انتخابی عمل کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ الیکٹرونک میڈیا دکھاتا اور بتاتا بھی جا رہا ہے، خبر تو اپنی جگہ لیکن اس حوالے سے رائے تو اپنی ہوتی ہے، ہم تو پرانے لوگ جن کو دقیانوسی خیالات کے حامل کہہ دیا جاتا ہے، اس کے باوجود رنج نہیں اور ہم اپنی نیک نیتی کے باوجود عدالتی فیصلے پر بات کرنے یا لکھنے سے گریز کرتے ہیں لیکن فریقین کو شاید کھلی چھٹی ہے کہ وہ فیصلے پر بات کرلیں چاہے یہ بڑی عدالت ہی کا کیوں نہ ہو، چنانچہ مسلم لیگ (ن) کے اہم راہنماﺅں نے یہ کہہ کر کہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں، سائفرکیس کے حوالے سے دی جانے والی ضمانت پر تنقید کر ہی دی ہے حالانکہ ان حضرات کو کم از کم ایک شہری کی حیثیت سے فریاد داخل کرنے کا حق ہے بہرحال ضمانت تو ہو گئی بانی صاحب تو نیب کی تحویل میں بھی ہیں اور ان کے خلاف توشہ خانہ اور 190ملین پاﺅنڈ والے ریفرنس ہیں ان میں دوروزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد پھر ایسا نہ ہوا اور وہ جیل بھیج دیئے گئے کہ جوڈیشل ریمانڈ قرارپایا، اس کے علاوہ ان کے خلاف اور بھی کئی مقدمات ہیں جہاں تک شاہ محمود قریشی کا تعلق ہے توبلا کسب پھنسے ہوئے ہیں اور یہ شاید نہیں بلکہ حقیقتاً ان کی سیاسی زندگی کا پہلا عمل ہے کیونکہ وہ تو ہمیشہ لاڈلے رہے اور صوبائی وزیر خزانہ سے وفاقی وزیر خارجہ تک کے مراحل بھی طے کئے۔سفر ن لیگ سے شروع کیا اور پیپلزپارٹی سے ہوتے ہوئے تحریک انصاف میں شامل ہو گئے اور یہاں انہوں نے بہت سے غم خواروں کے اندازے غلط ثابت کر دیئے اور انہوں نے بانی سے بغاوت نہ کی، جیسا کہ چودھری پرویز الٰہی کر گزرے ہیں اور اب ان کومسائل کا بھی سامنا ہے اسی طرح شاہ محمود قریشی بھی ثابت قدمی ظاہر کررہے ہیں، یوں بھی حالات کے کچھ عجب رنگ بھی ہیں۔ شیخ رشید چلہ کے بعد کچھ روز تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو پر عمل پیرا رہے اور اب انہوں نے چودھری پرویز الٰہی سے ملاقات ہوتے ہی تھوڑا پینترا بدل کر دکھایا ہے اور کہتے ہیں وہ بانی کے شکر گزار ہیں ان کی وجہ سے چلہ کاٹا اور انہوں نے بھروسہ نہیں توڑا، اس کے ساتھ ہی تعلق نبھانے کا اعلان بھی کر دیا، یہ سب سامنے کی بات ہے اور ان حالات پر تبصرے بھی ہو رہے ہیں تاہم جو بات ایک دانشور نے شروع کی کہ کسی بھی طرزعمل کا کہیں تو ”دی اینڈ“ ہونا چاہیے اور بانی کے لئے دل کھلے کرکے بازو وا کئے ہوئے ان کی جماعت کوموقع دینا چاہیے۔

پی سی بی کو میڈیا رائٹس فروخت کرنے سے روک دیاگیا

یہ کالم گواہ ہیں کہ ہم نے ہمیشہ قومی مفاہمت کی بات کی لیکن اس میں اگر رکاوٹ آئی تو وہ خود کپتان کی طرف سے تھی جب وہ پہاڑ پر چڑھے ہوئے تھے اور چور، ڈاکو کا ورد کرتے ہوئے ہاتھ تک ملانے سے انکار کرتے رہے تھے اور یہ عمل آخر تک رہا تاوقتیکہ ان کو یقین نہ ہو گیا کہ اب وہ لاڈلے والی سی صفت کے حامل نہیں ہیں، اب اگر ان کی ”تھوڑی بس“ ہوئی ہے تو وہ اپنے رویے میں تبدیلی کا اشارہ دینے لگے لیکن اس صور ت میں ان کے ہاتھوں ستائے حضرات نے اب تجویز ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ بات تو وقت وقت کی ہوتی ہے تاہم ایک عرض ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ حالات حاضرہ میں تھوڑا بہت فکر رکھنے والے لوگ بھی مساوی مواقع کی بات کررہے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے کیا الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف کی جانے والی اپیل میں عارضی/ عبوری ریلیف مل جائے گی یا پھر یہ معاملہ بھی آگے بڑھے گا تو اس عرصہ میں کاغذات نامزدگی سے کاغذات کی واپسی تک کا عمل شاید پورا ہو جائے، اس لئے گوہر خان نے جس پلان بی کا ذکر کیا اسی پر عمل کرنا ہو گا جو ابھی تک خفیہ ہے اور اس کے بارے میں قیاس آرائی کی گنجائش نہیں۔

خواجہ آصف کا عثمان ڈار کی والدہ کے الزام کی تحقیقات کا مطالبہ

ویسے ایک ایسا دور پیپلزپارٹی پر بھی آیا تھا،1979ءمیں جنرل ضیاءالحق نے مخصوص مارشل لائی طریقے سے بلدیاتی انتخابات کرائے ان کو غیر جماعتی قرار دیا گیا، پیپلزپارٹی والوں نے بھی پلان بی کے تحت ”عوام دوست“ کے عنوان سے انتخاب لڑا اور لاہور میں واضح اکثریت حاصل کرلی لیکن اپنا میئر نہ بنوا سکے کہ جب وقت آیا تو مسلم لیگ (ن) والے حضرات کے ایک صاحب کے پاس کمشنر کے دستخط شدہ درجنوں کیا بیسیوں حکم نامے تھے۔ نام کی جگہ خالی تھی، چنانچہ پیپلزپارٹی کی طرف سے جو بھی سامنے آتا اس کا نام بھر دیا جاتا اور وہ نااہل ٹھہرتا یوں میئرشپ پیپلزپارٹی کو نہ مل سکی اور بعد ازاں میئر میاں شجاع الرحمن کے حسن سلوک سے پیپلزپارٹی کے درجن بھر کونسلر مسلم لیگی بن گئے۔ ان میں سے کئی افراد اللہ کو پیارے ہوئے اور دوچار ابھی حیات اور مسلم لیگ (ن) کے بااعتماد اور متحرک کارکن ہیں، اس لئے جب تک پلان ”بی“ سامنے نہ آئے اور جوابی کارروائی کا علم نہ ہو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ابھی تو تحریک انصاف کو کاغذات نامزدگی والی مشکل سے گزرنا ہے، شاہ محمود قریشی کا ذکر تھا تو انہوں نے محفوظ راستہ چنا اور سندھ سے کاغذات داخل کرائے۔ حلقہ وہ ہے جہاں شاہ رکن عالم کے مرید بستے اور شاہ محمود خلیفہ ہیں، ان کو یہاں سے عقیدت کے ووٹ ملنے کا یقین ہے اب شاہ محمود کا پلان بی تو سامنے آ ہی گیا دیکھتے ہیں گوہر جان سمیت وکلاءکی جو ایک بڑی تعداد کپتان کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہے وہ اس کھیل میں کیا کردار ادا کرتے ہیں، قانونی پیچیدگیوں کی حد تک تو اپنی کارکردگی سے متاثر کررہے ہیں، تاہم الیکشن دوسری شے ہے اور ہمارے ملک میں تو ابھی تک جمہوری انداز سیاست بن ہی نہیں پایا، پولنگ کے روز بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور مسلم لیگ(ن) کو تجربہ حاصل ہے یا پھر پیپلزپارٹی والے ان مشکلات کا سامنا کرتے رہے ہیں، دیکھتے ہیں کہ کپتان کی وکٹ پوری طرح کب گرتی اور شاہ محمود قریشی کا سکور کیا رہتا ہے کہ لوگ عرصہ سے یہ بات کررہے ہیں کہ ان کی خواہش جماعت کی سربراہی ہے اور وہ سب اداروں سے بنا کر بھی رکھ سکتے ہیں کہ والد محترم کے تربیت یافتہ ہیں اسی لئے تو بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم کے باوجود دعا کراتے وقت پکے پیر ہوتے ہیں۔

کمسن بیٹیوں کو واشنگ مشین کے ٹب میں ڈبو کر ہلاک کرنے والے کو سزائے موت

قارئین! آج کچھ عوامی مسائل بلکہ ایک خصوصی مسئلہ کا ذکر مقصود تھا لیکن تیزی سے بدلتے حالات کی مجبوری آن پڑی انشاءاللہ یہ مسئلہ جو پبلک ٹرانسپورٹ سے متعلق ہے ضرور اجاگر کروں گا۔

QOSHE -  شاہ محمود قریشی کی لاٹری نکلے گی؟ - چوہدری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 شاہ محمود قریشی کی لاٹری نکلے گی؟

7 1
24.12.2023

انتخابی عمل کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ الیکٹرونک میڈیا دکھاتا اور بتاتا بھی جا رہا ہے، خبر تو اپنی جگہ لیکن اس حوالے سے رائے تو اپنی ہوتی ہے، ہم تو پرانے لوگ جن کو دقیانوسی خیالات کے حامل کہہ دیا جاتا ہے، اس کے باوجود رنج نہیں اور ہم اپنی نیک نیتی کے باوجود عدالتی فیصلے پر بات کرنے یا لکھنے سے گریز کرتے ہیں لیکن فریقین کو شاید کھلی چھٹی ہے کہ وہ فیصلے پر بات کرلیں چاہے یہ بڑی عدالت ہی کا کیوں نہ ہو، چنانچہ مسلم لیگ (ن) کے اہم راہنماﺅں نے یہ کہہ کر کہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں، سائفرکیس کے حوالے سے دی جانے والی ضمانت پر تنقید کر ہی دی ہے حالانکہ ان حضرات کو کم از کم ایک شہری کی حیثیت سے فریاد داخل کرنے کا حق ہے بہرحال ضمانت تو ہو گئی بانی صاحب تو نیب کی تحویل میں بھی ہیں اور ان کے خلاف توشہ خانہ اور 190ملین پاﺅنڈ والے ریفرنس ہیں ان میں دوروزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد پھر ایسا نہ ہوا اور وہ جیل بھیج دیئے گئے کہ جوڈیشل ریمانڈ قرارپایا، اس کے علاوہ ان کے خلاف اور بھی کئی مقدمات ہیں جہاں تک شاہ محمود قریشی کا تعلق ہے توبلا کسب پھنسے ہوئے ہیں اور یہ شاید نہیں بلکہ حقیقتاً ان کی سیاسی زندگی کا پہلا عمل ہے کیونکہ وہ تو ہمیشہ لاڈلے رہے اور صوبائی وزیر خزانہ سے وفاقی وزیر خارجہ تک کے مراحل بھی طے کئے۔سفر ن لیگ سے شروع کیا اور پیپلزپارٹی سے ہوتے ہوئے تحریک انصاف میں شامل ہو گئے اور یہاں انہوں نے بہت سے غم خواروں کے اندازے غلط ثابت کر دیئے اور انہوں نے بانی سے بغاوت نہ کی، جیسا کہ چودھری........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play