فروری میںمقرر عام انتخابات کے حوالے سے گومگو کی کیفیت ختم ہونے کے باوجود سیاسی جماعتوں نے اپنی تیاریاں بروقت مکمل نہ کیں، حتیٰ کہ مرکزی جماعتیں امیدواروں کا فیصلہ بھی نہ کر سکیں اور کاغذات نامزدگی کی تاریخ سر پر آ گئی۔ جب سرپر پڑی تو اندازہ ہوا چنانچہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے علاوہ بی اے پی (باپ) نے بھی الیکشن کمیشن سے کاغذات نامزدگی داخل کرانے کی تاریخ میں توسیع مانگ لی اطلاع ہے کہ الیکشن کمیشن نے فیر پلے مدنظر رکھا اور یہ استدعا قبول کرکے مطلوبہ دو روز کی توسیع کر دی اب کاغذات نامزدگی کل (اتوار) تک داخل کرائے جا سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی تیاریوں کا اندازہ اس امر سے لگالیں کہ محمد نوازشریف، محمد شہباز شریف، مریم نواز، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن جیسے بڑے رہنماﺅں کے لئے کاغذات نامزدگی حاصل کر لئے گئے تھے، ان افراد کے لئے پارٹی ٹکٹ اور حلقہ انتخاب بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ جہاں سے بھی انتخاب بھی حصہ لینا چاہتے ان کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ اس کے باوجود یہ سب کاغذات نامزدگی تیار نہ کر پائے باقی حضرات کا تو معاملہ ہی مختلف ہے ، چنانچہ ان حضرات اور جماعتوں کی وجہ سے ہی دو روز کا اضافہ کیا گیا، ہاتھی کے پاﺅں میں سب کا پاﺅں کے مترادف، اس سے ان حضرات کا بھی بھلا ہو گیا جو بعض وجوہات کے باعث اپنا فیصلہ نہ کر سکے تھے۔ اب ایسا ممکن ہوگا اور کاغذات نامزدگی داخل ہو جانے سے کئی امور ظاہر بھی ہوں گے۔ ایک مثال پیپلزپارٹی کی آصفہ بھٹو زرداری کی ہے، ان کے بارے میں یقین سے کہا جا رہا تھا کہ وہ بھی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے بیک وقت انتخاب میں حصہ لیں گی لیکن ان کے لئے کاغذات نامزدگی لئے جانے کی اطلاع موصول نہ ہوئی یوں سب قیاس آرائی ثابت ہوئی۔ بعض دوستوں کے مطابق ان کو لاہور سے انتخابی میدان میں اترنے کی پیشکش کی گئی تھی، ایسا نہ ہوا اور اب تازہ خبر زبانی طیور کی ہے کہ بلاول بھٹو کے بارے میں غور کیا جا رہا ہے کہ وہ لاہور سے بھی انتخابات میں حصہ لیں، لاڑکانہ اور کراچی سے تو ان کے لئے کاغذات لئے گئے ،تازہ خبر کے مطابق ان کے کاغذات نامزدگی حلقہ این اے 128لاہور کے لئے جمع بھی کرا دیئے گئے ہیں۔ یوں یہ کنفیوژن خود سیاسی جماعتوں میں بھی پایا جاتا تھا، اس لئے عوام یا کسی اور طبقے کو الزام نہیں دیا جا سکتا، اب مہینہ دو روز کی توسیع کے بعد جو ہونا ہے ہو جائے گا اور اتوار کے بعد واضح ہوگا کہ کون کہاں سے میدان میں اترے گا اگرچہ اب تک سب بڑے پہلوانوں کی اطلاع تو ہے اور بڑے لوگ تو ایک سے زیادہ حلقوں سے حصہ لیں گے، کسی نے کہا یہ بے اعتمادی ہے اور یہ حضرات ایک سے زیادہ مواقع حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ جماعتی رہنماﺅں کے بقول یہ لیڈرشپ کی مقبولیت ہے۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے عوام کو خبردار کردیا

اب اس حوالے سے جو تازہ ترین خبر ہے۔ وہ یہ کہ بانی تحریک انصاف عمران خان اور ان کے نائب شاہ محمود قریشی کی ایک بڑے مقدمہ میں درخواست ضمانت منظور کر لی گئی۔ یہ منظوری سپریم کورٹ سے آج (جمعہ) ہوئی ہے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانت نامے داخل کرانے کا حکم دیا گیا ہے، یہ ضمانت سائفر کیس میں ہوئی جس میں گواہیاں بھی ہو رہی ہیں، یہ ریلیف ملی تو اسلام آباد ہائیکورٹ سے توشہ خانہ کیس کے حوالے سے بانی جماعت کی نااہلی اور سزا معطل نہیں ہو سکی، ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ نے یہ درخواست مسترد کردی اور سردار لطیف کھوسہ نے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کر دیا، یوں چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر خان کی طرف سے یہ اعلان بھی سوالیہ نشان بن گیا کہ بانی صاحب بیک وقت تین حلقوں سے انتخاب میں حصہ لیں گے۔ اگر سزا اور نااہلی معطل نہیں ہوتی تو کاغذات نامزدگی مسترد ہو جائیں گے البتہ شاہ محمود قریشی کو اتنی ریلیف مل گئی کہ وہ سزا یافتہ نہیں اور اگر تمام مقدمات میں ضمانت نہ بھی ہوئی تو جیل سے حصہ لے سکیں گے، یوں ملتان میں گھمسان کارن پڑے گا کہ وہاں سے یوسف رضا گیلانی اور ان کے صاحبزادے بھی میدان میں ہیں۔

ویڈیو بنانے کا جنون ایک اور نوجوان کی جان لے گیا

میں نے یہ اجمالی سا جائزہ لیا جو جمعیت علماءاسلام اور ایم کیو ایم کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ ایم کیو ایم ایک طرف تو مسلم لیگ (ن) اور جی ڈی اے کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام (ف) سے بھی اتحاد کر چکی اور مسئلہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر آ گیا، ایم کیو ایم کے لئے یہ سب آسان نہیں، مشکل ہے کہ لندن والے بھی سرگرم ہو رہے ہیں اور وہ بائیکاٹ کے حق میں ہیں جبکہ ایم کیو ایم (پی) کا دعویٰ ہے کہ کراچی اس کا ہے اور اس کے لئے وہ سارے حلقوں سے اپنے امیدوار سامنے لانے کی خواہشمند ہے۔ صرف ایک نشست پر بات کرنے کو تیار ہے جس پر محمد شہبازشریف کی خواہش ہو، یہ ایک مشکل صورت حال ہے، یوں بھی یہ حضرات جو اتحاد کے بعد قیادت ثلاثہ کا تاثر دے رہے ہیں اپنے حامیوں کو زیادہ اکاموڈیٹ کرانا چاہتے ہیں، لہٰذا ایم کیو ایم کے حوالے سے بھی اب 25دسمبر ہی کو معلوم ہو گا کہ کون کون میدان میں اترا ہے، البتہ کراچی کی حد تک تحریک انصاف ایک حد تک فعال ہے، حالانکہ سابق گورنر عمران اسماعیل استحکام پارٹی کا جھنڈا اٹھائے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کے رائے دہندگان ان کی جماعت کو پسند کریں گے، یہ صورت حال پیپلزپارٹی کے لئے موزوں ہے کہ وہ کسی الائنس کے بغیر اکیلی میدان میں ہے اور اس کے رہنما کراچی میں بھی انتخابی مہم چلائے ہوئے ہیں، جہاں تک اندرون سندھ کا تعلق ہے تو سابق وزیراطلاعات نے تو 95فیصد کامیابی کا دعویٰ کر دیا ہے اور پھر سے نعرہ لگایا کہ وزیراعظم بلاول بھٹو ہوں گے حالانکہ والد بزرگوار آصف علی زرداری بھی نواب شاہ سے قومی اسمبلی میں پہنچنا چاہتے ہیں سابقہ ایوان میں بھی یہ دونوں موجود تھے۔

پی ٹی سی ایل نے لینڈ لائن اور براڈ بینڈ کنکشنز کے ٹیرف میں 10 فیصد تک اضافہ کردیا

قارئین! یہ وہ صورت حال ہے جو نظر آ رہی ہے اور عرض کر دیا کہ بے رونقی اور غیر یقینی خود سیاسی جماعتوں کے عمل سے طاری تھی کہ ان کی تیاری ہی نہیں مکمل ہوئی تھی، اب یقینی طور پر بہتر فضا بنے گی۔ ابھی تک پنجاب کے حوالے سے کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آتی ، یہی احساس بن گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور استحکام پارٹی اکثریت حاصل کرے گی کہ مسلم لیگ (ن) نے یہاں مسلم لیگ (ق) سے بھی اتحاد کر لیا ہے تاہم یہاں بھی ایک چھوٹا سا رخنہ ہے۔ مسلم لیگ (ق) والے مسلم لیگ (ن) کی توقع سے کہیں زیادہ نشستوں پر ایڈجسٹمنٹ چاہتے ہیں اور یوں ان کے درمیان اہم بات چیت ہونا لازم ہے وگرنہ شائد ایڈجسٹمنٹ نہ ہوپائے۔دو باتیں عرض کرکے مکمل کرتا ہوں۔ اول یہ کہ یہ سب اندازے، تجزیئے اور قیاس آرائیاں ہیں جو پولنگ کے روز غلط بھی ثابت ہو سکتے ہیں، بہرحال میں یہ تسلیم کرنے کو تیار ہوں کہ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) والے تربیت یافتہ ہیں۔ تحریک انصاف کو اب پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی پر ہی تکیہ کرناہوگا۔

آسٹریلیا میں پاکستانی ٹیم فٹنس مسائل سے دوچار،سپنر نعمان علی بھی ٹیسٹ سیریز سے باہر

آخری بات یہ میں سوچتا ہوں کہ یہ کیسا اتفاق ہے کہ آصف علی زرداری نے ایک انٹرویو میں یقین ظاہر کیاکہ الیکشن ہوں 8،10روز اِدھر اُدھر ہو جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا اور اب چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے امریکہ میں کہا ہے کہ انتخابات مارچ سے پہلے ضرور ہوں گے چاہے 8،10روز کے فرق سے ہوں، سپریم کورٹ 8 فروری پر تالا لگا چکی ہوئی ہے۔

QOSHE -  الیکشن کے بارے کنفیوژن کہاں تھا؟  - چوہدری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 الیکشن کے بارے کنفیوژن کہاں تھا؟ 

24 0
23.12.2023

فروری میںمقرر عام انتخابات کے حوالے سے گومگو کی کیفیت ختم ہونے کے باوجود سیاسی جماعتوں نے اپنی تیاریاں بروقت مکمل نہ کیں، حتیٰ کہ مرکزی جماعتیں امیدواروں کا فیصلہ بھی نہ کر سکیں اور کاغذات نامزدگی کی تاریخ سر پر آ گئی۔ جب سرپر پڑی تو اندازہ ہوا چنانچہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے علاوہ بی اے پی (باپ) نے بھی الیکشن کمیشن سے کاغذات نامزدگی داخل کرانے کی تاریخ میں توسیع مانگ لی اطلاع ہے کہ الیکشن کمیشن نے فیر پلے مدنظر رکھا اور یہ استدعا قبول کرکے مطلوبہ دو روز کی توسیع کر دی اب کاغذات نامزدگی کل (اتوار) تک داخل کرائے جا سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی تیاریوں کا اندازہ اس امر سے لگالیں کہ محمد نوازشریف، محمد شہباز شریف، مریم نواز، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن جیسے بڑے رہنماﺅں کے لئے کاغذات نامزدگی حاصل کر لئے گئے تھے، ان افراد کے لئے پارٹی ٹکٹ اور حلقہ انتخاب بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ جہاں سے بھی انتخاب بھی حصہ لینا چاہتے ان کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ اس کے باوجود یہ سب کاغذات نامزدگی تیار نہ کر پائے باقی حضرات کا تو معاملہ ہی مختلف ہے ، چنانچہ ان حضرات اور جماعتوں کی وجہ سے ہی دو روز کا اضافہ کیا گیا، ہاتھی کے پاﺅں میں سب کا پاﺅں کے مترادف، اس سے ان حضرات کا بھی بھلا ہو گیا جو بعض وجوہات کے باعث اپنا فیصلہ نہ کر سکے تھے۔ اب ایسا ممکن ہوگا اور کاغذات نامزدگی داخل ہو جانے سے کئی امور ظاہر بھی ہوں گے۔ ایک مثال پیپلزپارٹی کی آصفہ بھٹو زرداری کی ہے، ان کے بارے میں یقین سے کہا جا رہا تھا کہ وہ بھی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے بیک وقت انتخاب میں حصہ لیں گی لیکن ان کے لئے کاغذات نامزدگی لئے جانے کی اطلاع موصول نہ ہوئی یوں سب قیاس آرائی ثابت ہوئی۔ بعض دوستوں کے مطابق ان کو لاہور سے انتخابی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play