آج نئے سال کا پہلا روز ہے مغربی دنیا خوشی سے استقبال کررہی ہے تاہم مسلم ممالک اس میں پہلے جیسا حصہ نہیں لے سکتے، شارجہ کی طرف سے ہر قسم کی تقریبات ختم کر دی گئیں اور ہمارے نگران وزیراعظم نے بھی اپیل کر دی بلکہ زور دیا ہے کہ نئے سال کی آمد سادہ ہی منائی جائے اور دعا کریں کہ یہ سال دنیا کے لئے برکت کا باعث ہو اور امن کا خواب پورا ہوجائے انہوں نے فلسطینی بھائیوں سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا اور اسرائیل کی پرزور مذمت کرتے ہوئے مکمل طورپر جنگ بندی کا مطالبہ کیا کہ غزہ میں انسانی المیہ پیدا ہو چکا ہے۔

یوکرین کا روس پر جوابی حملہ، 14 افراد ہلاک

وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے، نہ صرف ہم پاکستانیوں اور مسلم ممالک کو ایسا کرنا چاہیے بلکہ انسانیت کے علمبردار، ٹھیکے دار ممالک کو بھی ایسے ہی رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ غزہ میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے اس کی مثال تو جنگ عظیم اول و دوم میں نہیں ملتی اس لئے یہ خوشی کا وقت نہیں ہے۔جہاں تک ہم پاکستانیوں کا تعلق ہے تو ہمارے دل فلسطینی بھائیوں کے لئے دھڑکتے ہیں اور یوں بھی ہم کون سے شاہانہ ملک کے باسی ہیں یہاں بھی تو بھوک اور بے روزگاری نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ملک میں نفسا نفسی ہے اور صدمے پر صدمہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کھیل کے میدانوں سے بھی مایوس کن خبریں ہی آئی ہیں، معاشی حالت اور امن و امان اپنی جگہ خراب ہے کہ یہ خرابی انفرادی سطح پر بھی آ گئی ہے اور قومی ذہن اور دین کی پیروی والے نظر ہی نہیں آتے، کھیلوں میں ہم نے ہاکی اور سکوائش میں نقش چھوڑے تو کرکٹ کے میدان میں جھنڈے گاڑھے تھے لیکن کسی کی نظر کھا گئی، ہاکی اور فٹ بال پاتال میں چلے گئے اور کرکٹ مسلسل زوال پذیر ہے۔

وہ حلقہ جہاں سب سے زیادہ کاغذاتِ نامزدگی مستردہوئے

میں نے اپنے شوق اور دلچسپی کے ساتھ ساتھ وسیع تر تجربے کی وجہ سے کہا تھا کہ کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیئرمین کے ہاتھوں کرکٹ دفن ہو جائے گی اور ایسا ہی ہو رہا ہے، ہمارے شاہین پرواز بھول گئے اور جیتا ہوا میچ ہارنے سے سابقین کی پیروی کر دی کہ پاکستان کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا کی سرزمین پر کبھی فتح نہیں سمیٹی، دوسرا ٹیسٹ تو بیٹر حضرات کی وجہ سے گیا کہ فیلڈنگ بھی معیاری نہیں تھی، اسی کے نتیجے میں مارش کو اس وقت رخصت نہ کیا جا سکا جب ان کے 20سکور تھے، یہ ایک آسان کیچ تھا جو دو فیلڈر بھی نہ لے سکے۔ اس بار باﺅلرز نے محنت کی اور اچھی بولنگ سے آسٹریلیا کی ٹیم کو بڑا سکور نہ کرنے دیالیکن بیٹنگ فلاپ ہو گئی۔ پونے دو روز ملے لیکن کوئی بھی بیٹر وکٹ پر نہ ٹھہر سکا اور اب آسٹریلیا کی باﺅلنگ کی تعریف شروع کر دی گئی ہے، کپتان شان مسعود نے جواب دیا کہ آسٹریلین کپتان نے بہترین باﺅلنگ کی، کیسا جواب ہے، اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے پہلے شکست پر کہا غلطیوں سے سیکھیں گے۔ دوسرے میں سیکھا کہ ہار کا فرق کافی زیادہ کم ہو گیا لیکن اس کے لئے داد دینا چاہیے اپنے تیز باﺅلروں کو کہ ا ب انہوں نے تو وکٹ کے مطابق گیند پھینک کر آسٹریلیا کے بیٹر حضرات کو بڑا سکور نہیں کرنے دیا، لیکن یہ شاہینوں کی روایت ہے کہ وہ ایسی محنت پر پانی پھیرنے میں بڑے ماہر ہیں سو انہوں نے میچ ہار دیا۔

پنجاب کے بعد خیبرپختونخوا میں بھی سکولوں کی چھٹیوں میں توسیع

ماضی کے سپن باﺅلر اور حالیہ کوچ مشتاق احمد نے سابق کپتان بابراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کرکٹ سے تھوڑا وقفہ لے کر آرام کرلیں تاکہ پھر سے اپنی فارم بحال کر سکیں۔ میرے خیال میں یہ صائب تجویز ہے کہ بابراعظم بہت بڑا اور ریکارڈ ہولڈر ہے اور ابھی تو اس کے لئے میدان کھلا ہے کئی اور ریکارڈ بنانا ہیں۔ میں تو یہ خیال کررہا تھا کہ بابراعظم کو شاید کسی ماہر نفسیات کے ساتھ ایک بیٹھک کی ضرورت ہے کہ ہمارے بورڈ چیئرمین نے واضح طور پر ان کے خلاف گروپنگ اور ڈھکے چھپے الفاظ میں فکسنگ کے الزام لگا دیئے ہیں، بابر بھی انسان ہے، اس کا متاثر ہونا لازم ہے اور ان تمام حالات کا اس کی کارکردگی پر اثر پڑا ہے حالانکہ میرا خیال تھا کہ یہ میچ جیتنے میں اس کا اہم کردار ہوگا، جہاں تک رضوان کا تعلق ہے تو اس نے بیٹنگ کے شعبہ میں زیادہ اچھی کارکردگی نہیں دکھائی لیکن وکٹ کیپنگ کے حوالے سے ماہرین کرکٹ سے داد وصول کرلی ہے اور اس میں اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی، مشتاق سے بھی پہلے برادرم راشد لطیف نے تنقید کی اور پوری ٹیم میں سے ان کو بھی بابر اعظم نظر آیا اور اسی سے مایوسی ہوئی۔ سرفراز احمد سے نہ ہوئی جو نہ تو سکور کر سکا اور نہ ہی وکٹ کپنگ معیاری کی، حتیٰ کہ ایک سٹمپ بھی نہ کر سکے۔

چاہت فتح علی خان کے کاغذات نامزدگی مسترد ،وجہ کیا بنی ؟ جانیے

مجھے کرکٹ کی سیاست سے کوئی غرض نہیں، لیکن یہ عرض کروں گا کہ ہمارے ”مہربان کرکٹ بورڈ حکام“ اور بعض کوچز نے ہمارے ملکی ٹیلنٹ کو برباد کرنے میں اہم کردار ادا کیا، ماضی میں جاﺅں تو قسمت کی یاوری کی دو مثالیں دے سکتا ہوں، اسلامیہ کالج اور پھر گورنمنٹ کالج کے اوپنر سلطان مثالی کھلاڑی تھے۔ عبدالحفیظ کاردار نے ان کو ٹیم میں لینے کی بہت کوشش کی لیکن وہ ہمیشہ فیل ہوتے رہے کہ فرسٹ کلاس سے آگے نہ بڑھ پائے۔ ایسے ہی ایک کھلاڑی منصور احمد تھے عمران خان نے بہت کوشش اور حمائت کی لیکن وہ بھی قسمت کے دھنی ثابت ہوئے ایک ہمارے پرانے محلے دار پرویز تھے جو ریلوے کی طرف سے کھیلے،وہ بہت زیادہ فارم میں تھے، ان کی تکنیک سعید احمد سے بھی بہتر اور تیز کھیلنے والے تھے، قسمت کی نامہربانی کہ گھڑ سواری کے شوق میں ٹانگ تڑوا بیٹھے، جہاں تک موجودہ ٹیم کا تعلق ہے تو اب چیئرمین کا یہ حق بنتا ہے کہ اوپر سے لے کر نیچے تک سب بیٹرز کو فارغ کر دیں اور ورلڈکپ کی ناکامی کی طرح کا ایکشن لیں اور پوری ٹیم مینجمنٹ بھی فارغ کر دیں، یوں بھی پروفیسر حفیظ صاحب کی گردن میں بہت سخت سریا آ گیا ہے کہ بات کرتے وقت ان کی بدن بدلی ہی تبدیل ہو گئی ہے، میں نے پہلے ذکر کیا پونے دو دن اور 310سکور، اگر کھلاڑی تحمل سے وکٹ پر کھڑے ہو کر کھیلتے تو یہ ناممکن نہیں تھا، خوف کو بالائے طاق رکھ کر وکٹ پر کھڑے ہونا کمال ہوتا اور میچ جیتا جاتا۔ ایک دوست نے شان مسعود کی بالواسطہ تعریف کی کہ رک کر کھیلنے کی بجائے بے خوف اور تیز کھیلنا چاہیے تھا، وہ یہ بھول گئے کہ موصوف نے سنجیدگی کا ثبوت نہیں دیا ورنہ ان کو سکور چلانے کے ساتھ وکٹ بھی سنبھالنا چاہیے تھی، بے خوف اور وکٹ پر کھڑا ہونا دو مختلف موضوع ہیں ، بے خوف ہو کر بھی وکٹ پر ٹھہرنا ہی اچھا عمل ہوتا اور سکور وقت پورا کر دیتا، بہرحال اب تو یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ سربراہ صاحب بھارت گئے تو ٹیم ہار گئی اور اب آسٹریلیا گئے ہیں تو سیریز ہار دی۔

سعودی شہری نے غیرملکی ملازمہ کی شادی کرادی، فرنشڈ گھر بھی دیا

QOSHE -  نیا سال، مشکلات اور زوال کرکٹ! - چوہدری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 نیا سال، مشکلات اور زوال کرکٹ!

8 1
31.12.2023

آج نئے سال کا پہلا روز ہے مغربی دنیا خوشی سے استقبال کررہی ہے تاہم مسلم ممالک اس میں پہلے جیسا حصہ نہیں لے سکتے، شارجہ کی طرف سے ہر قسم کی تقریبات ختم کر دی گئیں اور ہمارے نگران وزیراعظم نے بھی اپیل کر دی بلکہ زور دیا ہے کہ نئے سال کی آمد سادہ ہی منائی جائے اور دعا کریں کہ یہ سال دنیا کے لئے برکت کا باعث ہو اور امن کا خواب پورا ہوجائے انہوں نے فلسطینی بھائیوں سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا اور اسرائیل کی پرزور مذمت کرتے ہوئے مکمل طورپر جنگ بندی کا مطالبہ کیا کہ غزہ میں انسانی المیہ پیدا ہو چکا ہے۔

یوکرین کا روس پر جوابی حملہ، 14 افراد ہلاک

وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے، نہ صرف ہم پاکستانیوں اور مسلم ممالک کو ایسا کرنا چاہیے بلکہ انسانیت کے علمبردار، ٹھیکے دار ممالک کو بھی ایسے ہی رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ غزہ میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے اس کی مثال تو جنگ عظیم اول و دوم میں نہیں ملتی اس لئے یہ خوشی کا وقت نہیں ہے۔جہاں تک ہم پاکستانیوں کا تعلق ہے تو ہمارے دل فلسطینی بھائیوں کے لئے دھڑکتے ہیں اور یوں بھی ہم کون سے شاہانہ ملک کے باسی ہیں یہاں بھی تو بھوک اور بے روزگاری نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ملک میں نفسا نفسی ہے اور صدمے پر صدمہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کھیل کے میدانوں سے بھی مایوس کن خبریں ہی آئی ہیں، معاشی حالت اور امن و امان اپنی جگہ خراب ہے کہ یہ خرابی انفرادی سطح پر بھی آ گئی ہے اور قومی ذہن اور دین کی پیروی والے نظر ہی نہیں آتے، کھیلوں میں ہم نے ہاکی اور سکوائش میں نقش چھوڑے تو کرکٹ کے میدان میں جھنڈے گاڑھے تھے لیکن کسی کی نظر کھا گئی، ہاکی اور فٹ بال........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play