دفتر اور فائل لازم و ملزوم ہوتے ہیں کسی بھی دفتر کی کارکردگی کا انحصار اس دفتر کے فائل ورک کے معیار پر ہوتا ہے۔ شاید اسی لئے فائل کے بنانے، چلانے اور اس کو محفوظ بنانے کی بابت باقاعدہ قواعد و ضوابط مرتب کئے گئے تھے۔ ایک وقت تھا جب کوئی اہلکار یا افسر اگر ان قواعد و ضوابط پر عمل نہ کرنے کا مرتکب پایا جاتا تو اس کو انکوائری کے عمل سے گزار کر مائنر اور میجر سزاو_¿ں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لہٰذا ایک خوف تھا جو ہر کسی کو ناک کی سیدھ میں چلنے پر مجبور کرتا تھا۔ یہی سرکاری امور میں صراط مستقیم اور مذکورہ قواعد وضوابط اس پر قائم رکھنے کے لئے قوت نافذہ کا کردار ادا کرتے تھے۔ پھر درگزر کا دور شروع ہوا اور فائلوں کو پہیے لگنے شروع ہو گئے، فائلوں میں ردوبدل شروع ہو گیا کاغذات غائب اور بعض اوقات تو پوری کی پوری فائل ہی غائب۔ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری،بلکہ بانسری بجانے والے آئیں بائیں شائیں۔ اس کے بعد صورتحال روز بروز بگڑتی گئی۔ بڑے بڑے فراڈ بڑے بڑے سکیم اور بڑے بڑے سکینڈل اور پھر انکوائری پر انکوائری مقدمے پر مقدمہ اور پھر سزا کا تناسب زیرو، فائلیں بند اور خوف ختم، فائلوں کا تیا پانچہ۔ فائل کی تلاش میں اگر کوئی شوریدہ سر نکلے گا تو اس کو پانچ سات جوتیاں لازمی تڑوانا ہوںگی، بلکہ ہو سکتا ہے دو تین نسلوں کی قربانی ہی دینا پڑ جائے۔یہ وہ حالات تھے جب سرکاری دفتروں کے بارے میں بات کے بتنگڑ بن گئے۔ سرکاری کارندوں کے پاس بات کرنے کا بھی وقت نہیں ہے اور سرکاری امور بظاہر برق رفتاری سے سر انجام دیئے جارہے ہیں۔ اہلکاروں اور افسروں کے گرد فائلوںکے انبار لگے ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال دیکھ کر آنے والے سائل کی مت ماری جاتی ہے۔ اس کو اپنی فائل کی حرکات و سکنات معلوم کرنے کے لئے ایک اعصابی جنگ لڑنا پڑتی ہے اور جنگ جیتنے کی صورت میں فائل اصل حالت میں محفوظ رہنے کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مجھے ذاتی طور پر ایک دفعہ یہ بحر بے کراں عبور کرنا پڑا۔ ہوا کچھ یوں کہ میرے دفتر کا ایک معاملہ کسی دیگر دفتر میں اٹکا ہوا تھا اور ہماری فائل آگے پیچھے آ جا رہی تھی اور ہم سرکاری انداز سے اس کو دیکھ دکھا رہے تھے۔ ایک روز میرے افسر نے مجھے یہ احساس دلایا کہ فائل نکلوانے کے لئے فائل کے ساتھ ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ یوں میں نے کمر کس لی اور فائل کی تلاش میں چل نکلا۔ دو تین دن تو یہ گوہر نایاب بالکل ہی نایاب ہو گیا۔ بالآخر ایک خدا کا بندہ وہاں مجھے ملا جس نے مجھ پر کمال مہربانی کی اور متذکرہ بالا فائل کی لوکیشن بتادی جس پر میں متعلقہ صاحب بہادر کے حضور پیش ہوا جو مقام و مرتبہ میں میرے دائیں بائیں تھے۔ میں نے اپنا تعارف کروایا اور فائل مذکور کی ڈسپوزل کی بابت عرض کی۔ انہوں نے بھی بڑے تحمل سے میری بات سنی اور فرمایا کہ فائل تو آگے چلی ہی جائے گی آپ مجھے یہ بتائیں آپ کو اس فائل کی بابت کس نے بتایا ہے۔ یہ سن کر مجھے ایک نفسیاتی جھٹکا لگا اور میں نے بس اتنا عرض کیا کہ آپ فائل اپنے پاس ہی رکھیں، لیکن اس غریب کے بچے کو معاف کردیں جس کو سچ بولنے کی عادت پڑ گئی ہے اور یہ کہہ کر میں خود وہاں سے نودو گیارہ ہو گیا۔

آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک کا موسم کیسا رہے گا ؟

یہ پس منظر بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہمارے دفاتر میں فائلوں کا کیا کھیل جاری ہے اور تماشہ ہے جو لگا ہوا ہے بلکہ فائلوں کا پتلی تماشہ اور ڈور پتہ نہیں کس کے ہاتھ میں ہے۔ بظاہر بے شمار اہلکار اور افسر ہیں جو دن رات ایک کر رہے ہیں، لیکن عوام میں سرکاری دفاتر کا امیج بہتر ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ یہ وہ مرض ہے جو سرطان کی طرح پورے نظام کو اندر ہی اندر کھائے جارہا ہے اور ہم فائل کے چنگل سے نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ سونا بھی پتل بلکہ مٹی بن رہا ہے۔اصل میں معاملہ گہری سوچ بچار کا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تشخیص کا مرحلہ ہوتا ہے۔مرض کی تشخیص صحیح ہوجائے تو علاج کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا ہے۔محترم زاہد اختر زمان موجودہ چیف سیکرٹری پنجاب ایک سنجیدہ اور چیزوں کا گہرا شعور رکھنے والے افسر ہیں۔ وہ معاملات میں موجود خرابیوں پر پریشان بھی ہوتے ہیں اور پھر ہوشمندی اور دانشمندی سے حل نکال کر چیزوں کو منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے بے شمار اقدامات قابل ذکر ہیں۔ تاہم زیر نظر تحریر میں زیر بحث معاملہ فائل، دفتر اور عوام کا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اس اہم مسئلہ کی حساسیت کو محسوس کیا اور پھر الیکٹرانک فائلنگ آفس آٹو میشن سسٹم کا ایک پروگرام نہ صرف متعارف کروایا،بلکہ جملہ سربراہان کو پابند کیا کہ وہ اس نظام کو ہر صورت میں لاگو کریں۔ مذکورہ نظام کے تحت ساری کاغذی کاروائی ختم۔ الیکٹرانک سسٹم کے تحت فائل بنانے، چلانے اور اس کو محفوظ کرنے کا مربوط نظام نافذالعمل ہو چکا ہے۔ اب فائل کی بابت جاننے کے لئے کسی بابو کے منت ترلے کی ضرورت نہیں ہے۔ فائل ایک سسٹم کے تابع ہو چکی ہے۔اہلکار اور افسر دونوں پر نفسیاتی دباو_¿ ہے کہ فائل کی تاخیر کو دیکھا بھی جائے گا اور کسی کی بدنیتی کے نتیجے میں گرفت بھی کی جائے گی۔فائل کا ایک ایک لفظ اور ہر کاغذ مرکزی ڈیٹا بیس میں محفوظ و مامون ہے۔اس ای فائلنگ سسٹم سے سب سرکاری دفتروں کا کلچر ہی تبدیل ہو جائے گا۔ صحیح سمت میں سوچ بچار کرنے سے اداروں کی کارکردگی بہتر کی جا سکتی ہے اور یوں ان اداروں پر عوام کا اعتماد بھی بحال کیا جا سکتا ہے۔ اصل مسئلہ تو عوام کا ہے اور عوامی رائے ہی اصل رائے ہوتی ہے، جس نے بھی عوام کے لئے کچھ کیا ہے عوام نے اس کے نام کے ڈنکے بجائے ہیں۔ ویسے بھی کام بولتا ہے اور ایک نہ ایک دن ہر کام کرنے والے کی ستائش کی جاتی ہے۔ گذشتہ دنوں ڈاکٹر ارشاد احمد سیکرٹری لوکل گورنمنٹ اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہوئے ہیں۔انہوں نے ہمیشہ لگن، جانفشانی، محنت اور دیانتداری کو اپنا شعار بنایا ہے۔اس سلسلے میں بھی چیف سیکرٹری پنجاب نے ایک نیا قدم اٹھایا ہے کہ ایڈمنسٹریٹو سیکرٹریز کی میٹنگ میں ڈاکٹر ارشاد احمد کو بھر پور خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ یوں موجودہ افسروں کی موٹیویشن کے لئے ان کا یہ عمل قابل ِ تحسین بھی ہے اور قابل ِ تعریف بھی ہے۔ ستائش اور حوصلہ افزائی سے ٹیم کا مورال اپ کرنا لیڈر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔افرادی قوت کی اہلیت اور اداروں کے انفراسٹرکچر پر بھی موجودہ حکومت خصوصی توجہ دے رہی ہے اس سے اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور ان اداروں اور عوام کے درمیان پائے جانے والے فاصلوں کو کم کر کے عوام کا ان اداروں پر اعتماد بحال کیا جا سکتا ہے۔اب افسروں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان اصلاحات کی کامیابی کو یقینی بنائیں اور اپنے سربراہ کی بصیرت کے مطابق اپنے درمیان احتساب کے نظام کو لاگو کریں اور اداروں کے نظم و نسق اور کارکردگی کو بہتر بنا کر گڈ گورننس کی عملی شکل پیش کریں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (پیر) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE -  چیف سیکرٹری پنجاب اور ای فائلنگ سسٹم  - شفقت اللہ مشتاق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 چیف سیکرٹری پنجاب اور ای فائلنگ سسٹم 

14 0
01.01.2024

دفتر اور فائل لازم و ملزوم ہوتے ہیں کسی بھی دفتر کی کارکردگی کا انحصار اس دفتر کے فائل ورک کے معیار پر ہوتا ہے۔ شاید اسی لئے فائل کے بنانے، چلانے اور اس کو محفوظ بنانے کی بابت باقاعدہ قواعد و ضوابط مرتب کئے گئے تھے۔ ایک وقت تھا جب کوئی اہلکار یا افسر اگر ان قواعد و ضوابط پر عمل نہ کرنے کا مرتکب پایا جاتا تو اس کو انکوائری کے عمل سے گزار کر مائنر اور میجر سزاو_¿ں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لہٰذا ایک خوف تھا جو ہر کسی کو ناک کی سیدھ میں چلنے پر مجبور کرتا تھا۔ یہی سرکاری امور میں صراط مستقیم اور مذکورہ قواعد وضوابط اس پر قائم رکھنے کے لئے قوت نافذہ کا کردار ادا کرتے تھے۔ پھر درگزر کا دور شروع ہوا اور فائلوں کو پہیے لگنے شروع ہو گئے، فائلوں میں ردوبدل شروع ہو گیا کاغذات غائب اور بعض اوقات تو پوری کی پوری فائل ہی غائب۔ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری،بلکہ بانسری بجانے والے آئیں بائیں شائیں۔ اس کے بعد صورتحال روز بروز بگڑتی گئی۔ بڑے بڑے فراڈ بڑے بڑے سکیم اور بڑے بڑے سکینڈل اور پھر انکوائری پر انکوائری مقدمے پر مقدمہ اور پھر سزا کا تناسب زیرو، فائلیں بند اور خوف ختم، فائلوں کا تیا پانچہ۔ فائل کی تلاش میں اگر کوئی شوریدہ سر نکلے گا تو اس کو پانچ سات جوتیاں لازمی تڑوانا ہوںگی، بلکہ ہو سکتا ہے دو تین نسلوں کی قربانی ہی دینا پڑ جائے۔یہ وہ حالات تھے جب سرکاری دفتروں کے بارے میں بات کے بتنگڑ بن گئے۔ سرکاری کارندوں کے پاس بات کرنے کا بھی وقت نہیں ہے اور سرکاری امور بظاہر برق رفتاری سے سر انجام دیئے جارہے ہیں۔ اہلکاروں اور افسروں کے گرد فائلوںکے انبار لگے ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال دیکھ کر آنے والے سائل کی مت ماری جاتی ہے۔ اس........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play