کیا کرکٹ کا حال، ہاکی جیسا ہوگا؟
ہمارا طالب علمی کا دور تھا، تب دنیا نے اتنی ترقی نہیں کی تھی، الیکٹرونک میڈیا اور موبائل فون کی کوئی سہولت نہیں تھی، ان دنوں ہمارے ملک کی حالت ایسی نہ تھی جواب ہے۔ ہم مختلف شعبوں میں کامیاب تھے۔ محکمہ ڈاک کی محنت اور دیانت کی قسم کھائی جاتی تھی۔ کرپشن اور رشوت کا بھی کوئی معیار تھا اس دور میں سکول کی سطح سے کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر باقاعدہ کھیل ہوتے۔ ہاکی، فٹ بال، کرکٹ اور ٹینس کے علاوہ دیگر کھیلیں بھی تھیں ہاکی میں پاکستان کا نام تھا اور اسی دور میں سکوائش کے کھیل پر ہمارے ملک کی اجارہ داری ہوگئی جبکہ ہاکی میں بھی چیمپئن ہوئے۔ یہی حال کرکٹ کا تھا، مجھے یاد ہے کہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی گراﺅنڈ میں ہم اسلامیہ کالج ٹیم کی پریکٹس دیکھنے بھی جایا کرتے تھے۔ ان دنوں ایک کھلاڑی سلطان بہت مقبول تھے وہ افتتاحی کھلاڑی تھے، ہم ان کی بیٹنگ دیکھ کر تالیاں بجاتے تھے۔ تب کمپیوٹرکا تو رواج نہ تھا، اس لئے ان کی سنچری گھڑی کی سوئیوں سے گنی جاتی تھی اور یہ دیکھا جاتا تھا کہ کتنے چوکے چھکے لگتے ہیں، تب یونیورسٹی سطح کے ٹورنامنٹ ہوتے تو گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج ہی کی ٹیمیں سیمی فائنل اور فائنل کھیلتی تھیں اور یہ میچ پنجاب یونیورسٹی گراﺅنڈ میں ہوتے تھے۔ یہ گراﺅنڈ آج کل تباہ حالی کا شکار ہے کہ ترقیاتی کاموں کے لئے اسے استعمال کیا گیا اور پھر دوبارہ بحالی پوری طرح نہ ہو سکی ۔ اسلامیہ کالج اورگورنمنٹ کالج کے درمیان ہمیشہ سخت مقابلہ ہوتا تھا ہم نوجوان گراﺅنڈ میں چوبرجی اینڈ کی طرف ہوتے، افتخار احمد تاری (مرحوم) ٹولے کی قیادت کرتے تھے، گورنمنٹ کالج کے طلبا و طالبات سیڑھیوں پر بیٹھتے، دوسری طرف اسلامیہ کالج والے بھی سامنے کی........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website