اکیسوی صدی کا ایک اور سال اختتام پذیر ہوا چاہتا ہے اور ہم نئے سال کے کنارے پہ ہیں۔ اس حیرتوں سے بھری صدی کے ایک چوتھائی حصہ مکمل ہونے سے ہم اب صرف ایک ہی سال پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہر صدی کا پہلا کوارٹر کئی حوالوں سے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے جس میں ترقی یافتہ اقوام صدی کے بنیادی تغیرات کو بھانپ کر اپنی اپنی سمت کا تعین کر لیتے ہیں اورپھر اس کی روشنی میں اپنے اہداف کی طرف پیش قدمی ان کا بنیادی مطمع نظر ہوتا ہے۔ اس صدی کی سب سے بڑی اور حیران کن تبدیلی انسانی مشینوں کا مارکیٹ میں آنا ہے جس کے حوالیسے بہت حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہونے جا رہی ہیں جو پچھلی صدی کے لوگوں کے لیے شاید ڈرامائی بھی ہوں اور ناقابل یقین بھی۔ انسانوں کے کرنے کے بیشتر کام اب روبوٹک مشینوں کے سپرد ہونے کو ہیں اور بہت سارے ترقی یافتہ ممالک میں اس کے کامیاب تجربیکے بعد اس پہ عملی کام کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI) اب ہماری نئی نسل کے ہاتھوں میں آچکی ہے جس کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ اسے ایک طلسمات کدے کا نام ہی دیا جا سکتا ہے جس نے ہماری زندگیوں، حالات، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو براہ راست چیلنج کر دیا ہے۔اب کوئی لفظ منہ سے نکالیں اور اس پر چند سیکنڈ میں بنا بنایا مواد آپ کے ہاتھوں میں پہنچ جاتا ہے۔بچپن میں الٰہ دین کے جن والی افسانوی کہانی جن کیا حکم ہے میرے آقا پر ہر چیز حاضر کر دیتا تھا اب حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ پچھلی صدی کے لوگوں کو لگتا ہے کہ شاید اب انسانوں کے کرنے کے کام اور ذرائع بہت محدود ہو رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی اس جادونگری نے بہت سارے ایسے دروازے بھی کھول دئیے ہیں جن کا پچھلی صدیوں کے باسیوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا اور یہ تغیرات ہر صدی کا خاصہ رہے ہیں۔دنیا اب ای کامرس کی طرف منتقل ہو چکی ہے اور روزگار کے نئے اور ناقابل یقین ذرائع پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہریار آفریدی کی ایم پی او کے تحت نظر بندی کے خلاف درخواستوں پر تہلکہ خیز فیصلہ سنا دیا

جس کے پاس ایک بھی گاڑی نہیں وہ اس وقت دنیا میں گاڑیوں کو کرائے پر دینے کا سب سے بڑا بزنس کر رہا ہے۔جس کا اپنا کوئی ہوٹل نہیں اس نے ڈیجیٹلائزیشن کی رمز کو سمجھ کر دنیا بھر کی ہوٹلز کمپنیوں کو اپنے ساتھ منسلک ہونے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہوٹل بکنگ کے لیے مالکان اور ٹورسٹ دونوں اسی کی طرف دیکھنے لگے ہیں۔ اپنا ایک بھی سٹور نہ رکھنے والوں نے اسی صدی کے جنیاتی زاوئیے کو بھانپ کر اتنے بڑے سٹورز بنا دئیے ہیں جن میں دنیا سما گئی ہے۔ لوگوں کو اب زمین پر جگہ بنانے کی نہیں بلکہ آن لائن سٹور ز میں تخیلاتی سپیس خریدنا پڑ رہی ہے جس کے وہ پیسے بھی دے رہے ہیں اور وہاں سے بزنس بھی کر رہے ہیں۔ ڈیٹا کو محفوظ کرنے کے لیے اب کلاؤڈ سپیس کی اصطلاح وجود میں آ چکی ہے جس میں آپ کو کسی قسم کی کوئی ڈرائیو پاس رکھنے کی ضرورت ہے نہ اس کے گم یا خراب ہونے کا خوف اور اب آپ اپنا تمام تر ڈیٹا بادلوں کی سپیس میں جمع کروا تے چلے جا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کا برقی رابطہ جو سمندری راستوں سے بندھا ہوا تھا وہ بھی اب فضاؤں میں سیٹلائٹ پر منتقل ہونے کو ہے جس پر بیشتر کام ہو چکا ہے اور یہ معاملہ بھی اب بہت زیادہ دور نہیں ہے۔دوسرے سیاروں پر کمندیں ڈالنے اور وہاں سپیس کی خریداری کا حیرت انگیز عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ اس ساری تحریر کے تناظر میں دراصل ہم ایک تخیلاتی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں اب بیشتر چیزیں حسیات سے کوسوں دور بلکہ ناقابل شناخت ہیں لیکن ہم اس پر غیر محسوس طریقے سے حسیاتی یقین کے دور میں داخل ہو کر اس کو کلیتاً عملی طور پر اختیار بھی کر چکے ہیں۔ شاید یہ ہی وہ دور ہے جو دراصل خدا کے وجود پر یقین کا سب سے بہتر اور بڑا استعارہ بن رہا ہے جہاں ہر چیز حسیات میں آئے بغیر ہمارے یقین کا محور بن چکی ہے۔

لڑکے کے بازؤں میں ہڈیاں نہیں ہیں، اتنے لچکدار بازو آپ نے پہلے نہیں دیکھے ہوں گے

یہ تمام تر نیرنگیاں اس ذہن کی تخلیق کردہ ہیں جسے کسی خالق نے وجود بخشا ہے۔وہ انسانی دماغ جو اپنی تخلیق اور صلاحیت کادسواں حصہ بھی مکمل کام بھی نہیں لا سکا اور اس کے باوجود اس نے تمام حسیات کو شکست دے دی ہے۔ یہ شکست دراصل خدا کے وجود کا انکار کرنے والوں کے نظرئیے کو ہوئی ہے جو اب اس کی تخلیق کے مظاہر کی غیر حسیاتی وجودیت کو تسلیم کرنے اور اسے اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور یہی وہ خدائی طاقت ہے جو اس صدی کے طلسمات میں دکھائی دے رہی ہے۔ یہی وہ حقیقی پس منظر ہے جو دراصل اب منظروں میں سرائیت ہوتا ہوا محسوس کیا جا سکتا ہے اور یہی وہ وجود حقیقی ہے جس نے ہمیں بے وجودی حسیات پر تیقّن پہ مجبور کر دیا ہے۔ خدا کی شناخت کے اس نئے زاوئیے اور مظہر پر خوشی اپنی جگہ لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ یہ غیر حسیاتی دریافت جو حقیقت سے روشناس کروانے کی طرف ایک جاندار اور توانا جواز فراہم کر رہی ہے اس کا سہرا ان لوگوں کے سر نہیں جنھیں دراصل اس کی طرف متوجہ ہونے اور ذرے ذرے میں اس کے وجود کو تلاش کرنے کا حکم کتاب زندہ میں صدیوں سے دیا جا رہا ہے۔ اگر خدا کی تلاش اور اس کے وجود کو محسوس کرنے کی عملی مشق کرنی ہے تو اس صدی کے تخلیقی غیر حسیاتی عناصر کا ہر زاویہ آپ کو اس کی ذات کے وجودی تیقن اور شاخت کے قریب تر کرتا چلا جائے گا۔ اس طلسماتی صدی کے ایک اور نئے سال 2024ء کی آمد مبارک۔

کنول شوذب کے تجویز و تائید کنندہ گرفتار کر لیے گئے، پی ٹی آئی کا دعویٰ

QOSHE -          طلسماتی صدی کا  نیا سال مبارک - سرور حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         طلسماتی صدی کا  نیا سال مبارک

18 0
30.12.2023

اکیسوی صدی کا ایک اور سال اختتام پذیر ہوا چاہتا ہے اور ہم نئے سال کے کنارے پہ ہیں۔ اس حیرتوں سے بھری صدی کے ایک چوتھائی حصہ مکمل ہونے سے ہم اب صرف ایک ہی سال پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہر صدی کا پہلا کوارٹر کئی حوالوں سے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے جس میں ترقی یافتہ اقوام صدی کے بنیادی تغیرات کو بھانپ کر اپنی اپنی سمت کا تعین کر لیتے ہیں اورپھر اس کی روشنی میں اپنے اہداف کی طرف پیش قدمی ان کا بنیادی مطمع نظر ہوتا ہے۔ اس صدی کی سب سے بڑی اور حیران کن تبدیلی انسانی مشینوں کا مارکیٹ میں آنا ہے جس کے حوالیسے بہت حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہونے جا رہی ہیں جو پچھلی صدی کے لوگوں کے لیے شاید ڈرامائی بھی ہوں اور ناقابل یقین بھی۔ انسانوں کے کرنے کے بیشتر کام اب روبوٹک مشینوں کے سپرد ہونے کو ہیں اور بہت سارے ترقی یافتہ ممالک میں اس کے کامیاب تجربیکے بعد اس پہ عملی کام کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI) اب ہماری نئی نسل کے ہاتھوں میں آچکی ہے جس کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ اسے ایک طلسمات کدے کا نام ہی دیا جا سکتا ہے جس نے ہماری زندگیوں، حالات، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو براہ راست چیلنج کر دیا ہے۔اب کوئی لفظ منہ سے نکالیں اور اس پر چند سیکنڈ میں بنا بنایا مواد آپ کے ہاتھوں میں پہنچ جاتا ہے۔بچپن میں الٰہ دین کے جن والی افسانوی کہانی جن کیا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play