الیکشن شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے اور الیکشن کی گہما گہمی زوروں پر ہے،لیکن آپ ابھی تک اپنے امیدواروں کے انٹرویو ز میں ہی مصروف ہیں۔یہ وقت انٹرویوز کا ہر گز نہیں ہے،بلکہ امیدواروںکو عملی طور پر اپنے اپنے حلقوں میں ڈور ٹو ڈور مہم کا آغاز کردینا چاہئے۔ اگر آپ چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کی خواہش رکھتے ہےں تو آپ کو اپنا ڈرائنگ روم چھوڑ کر چاروں صوبائی دارلحکومتوں میں جانا ہو گا جس طرح آپ نے مولانا فضل الرحمن کی جماعت سے اشتراک کیا ہے اسی طرح بطور خاص پنجاب اور سندھ میں جماعت اسلامی کا تعاون بھی آپ کو کامیابی کے زینے تک پہنچا سکتا ہے ۔ اس وقت بلاول زرداری بہت تیزی دکھارہے ہیں جبکہ آپ کی جماعت کے تمام سیاسی رہنما جاتی عمرہ تک محدود ہو کر محفلیں سجائے بیٹھے ہیں،جس دن میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اس دن کی اس خبر نے مجھے مزید پریشان کردیا کہ آپ ( نواز شریف ) لاہور ،قصور اور گوجرانولہ کے امیدوارں کے خودانٹرویو کریں گے ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ یہ وقت انٹرویوز کا ہرگز نہیں ہے،بلکہ عملی طور پر ہر قومی اور صوبائی حلقوں میں اپنے کارکنوں کا لہو گرمانے کا وقت ہے ۔یاد رہے کہ عوامی جلسے اور کارنر میٹنگ رائے عامہ کو ہموار کرنے کا بڑا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ۔جو سیاسی لیڈر رائے عامہ زیادہ ہموار کرلیتا ہے ، کامیابی بھی اسی کے قدم چومتی ہے ۔ سندھی عوام سے چونکہ کسی قومی جماعت نے ممبر شپ اور رابطہ قائم نہیں کیا۔ اس لئے پچھلے دس پندرہ سالوں سے سندھی عوام پیپلزپارٹی کی مٹھی میں بند ہیں ان کو بھٹو کے نام پر بہلا لیا جاتا ہے اور وہ آسانی سے بہل بھی جاتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس دوسری جماعت کا آپشن ہی نہیں ہے۔بلاول زرداری کو پنجاب،خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے ووٹ لینے کی فکر ہے، انہیں یقین ہے ۔ چند ماہ پہلے کراچی میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں جماعت اسلامی نے خاصی محنت کی تھی، اس کا نتیجہ بھی ان کے حق میں بہت اچھا رہا ۔ مجھے یاد ہے ، کبھی مسلم لیگ(ن) بھی سندھ کی ایک مضبوط سیاسی جماعت ہوا کرتی تھی،جب وزیراعلیٰ سندھ کے منصب پر مسلم لیگی رہنما غوث علی شاہ فائز ہوا کرتے تھے، لیکن جب سے مسلم لیگ(ن) کے لوگوں نے سندھی عوام سے منہ موڑا ہے تو اس کا فائدہ پیپلز پارٹی نے بہت اچھی طرح اٹھایا ہے۔ غوث علی شاہ ، ذوالفقار کھوسہ ، نثار احمد خاں ، شاہد خاقان عباسی،جاوید ہاشمی ، پیر صابر شاہ ، سردار مہتاب عباسی، عبدالقادر بلوچ ، ثنا اللہ زہری ، اقبال جھگڑا ، محمد زبیر ، مفتاح اسماعیل کو بھی مسلم لیگ(ن)کے لوگ اس طرح بھول گئے جیسے وہ کبھی اس جماعت میں شامل ہی نہیں تھے، حالانکہ یہی لوگ آپ کو اپنے کندھے پر بیٹھا کر وزرات عظمی کی کرسی پر بیٹھا سکتے ہیں۔ انہیں آپ جہاںسے بھی کھڑا کریںگے ، وہ جیت جائیں گے ۔شاید آپ سمجھتے ہوں کہ عمران خان جیل میں ہے اس لئے اسے کوئی ووٹ نہیں ڈالے گا ۔ نہایت ادب سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف اب بھی مقبولیت کے گراف میں سب سے اوپر دکھائی دیتی ہے ۔اگر تحریک انصاف کے خلاف عدم اعتماد کرکے میاں محمد شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت نہ بنتی تو شاید عمران خان کی مقبولیت کا گراف سب سے نیچے ہوتا،لیکن اتحادی حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں نے عمران خان اور اس کی جماعت تحریک انصاف کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ہزاروں لوگ جو اب میرے رابطے میں ہیں ان کی اکثریت عمران خان کو ہی اب بھی پسندکرتی ہے۔ میرا تو آپ کو صائب مشورہ یہی ہے کہ آپ کو سب سے پہلے اپنی جماعت کے ناراض لوگوں منانا ہوگا ۔اگر مزید الیکٹبلز ہاتھ لگ جائیں تو یہ اضافی بونس تصور کریں ۔آپ کو شاید یاد ہوجب آپ 1997ءکے الیکشن میں کامیاب ہوکر وزیراعظم بنے تھے ،اس وقت پورے پاکستان میں مسلم لیگ(ن) کے پرائمری یونٹ قائم تھے، جس کے صدر ، جنرل سیکرٹری ، نائب صدر ،سمیت مجلس عاملہ کے درجنوں افراد اپنے اپنے علاقوں میں مسلم لیگ (ن) کو مستحکم بنیادوں پر استوار رکھتے تھے۔اس کے بعد کسی نے پرائمری یونٹوں کی طرف توجہ دینے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ پہلے ہر تحصیل اور ضلع میں پرائمری یونٹوں کے عہدیداروں اور کارکنوں کے وقتاً فوقتاً تنظیمی اجلاس ہوا کرتے تھے، جس میں بحیثیت قائد آپ خود بھی شریک بھی ہوا کرتے تھے ۔مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ اب مسلم لیگ(ن) کی مرکزی تنظیم صرف پنجاب کے چند شہروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ بلوچستان ، سندھ ، جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ (ن) کی ممبر سازی اور تنظیم سازی مکمل طور پر ختم ہو کر رہ گئی ۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ان تمام تنظیموں اور اداروں کو دوبارہ زندہ کردیا جائے تاکہ وہ لاہور کو دیکھنے کی بجائے اپنے اپنے صوبے میں امیدواروں کو ٹکٹیں دینے کے ساتھ ساتھ تمام امور مقامی طور پر انجام دیں ۔ مزید براں تحریک انصاف کے ووٹر کسی بھی صورت میں مسلم لیگ(ن) کو ووٹ نہیں دیں گے ۔آپ کو اپنے ہی ووٹروں کو ایک بار پھر اپنی جانب راغب کرنا ہوگا ۔یہ کام اتنا آسان نہیں ہیں۔ جتنا آپ سمجھ رہے ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کے ووٹر بھی مسلم لیگ(ن) سے بڑی حد تک متنفرہو چکے ہیں۔اس کی معمولی سی تصویر آپ کو دکھانے کی جسارت کررہا ہوں ۔ عمرانی حکومت میں پٹرول کی جو قیمت 150روپے فی لیٹر تھی ،اس قیمت پر عام لوگ عمران سے بھی متنفر ہو رہے تھے لیکن شہباز شریف حکومت نے عوام کی قوت خرید کو کچھ اس طرح کچل کے رکھ دیا کہ عوام کی حالت زار اور قوت خرید کو دیکھے بغیر تیس تیس روپے فی لیٹر کے حساب سے تین چار مرتبہ پٹرول کی قیمتوں کو کچھ اس طرح بڑھا دیا کہ اشیائے خورد نوش سمیت تمام چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں، یہی نہیں ڈالر کا ریٹ جو عمران خان کے دور میں190روپے تھا،شہباز حکومت میںوہ ڈالر 325روپے تک جا پہنچا تھا۔ ہر مہینے میں بجلی کے ریٹ آنکھیں بند کرکے اضافہ کیا جاتا رہا،اس شہباز حکومت کی مہربانی سے 50روپے تک بجلی کا یونٹ پہنچ چکا ہے ۔جب ہر مہینے بجلی کے بھاری بل غریب اور متوسط گھرانوں میں موصول ہو تے ہیں تو اگلے بل آنے تک ہر گھر میں صف ماتم بچھی ہوتی ہے۔مجبورہوکر کتنے ہی لوگ خود کشیاں کرچکے ہیں اور جو زندہ ہیں وہ بجلی کے بھاری بلوں سے ہر مہینے خوفزدہ رہتے ہیں ۔ میاں صاحب میں بذات خود شہباز شریف کو بہترین منتظم سمجھتا تھا،لیکن وزیراعظم کی حیثیت سے انہوں نے جس عوام دشمنی کا مظاہرہ کیا ہر گھر میں مہنگائی کی وجہ سے صف ماتم کا ماحول پیدا کر دیا ہے،لوگ کہتے ہیں کہ شہباز شریف نے آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لئے عوام کا کچومر نکال دیا ہے اب شہباز شریف ووٹ بھی آئی ایم ایف سے ہی مانگے۔اس وجہ سے لیگی ووٹر بھی مسلم لیگ(ن) سے نفرت کرنے لگے ہیں۔آخر میں یہی گزارش کروں گا کہ شہباز شریف کو عوامی جلسوں سے دور ہی رکھیں ،اگر آپ نے مریم نواز اور حمزہ شہباز کی بجائے شہباز شریف کو عوام کے سامنے ووٹ مانگنے کے لئے بھیجا تو یہ الیکشن تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی جھولی میں جا گرے گا ۔

آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک کا موسم کیسا رہے گا ؟

٭٭٭٭٭

QOSHE -    ایک ووٹر کا نوازشریف کے نام کھلا خط - اسلم لودھی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

   ایک ووٹر کا نوازشریف کے نام کھلا خط

14 0
01.01.2024

الیکشن شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے اور الیکشن کی گہما گہمی زوروں پر ہے،لیکن آپ ابھی تک اپنے امیدواروں کے انٹرویو ز میں ہی مصروف ہیں۔یہ وقت انٹرویوز کا ہر گز نہیں ہے،بلکہ امیدواروںکو عملی طور پر اپنے اپنے حلقوں میں ڈور ٹو ڈور مہم کا آغاز کردینا چاہئے۔ اگر آپ چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کی خواہش رکھتے ہےں تو آپ کو اپنا ڈرائنگ روم چھوڑ کر چاروں صوبائی دارلحکومتوں میں جانا ہو گا جس طرح آپ نے مولانا فضل الرحمن کی جماعت سے اشتراک کیا ہے اسی طرح بطور خاص پنجاب اور سندھ میں جماعت اسلامی کا تعاون بھی آپ کو کامیابی کے زینے تک پہنچا سکتا ہے ۔ اس وقت بلاول زرداری بہت تیزی دکھارہے ہیں جبکہ آپ کی جماعت کے تمام سیاسی رہنما جاتی عمرہ تک محدود ہو کر محفلیں سجائے بیٹھے ہیں،جس دن میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اس دن کی اس خبر نے مجھے مزید پریشان کردیا کہ آپ ( نواز شریف ) لاہور ،قصور اور گوجرانولہ کے امیدوارں کے خودانٹرویو کریں گے ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ یہ وقت انٹرویوز کا ہرگز نہیں ہے،بلکہ عملی طور پر ہر قومی اور صوبائی حلقوں میں اپنے کارکنوں کا لہو گرمانے کا وقت ہے ۔یاد رہے کہ عوامی جلسے اور کارنر میٹنگ رائے عامہ کو ہموار کرنے کا بڑا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ۔جو سیاسی لیڈر رائے عامہ زیادہ ہموار کرلیتا ہے ، کامیابی بھی اسی کے قدم چومتی ہے ۔ سندھی عوام سے چونکہ کسی قومی جماعت نے ممبر شپ اور رابطہ قائم نہیں کیا۔ اس لئے پچھلے دس پندرہ سالوں سے سندھی عوام پیپلزپارٹی کی مٹھی میں بند ہیں ان کو بھٹو کے نام پر بہلا لیا جاتا ہے اور وہ آسانی سے بہل بھی جاتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس دوسری جماعت کا آپشن ہی نہیں ہے۔بلاول زرداری کو پنجاب،خیبرپختونخوا اور........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play