الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے بعد ملک بھر میں سیاسی اور انتخابی سرگرمیاں ابھی عروج پر تو نہیں پہنچیں لیکن شروع ضرور ہو چکی ہیں۔ کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور جمع کرائے گئے ان کاغذات کی سکروٹنی کا عمل جاری ہے، چند روز میں واضح ہو جائے گا کہ کون‘ کہاں سے الیکشن لڑے گا، اس بار 28626 امیدواروں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات جمع کرائے ہیں‘ جو ایک نیا ریکارڈ ہے‘ کیونکہ اس سے پہلے کبھی اتنی بڑی تعداد میں کاغذاتِ نامزدگی جمع نہیں کرائے گئے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی حلقوں میں انتخابات میں حصہ لینے کا جذبہ اب بھی موجزن ہے، عوام کو بھی الیکشن میں ایسے ہی جوش و جذبے کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ملک میں جمہوریت کی بقا اور استحکام کے لیے بے حد ضروری ہے کہ الیکشن والے دن لوگ باہر نکلیں اور اپنی رائے کا بھرپور اظہار کریں، آنے والے دنوں میں ظاہر ہے سیاسی جلسے جلوس ہوں گے‘ کارنر میٹنگز ہوں گی‘ سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی جانب سے اپنے ووٹروں کے ساتھ نئے نئے وعدے کیے جائیں گے اور پرانے دعووں کو دہرایا جائے گا، اس طرح اگلا تقریباً سوا مہینہ پاکستان میں سیاسی غلغلہ جاری رہے گا‘ لیکن بڑا عجیب محسوس ہوتا ہے جب الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے شیڈول کا اعلان کر دیے جانے کے باوجود الیکشن کی مقررہ تاریخ (یعنی آٹھ فروری 2024) کو منعقد ہونے کے بارے میں مبہم بیانات سامنے آتے ہیں‘ انتخابات چند روز آگے یا پیچھے ہونے کی بات کی جاتی ہے۔ پتا نہیں ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ گزشتہ ڈیڑھ برسوں میں ہم سب نے مشاہدہ کیا کہ انتخابات مقررہ وقت پر نہ ہونے کے کیا کیا سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی نقصانات سامنے آتے ہیں۔ گزشتہ تقریباً ایک سال سے ملک بھر میں ایک غیر یقینی فضا قائم ہے جس کے اثرات تمام تر شعبہ ہائے زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں‘ اور سبھی ان اثرات کو محسوس بھی کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلیوں میں آئینی میعاد کے اندر الیکشن نہ کرائے جا سکے۔ اب قومی اور دیگر 2 صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل ہوئے بھی ساڑھے چار ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور اب کہیں جا کر ملک میں الیکشن کے آثار نمودار ہو رہے ہیں، ایسے میں ابہام پیدا کرنا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے ذہن پر بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ الیکشن کی تاریخ اور انتخابی شیڈول جاری ہو چکا ہے تو ضروری ہے کہ ابہام پیدا نہ کیے جائیں اور مقررہ تاریخ کو الیکشن کرانے کا ڈول ڈالا جائے تاکہ ملک میں ایک منتخب حکومت قائم ہو سکے اور وہ نظام مملکت کو ہموار طریقے سے آگے بڑھا سکے۔ عوام کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ ملک میں جلد از جلد عام انتخابات ہونے چاہئیں تاکہ ان کی منتخب کردہ حکومت ریاست کے معاملات چلائے‘ ان کے حق میں اور ملک کے حق میں بہتر فیصلے کرے۔

63 سالہ پاکستانی شہری نے پرائمری سکول میں داخلہ لے لیا

دوسرا معاملہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا ہے‘ یعنی تمام سیاسی جماعتوں اور تمام امیدواروں کو الیکشن میں حصہ لینے کے برابر کے مواقع فراہم کرنا، یہی نگران حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن‘ دونوں کی جانب سے اس بارے میں یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں‘ لیکن حال ہی میں کچھ ایسے معاملات مشاہدے میں آئے جن سے یہ تاثر ابھرا کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ برابر کا سلوک نہیں کیا جا رہا ہے، یہ بات سمجھنے کے لیے ارسطو جیسے دماغ کی ضرورت نہیں کہ اگر تمام جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم نہ کیا گیا اور شفاف‘ غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں بنیادی آئینی تقاضوں کو پورا نہ کیا گیا تو الیکشن ہو جانے کے باوجود غیر یقینی صورت حال کا خاتمہ ناممکن ہو جائے گا۔

مسلم لیگ ن اور جمعیت علما اسلام میں سیٹ ایڈجسمنٹ پر ڈیڈ لاک برقرار لیکن دراصل مولانا فضل الرحمان نے کیا مانگا تھا؟ ذرائع نے دعویٰ کردیا

ایک بات میں اگلی حکومت سے بھی کہنا چاہوں گا‘ چاہے وہ حکومت جس پارٹی کی بھی ہو اور چاہے اس کا سربراہ کوئی بھی ہو، کہنا یہ ہے کہ ماضی میں انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں اور الیکشن بروقت یعنی آئینی تقاضوں کے مطابق نہ کرانے کے نتیجے میں مسائل پیدا ہوئے‘ جن پر اگر توجہ نہ دی گئی تو آنے والے وقت میں ان مسائل کی شدت اور حدت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا‘چنانچہ اگلی حکومت کو کچھ ایسی قانون سازی کرنا پڑے گی کہ الیکشن کسی بھی صورت میں تاخیر کا شکار نہ ہو سکیں‘ اور آئین میں اس حوالے سے جو پیرامیٹرز طے کیے گئے ہیں مستقبل میں ان سے کسی صورت روگردانی نہ کی جا سکے۔ سبھی جانتے ہیں کہ الیکشن بروقت نہ ہونے کے نتیجے میں ابہام پیدا ہوتے ہیں‘ افواہیں جنم لیتی ہیں‘ بے یقینی کی فضا قائم ہوتی ہے اور عوام میں مایوسی بڑھ جاتی ہے۔ علاوہ ازیں معیشت اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات اور معاہدوں کے حوالے سے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب ملک میں کوئی پراپر حکومت ہی نہیں ہے تو معاملات کس کے ساتھ کیے جائیں‘ معاہدے کس کے ساتھ کیے جائیں؟ دوسری بات یہ کہ معیشت کی بحالی اور معاشی استحکام اگلی حکومت کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہیے۔ ہم معاشی حوالوں سے کس قدر پسماندگی کا شکار ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک زمانے میں پاکستان کا ایک روپیہ بھارت کے دو روپوں کے برابر ہوتا تھا۔ آج بھارت کا ایک روپیہ پاکستان کے 3.36 روپے کے برابر ہو چکا ہے اور ملک میں مناسب مقدار میں زر مبادلہ نہ ہونے کی وجہ سے ہماری بین الاقوامی تجارت بھی انحطاط کا شکار ہے۔ ہمارا زرعی شعبہ طاقتور ہے اور اس قابل ہے کہ ملک کی غذائی ضروریات پوری کر سکے‘ لیکن صورت حال یہ ہے کہ اس شعبے پر ماضی میں مناسب توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں غلہ باہر سے منگوا کر اپنی ضروریات پوری کرنا پڑتی ہے‘ لہٰذا زرعی شعبے پر بھرپور توجہ دے کر کم از کم اتنا تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ غذائی خود کفالت کی منزل تک پہنچا جائے اور اس پیسے کو بچایا جائے جو خوراک کے طور پر استعمال ہونے والی اشیا کی درآمد پر خرچ ہوتا ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ ملک میں آئندہ عام انتخابات سیاسی‘ جمہوری استحکام اور معاشی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے‘ انشااللہ!

طلباء کیلئے خوشخبری، حکومت کا آدھی قیمت پر الیکٹرک بائیکس دینے کا فیصلہ

QOSHE -       انتخابی عمل کا آغاز اور کچھ غور طلب باتیں  - محمد معاذ قریشی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      انتخابی عمل کا آغاز اور کچھ غور طلب باتیں 

12 0
28.12.2023

الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے بعد ملک بھر میں سیاسی اور انتخابی سرگرمیاں ابھی عروج پر تو نہیں پہنچیں لیکن شروع ضرور ہو چکی ہیں۔ کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور جمع کرائے گئے ان کاغذات کی سکروٹنی کا عمل جاری ہے، چند روز میں واضح ہو جائے گا کہ کون‘ کہاں سے الیکشن لڑے گا، اس بار 28626 امیدواروں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات جمع کرائے ہیں‘ جو ایک نیا ریکارڈ ہے‘ کیونکہ اس سے پہلے کبھی اتنی بڑی تعداد میں کاغذاتِ نامزدگی جمع نہیں کرائے گئے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی حلقوں میں انتخابات میں حصہ لینے کا جذبہ اب بھی موجزن ہے، عوام کو بھی الیکشن میں ایسے ہی جوش و جذبے کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ملک میں جمہوریت کی بقا اور استحکام کے لیے بے حد ضروری ہے کہ الیکشن والے دن لوگ باہر نکلیں اور اپنی رائے کا بھرپور اظہار کریں، آنے والے دنوں میں ظاہر ہے سیاسی جلسے جلوس ہوں گے‘ کارنر میٹنگز ہوں گی‘ سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی جانب سے اپنے ووٹروں کے ساتھ نئے نئے وعدے کیے جائیں گے اور پرانے دعووں کو دہرایا جائے گا، اس طرح اگلا تقریباً سوا مہینہ پاکستان میں سیاسی غلغلہ جاری رہے گا‘ لیکن بڑا عجیب محسوس ہوتا ہے جب الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے شیڈول کا اعلان کر دیے جانے کے باوجود الیکشن کی مقررہ تاریخ (یعنی آٹھ فروری 2024) کو منعقد ہونے کے بارے میں مبہم بیانات سامنے آتے ہیں‘ انتخابات چند روز آگے یا پیچھے ہونے کی بات کی جاتی ہے۔ پتا نہیں ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ گزشتہ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play