۔یہ ایک وسیع مگر گنجلک مسئلہ ہے جس میں پاکستانی عوام تہذیب اور توہین کے قیدی بنے رہتے ہیں۔ پولیس کے حوالے سے ہمارا آغاز 8فروری کو ملک میں عام انتخابات میں حصہ لینے والے پی ٹی آئی کے سیاستدانوں نے پنجاب پولیس پر تحریکِ انصاف کے امیدواروں کے گھروں پر چڑھائی، توڑ پھوڑ اغواءتشدد اور گرفتاریوں سمیت سنگین الزامات عائد کیے ہیں ۔دوسری جانب پنجاب پولیس ان واقعات کی مسلسل تردید کررہی ہے ۔ تاہم پاکستان بالخصوص پنجاب میں پولیس کے اس طرح کے اوچھے ہتکھنڈوں کا ریکارڈ بہت مایوس کن ہے۔اس طرح کے واقعات کی روک تھام اور ادارے کی سربلندی کے لیے اگر جزا و سزا کا نظام رائج کر دیا جائے تو پولیس کے محکمے میں تبدیلی آ سکے گی وگرنہ عوام میں مایوسی بڑھے گی اور پولیس کی وحشت ناکی بڑھتی چلی جائے گی۔ہماری عاجزانہ رائے کے مطابق مستقبل میں بھی صرف ”پولیس کی انتہا پسندی“ بڑھے گی۔ وہ لوگ جنہوں نے اس ملک کی سات دہائیوں کا گہری نظروں اور یادداشت کے ساتھ مطالعہ کیا ہے، وہ صرف ایک نقطے پر غور کر لیں جس کا تعلق پنجاب پولیس سے ہے۔قیامِ پاکستان کے بعد کے سپاہی سے لے کر آئی جی“ تک پولیس کی تنخواہوں اور حالاتِ کار کی ناگفتہ بہ زیادتیوں پر اس محکمے کی آہ و بکا سے ایسا لگتا تھا، پورا پنجاب ”جناز گاہ“ بن چکا ہے۔ کہا جاتا تھا، ان کی تنخواہیں اور حالات کار درست کر دینے پر یہ ”عوام“ کی جان، مال خصوصاً عزت کے ”شیر دل محافظ“ ہوں گے۔آج آپ اس غریب ملک میں ان لوگوں کی تنخواہوں، مراعات، ان کے مطالبوں پر اربوں روپوں کے مخصوص کردہ اب تک کے بجٹوں پر ششدر رہ جائیں گے مگر سچ کیا ہے؟وہ پولیس کانسٹیبل جو 49,48میں ”بےعزتی“ کرنے میں تھوڑی سی ”حیا“ کرتا تھا، آج بے پناہ مادی فوائد کے باوجود ”حیا“ تو رہی ایک طرف پوری دیدہ دلیری سے ”شہری“ کے احترام کی ”ایسی کی تیسی“ کر دیتا ہے۔آپ پہلے خود سے اور پھر قائداعظم سے سوال کریں گے ”بتاﺅ پاکستان ان ”باوردی طاقتوروں! کے ہاتھوں ہمارے ”احترام“ کا نہایت تکبرانہ اسٹائل سے ”قبرستان“ تعمیر کرنے کے لئے حاصل کیا گیا تھا؟ متعدد مواقعوں پرہمارے کئی دانشور اس محکمے کے بارے میں کہہ چکے ہیں ، یہ محکمہ ختم کر دینا چاہئے، لیکن پاکستانی محکموں نے اِس ملک پر قبضہ کر لیا ہے۔اکثر آپ کو اخبارات اور ٹی وی پر پولیس اہلکاروں کے خلاف سنگین جرائم میں ملوث ہونے کی خبریں پڑھنے اور دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔کیسا اذیت ناک لمحہ ہے، مقدس اور حسین ترین الفاظ اپنی عظمت کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں، بنیاد ”عوام“ کو بنایا جاتا ہے مثلاً پولیس کا مورال نہیں گرنا چاہئے، شرتوں کی Backپر "No Fear"اور سینوں پر ”محافظ“ لکھ کر لوگوں کو ان کے مجاہد اول و آخر کا درس دیا جاتا ہے۔یہ سب عمل کی عدالت میں ایک مہذب ترین انتظامی حربہ سازی ہے، شہری اپنی، اپنے ملک کی انتظامی فورسز کے سامنے صرف اور صرف ”غلام“ ہے، بس ملک کا نام ”پاکستان“ ہے۔پولیس کے ان رویوں کو تبدیل کرنے کے لیے موجودہ آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے جو اقدامات کیے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔پولیس کا محکمہ ایک ایسا ادارہ ہے جس پر ہر وقت طرح طرح الزامات لگتے رہتے ہیں۔ عموماً پولیس کے اچھے کام کو اتنی پذیرائی نہیں ملتی جتنا ان کے برے کام یا غلطی پر شور مچایا جاتا ہے۔ جس طرح کسی بھی ادارے میں اچھے یا برے لوگ ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح پولیس میں بھی اسی قسم کا معاملہ ہے ۔پولیس میں جہاں بہت ہی برے اور بدعنوان افسر و ملازمان بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں، وہیں بہادر اور فرض شناس لوگ بھی کم نہیں ہیں۔ اپنی کم تنخواہ اور ناکافی سہولتوں کے باوجود جس طرح اپنا فرض نبھاتے ہوئے یہ لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اس کی مثال کسی اور نوکری میںنہیں ملتی۔ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرتے ہوئے صرف پولس والے ہی اپنی جان قربان کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ حالات چاہے کتنے ہی مشکل ہوں، ایسے پولیس والے کبھی اپنے فرض سے منہ نہیں موڑتے۔ فرض شناس اور بہادر پولیس والے کو نہ کسی بااثر سیاستدان سے کوئی خوف محسوس ہوتا ہے اور نہ ہی روپے پیسے کی لالچ اس کا ایمان کمزور کرسکتی ہے۔ ایسے ہی اچھے اور بہادر پولیس والوں کی وجہ سے محکمے کی عزت قائم ہے ورنہ گندی مچھلیوں نے تو پورا تالاب ہی گندا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔آئی جی پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور ان کی صوبہ بھر بالخصوص لاہور کی ٹیم سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ ،ڈی آئی جی انوسٹی گیشن عمران کشور ،ڈی آئی جی آپریشنز سید علی ناصر رضوی ،ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم کیپٹن ر لیاقت ملک ،ایس ایس پی آپریشنز سید علی رضا اور ایس ایس پی انوسٹی گیشن ڈاکٹر آنوش چوہدری نے شہر کو امن کا گہورہ بنانے میں جو کردارادا کیا ہے وہ قابل تعریف ہے ۔ریاست کی رٹ قائم کرنے میں اگر کوئی ادارہ متحرک ہے تو اس کانام پنجاب پولیس ہے ۔

آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک کا موسم کیسا رہے گا ؟

QOSHE - پولیس کا کردار - یونس باٹھ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

پولیس کا کردار

14 0
01.01.2024

”پاکستان میں پولیس کا کردار“، یہ عنوان حساس موضوعات سے تعلق رکھتا ہے، عملاً پاکستانی عوام، اپنی اپنی سطح پر بحیثیت مجموعی سرکاری اہلکاروں کے یرغمالی ہیں، ریاستِ پاکستان کے سرکاری اہلکاروں کی ”طبائع“ قانون کی جس تعبیر کا اطلاق کرنا چاہیں لوگوں کو، اپنی اپنی سطح پر وہی تعبیر قبول اور برداشت کرنا پڑتی ہے۔یہ ایک وسیع مگر گنجلک مسئلہ ہے جس میں پاکستانی عوام تہذیب اور توہین کے قیدی بنے رہتے ہیں۔ پولیس کے حوالے سے ہمارا آغاز 8فروری کو ملک میں عام انتخابات میں حصہ لینے والے پی ٹی آئی کے سیاستدانوں نے پنجاب پولیس پر تحریکِ انصاف کے امیدواروں کے گھروں پر چڑھائی، توڑ پھوڑ اغواءتشدد اور گرفتاریوں سمیت سنگین الزامات عائد کیے ہیں ۔دوسری جانب پنجاب پولیس ان واقعات کی مسلسل تردید کررہی ہے ۔ تاہم پاکستان بالخصوص پنجاب میں پولیس کے اس طرح کے اوچھے ہتکھنڈوں کا ریکارڈ بہت مایوس کن ہے۔اس طرح کے واقعات کی روک تھام اور ادارے کی سربلندی کے لیے اگر جزا و سزا کا نظام رائج کر دیا جائے تو پولیس کے محکمے میں تبدیلی آ سکے گی وگرنہ عوام میں مایوسی بڑھے گی اور پولیس کی وحشت ناکی بڑھتی چلی جائے گی۔ہماری عاجزانہ رائے کے مطابق مستقبل میں بھی صرف ”پولیس کی انتہا پسندی“ بڑھے گی۔ وہ لوگ جنہوں نے اس........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play