ویسے تو ہر آنکھوں والا دیکھتا ہے۔ لیکن دیکھنے دیکھنے والے میں فرق ہوتا ہے۔ کوئی پیار سے دیکھنا ہے تو کوئی حقارت سے۔ کوئی غور سے دیکھتا ہے تو کوئی بے دلی سے۔ کوئی کرخت نظروں سے دیکھتا ہے تو کوئی معصوم نظروں سے۔ کوئی ترچھی نظروں سے دیکھتا ہے، کوئی سیدھی سیدھی نظروں سے۔ کوئی نظریں چراتا ہے کوئی نظریں ملاتا ہے اور کوئی آنکھیں دکھاتا ہے۔ نظروں کے بھی کئی سٹائل ہیں بہرحال دیکھنا شرط ہے اور نہ دیکھنے والے کو اندھا کہتے ہیں بعض اوقات تو اندھا بھی "انھی" ڈال دیتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اسے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں ہمارے ہاں لینے والے زیادہ ہیں اور دینے والے آٹے میں نمک کے برابرہیں اور ایسے دینے والے بھی ہر وقت اشتہار بازی کے چکر میں ہوتے ہیں۔ ویسے تو ہم سارے ایک دوسرے کو چکر دے رہے ہیں اور سنجیدہ لوگوں کو تو ویسے ہی چکر آنے شروع ہو گئے ہیں۔ ہم سب کو ان چکروں سے نکل کر آگے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا سارا سکوپ آف ورک آگے دیکھنے میں ہے۔ ویسے بھی اہل حکمت ودانش پیچھے دیکھنے سے منع کرتے ہیں۔ گذشتہ دنوں عبیداللہ سرمد کی نئی کتاب نیلے پربتوں کے اس پار نظر سے گزری۔ جواں ہمت اور باہمت لوگ پہلے پربتوں کے اس پار دیکھتے ہیں پھر آر پار دیکھتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں کیونکہ (آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں۔ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی) یہ علامہ اقبال نے اپنے دور میں فرمایا تھا اب تو دنیا کیا سے کیا ہو چکی ہے اور ہم جیسے پیچھے دیکھنے والوں کو چپ لگ گئی ہے۔ زمین وزمن سکتے میں ہیں۔ انسان حیرانی کے عالم میں کبھی اپنے آپ کو دیکھتا ہے اور کبھی اپنے جیسے ان لوگوں کو دیکھتا ہے، جو چاند پر پہنچ کر بھی مزید اگلے پار جانے کے لئے پر عزم ہیں کاش ہم بھی گھوڑے پر کاٹھی ڈالنے کی بجائے خلائی شٹل تخلیق کر لیتے تو ہمیں ستاروں سے آگے جہاں ڈھونڈنے میں دقت نہ ہوتی،بلکہ ہم ابھی تک نیلے پیلے پربت تو کیا کئی جہانوں کو بچشم خود دیکھ چکے ہوتے۔ تاہم اس سارے کام کے لئے چشم پوشی کی بدعت سے بچنا ہوگا۔

آسٹریلیا کے خلاف دوسرے میچ کیلئے پاکستانی ٹیم کا اعلان ہو گیا، ایک اور کھلاڑی باہر

عبید اللہ سرمد ایک سول سرکاری افسر ہیں جو سیدھا دیکھنے کے قائل ہیں اور جیسا جو ہے اس کو ویسا ہی ظاہر کرنے کے بے تاج بادشاہ ہیں فطرت سے خوب پیار کرتے ہیں،بلکہ فطرت کی خوبصورت چیزوں کو دیکھنے کے لئے میلوں سفر طے کرتے ہیں انسان کی خدمت پر سر بستہ چیزوں کے ممنون و مشکور ہیں اور انسان کی بدولت دنیا میں پائے جانے والے مسائل پر پریشان بھی ہیں مغموم بھی ہیں اور اس ساری صورتحال پر نوحہ کناں بھی ہیں۔ اس کا تفصیلی خاکہ نیلے پربتوں کے اس پار میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ لگی لپٹی رکھنے کے بالکل قائل نہیں ہیں اور تلخ حقائق کو بھی قند کی پڑیا میں بند کرکے اپنے قارئین کو کھلا دیتے ہیں اور نتائج سے مکمل طور پر بے نیاز ہیں بقول راقم الحروف(مجھے تو حوصلہ ملتا ہے جب یہ سوچتا ہوں میں۔ زمانے سے بھی کیا ڈرنا زمانہ کیا خدا ہے جی) تاحال دفتروں میں اردو کے مکمل رائج نہ ہونے کا ذمہ دار وہ بیوروکریسی کو قرار دیتے ہیں حالانکہ انگریزی بولتے ہوئے بیوروکریٹ بشیرا ان ٹربل کی عملی تصویر پیش کرتا ہے۔ انہیں اِس بات کا بھی دلی افسوس ہے کہ افسر شاہی مطلوبہ منصوبہ سازی کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ بہرحال ہر تصویر کے دورخ ہیں ایک رخ پیش کرنا بھی زیادتی ہوتی ہے، لیکن اپنی کلاس کے خلاف شدومد سے بات کرنا اسی اللہ کے بندے کا کام ہے۔ ویسے تو سول سروس نے ملک کے استحکام کے لئے قابلِ قدر خدمات سرانجام دی ہیں، لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عوام ہم جیسے افسران کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں اور یہی وجہ ہے مصنف مذکور نے ایک ادیب کی حیثیت سے عوام کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی ہے۔ ان کے اندر جذبات کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظر آتا ہے، لیکن ان کی جذب کرنے کی صلاحیتوں کی بدولت وہ تاحال قابو میں ہیں۔ وہ اندر ہی اندر کڑھتا ہے اور سب کے کئے کرتے کا الزام بھی اپنے آپ پر دھرتا ہے اور اس ساری مایوس کن صورتحال کا گلہ بھی اپنے آپ کو دیتا ہے۔ افسوس عصر حاضر میں ہمارے اکابرین کو یا تو متنازعہ بنانے کی سازشوں کے جال بنے جارہے ہیں یا پھر ان کے بارے میں عقیدت و احترام کے پہلو کو ختم کیا جارہا ہے، لیکن مصنف کتاب عقیدت کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ بھی ہے اور عقیدت کی اہمیت کا مکمل طور پر قائل بھی ہے۔ مذکورہ کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جونہی ایک جگہ پر قائداعظمؒ کی کرسی عبیداللہ سرمد کو نظر آتی ہے تو محبت اور وارفتگی میں وہ آگے بڑھتا ہے کرسی پر اپنے ہاتھ رکھتا ہے اور پھر اپنے ہاتھوں کو چوم لیتا ہے یوں وہ بانی پاکستان کے ساتھ محبت کا اظہار کرتا ہے۔ جیسے پر بھی بڑی چیز ہوتا ہے۔ چھوٹے فعل میں بہت بڑا پیغام۔ اس کا یہ انداز نوجوان نسل کو واضح پیغام دیتا ہے کہ اپنے اکابرین سے محبت کے جذبات پیدا کر کے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ عبید اللہ کو تو قائداعظم یونیورسٹی سے بھی بڑی محبت ہے جہاں میں اور وہ ایک ہی زمانہ میں پڑھتے رہے ہیں۔ شاید وہ محبت کرنے والا انسان ہے وہ تو پاکستان کی ہر ہر چیز سے محبت کرتاہے۔ فصلوں، پہاڑوں،دریاؤں،ندی نالوں،

مونس الہیٰ کے بیان پر چوہدی سالک حسین کا ردعمل سامنے آگیا

ثقافت،کلچر، لباس، موسموں، پھلوں، شہروں اور منڈے کڑیوں سب سے بڑا ہی پیار کرتا ہے اور اس پیار میں وہ شدت کا قائل ہے شدت تو سرمد کے مزاج میں ہے اور اس کا مشاہدہ عبید اللہ سرمد کی کتاب کے ہر ہر لفظ اور ہر ہر باب میں کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ متشدد نہیں ہے۔ صوفیاء کا خیال ہے جب انسان بادہ و ساغر کو غور سے دیکھتا ہے تو بتدریج مشاہدہ حق کی طرف اس کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ جب وہ موجودات کی دنیا سے مشاہدات کی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو اس پر مکاشفات کے دروازے کھلنے شروع ہو جاتے ہیں اور اس کو من و تو کا فاصلہ ختم ہوتا نظر آتا ہے تو پھر اس کو طوعاً وکرھاً موجودات کی وحدت کی بات کرنا پڑتی ہے۔ اس کو ”تو ہی تو“ اور ”دوجا نہ کو“ کا راگ الاپنا پڑتا ہے ایسی کیفیت میں بعض اوقات بندہ عرش اور فرش کے درمیان معلق ہو جاتا ہے اور وہ نہیں بولتا اس میں کوئی اور بولتا ہے اور وہ اپنی موج میں رہتا ہے اور موج دریا میں رہتی ہے اور دریا کے آگے ایک نئی دنیا ہے اور عبیداللہ سرمد نئی دنیا بسانے کا خواب آنکھوں میں لئے آگے بڑھنے کی کوشش کررہا ہے۔ہمت مرداں مدد خدا۔ نیلے پربتوں کے اس پار کا خالق تھیوری پر یقین نہیں رکھتا وہ عمل کی دنیا کا ایک متحرک کردار ہے اور اس دنیا کو خوبصورت بنانے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے ہر وقت برسرپیکار ہے۔ خدا کرے ان کے اعصاب عجز و انکساری اور فقرواستغناء کی طاقت سے مزید مضبوط ہوں۔ ان کی نوائے شوق میں قلندرانہ جوش کی بدولت مزید شدت آئے۔ ان کے قلم میں حقیقت و معرفت کی روشنائی کی وجہ سے مزید روانی پیدا ہو۔ وہ اپنی حق گوئی و بے باکی کی بدولت شر زمانہ و اعداء سے محفوظ رہے۔ میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں اور اب ان کی ایک اور تصنیف آنی چاہئے،جس میں شام کے بغیر شام گزارنے کا آنکھوں دیکھا حال کا اجمالی خاکہ پیش کیا جائے گا۔ گڈ لک عبید اللہ سرمد

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (پیر) کا دن کیسا رہے گا؟

٭٭٭٭٭

QOSHE -        نیلے پربتوں کے اس پار - شفقت اللہ مشتاق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       نیلے پربتوں کے اس پار

41 0
25.12.2023

ویسے تو ہر آنکھوں والا دیکھتا ہے۔ لیکن دیکھنے دیکھنے والے میں فرق ہوتا ہے۔ کوئی پیار سے دیکھنا ہے تو کوئی حقارت سے۔ کوئی غور سے دیکھتا ہے تو کوئی بے دلی سے۔ کوئی کرخت نظروں سے دیکھتا ہے تو کوئی معصوم نظروں سے۔ کوئی ترچھی نظروں سے دیکھتا ہے، کوئی سیدھی سیدھی نظروں سے۔ کوئی نظریں چراتا ہے کوئی نظریں ملاتا ہے اور کوئی آنکھیں دکھاتا ہے۔ نظروں کے بھی کئی سٹائل ہیں بہرحال دیکھنا شرط ہے اور نہ دیکھنے والے کو اندھا کہتے ہیں بعض اوقات تو اندھا بھی "انھی" ڈال دیتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اسے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں ہمارے ہاں لینے والے زیادہ ہیں اور دینے والے آٹے میں نمک کے برابرہیں اور ایسے دینے والے بھی ہر وقت اشتہار بازی کے چکر میں ہوتے ہیں۔ ویسے تو ہم سارے ایک دوسرے کو چکر دے رہے ہیں اور سنجیدہ لوگوں کو تو ویسے ہی چکر آنے شروع ہو گئے ہیں۔ ہم سب کو ان چکروں سے نکل کر آگے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا سارا سکوپ آف ورک آگے دیکھنے میں ہے۔ ویسے بھی اہل حکمت ودانش پیچھے دیکھنے سے منع کرتے ہیں۔ گذشتہ دنوں عبیداللہ سرمد کی نئی کتاب نیلے پربتوں کے اس پار نظر سے گزری۔ جواں ہمت اور باہمت لوگ پہلے پربتوں کے اس پار دیکھتے ہیں پھر آر پار دیکھتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں کیونکہ (آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں۔ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی) یہ علامہ اقبال نے اپنے دور میں فرمایا تھا اب تو دنیا کیا سے کیا ہو چکی ہے اور ہم جیسے پیچھے دیکھنے والوں کو چپ لگ گئی ہے۔ زمین وزمن سکتے میں ہیں۔ انسان حیرانی کے عالم میں کبھی اپنے آپ کو دیکھتا ہے اور کبھی اپنے جیسے ان لوگوں کو دیکھتا ہے، جو چاند پر پہنچ کر بھی مزید اگلے پار جانے کے لئے پر عزم ہیں کاش ہم بھی گھوڑے پر کاٹھی ڈالنے کی بجائے خلائی شٹل تخلیق کر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play