اگرچہ یہ لاہور کا سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن محض لاہور ہی اس مشکل میں مبتلا نہیں۔ ملک کا ہر چھوٹا بڑا شہر اس مسئلے کا شکار ہے۔ مسئلہ ہے بڑھتی ہوئی تجاوزات کا، جن کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ ہر شہر کی معروف سڑکوں، بازاروں، مارکیٹوں، گلی محلوں غرض ہر جگہ پختہ اور عارضی، ہر دو قسم کی تجاوزات نے شہریوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ لاہور کی (اور دوسرے شہروں کی بھی) کشادہ سڑکیں ان تجاوزات کی نذر ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے یہاں اکثر ٹریفک بلاک رہتی ہے اور آمد و رفت میں رکاوٹ کے علاوہ اس سے آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ آپ سوچتے ہوں گے تجاوزات اور آلودگی کا آپس میں کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ تعلق یہ ہے کہ جب تجاوزات کی وجہ سے ٹریفک بلاک رہتی ہے تو کھڑی اور سٹارٹ گاڑیوں کے انجن مسلسل دھواں اگلتے رہتے ہیں، جس سے ہوا اور فضا آلودہ ہوتی رہتی ہے۔ ان بڑے شہروں میں بعض سڑکوں پر تجاوزات اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ ٹریفک پولیس نے گاڑیوں کو ادھر جانے سے روک دیا ہے۔ ہال روڈ، منٹگمری روڈ، لنڈا بازار، شہید گنج بازار، شاہ عالم مارکیٹ، نولکھا مارکیٹ کا شمار ان جگہوں میں ہوتا ہے، جہاں کبھی ٹریفک چلتی تھی‘ لیکن آج صورت حال اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ وہاں سے پیدل گزرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ دہلی دروازے سے سنہری مسجد تک‘ رنگ محل سے ٹیکسالی تک سڑکوں کے دونوں طرف دکان داروں نے پختہ قبضے کے بعد دس دس فٹ کے پھٹے بھی لگا رکھے ہیں،جو جگہ بچ جاتی ہے وہاں ریڑھیوں اور ٹھیلوں والے قبضہ جما لیتے ہیں۔ لاہور میں انار کلی، اچھرہ بازار، بانساں والا بازار، اندرون سرکلر روڈ، اردو بازار، مصری شاہ، چاہ میراں، ریلوے روڈ، میکلورڈ روڈ، بیڈن روڈ، برانڈرتھ روڈ، اسلام پورہ بازار ساندہ، بلال گنج، بند روڈ، ملتان روڈ غرض شہر کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں سے آسانی سے گزرا جا سکتا ہو۔

ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز سندھ محمد سلیم خان کا محکمۂ اطلاعات کے مختلف ڈائریکٹوریٹس کا دورہ

اس اندھیر نگری میں اب امید کی ایک کرن پھوٹی ہے۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب سید محسن رضا نقوی کی جانب سے صوبے بھر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کا اعلان کیا گیا ہے جو خوش آئند ہے۔اس اعلان پر فوری طور پر عملدرآمد ہونا چاہئے اور تجاوزات کے خلاف آپریشن اس وقت تک جاری رہنا چاہئے جب تک تجاوزات کا مکمل خاتمہ نہیں ہو جاتا، لیکن میرے خیال میں اصل مسئلہ تجاوزات تو ہیں ہی، اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تجاوزات ختم کیے جانے کے بعد پھر قائم کر لی جاتی ہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ کوئی مانیٹرنگ نہیں ہے۔ نہ تجاوزات قائم کرنے والوں کو کوئی شرم آتی ہے اور نہ ہی تجاوزات کی وجہ سے مسائل کا شکار ہونے والے لوگوں کی طرف سے کوئی آوازِ احتجاج بلند کی جاتی ہے۔ چالیس چالیس فٹ کے کشادہ بازار ہیں، لیکن دکان داروں نے اپنی اشیائے فروخت باہر بازار میں یعنی سڑکوں پر سجا رکھی ہیں اور بازار میں سے گزرنے والوں کے لئے محض دو چار فٹ کا راستہ ہی بچتا ہے۔ دکان دار یہ بھی نہیں سوچتے کہ تنگ راستوں کی وجہ سے لوگ ان کے بازار کی طرف آنا کم کر دیں گے، جس سے ان کی تجارت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ لوگ وہاں سے گزرتے ہیں، لیکن کبھی کسی کی جانب سے احتجاج ہوتا نظر نہیں آیا، چنانچہ تجاوزات تو مسئلہ ہیں ہی اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تجاوزات کو ختم کرنے کے بعد دوبارہ قائم ہونے سے روکا جائے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا تجاوزات سے اٹے ان بازاروں میں سے ہماری انتظامیہ کے کسی فرد کا کبھی گزر نہیں ہوتا؟ ان کے اہل ِ خانہ تو شاپنگ کے لئے بازار جاتے ہوں گے۔ کیا ان کے اہل خانہ کی جانب سے بھی کبھی اس مسئلے کی شدت کو محسوس نہیں کیا گیا؟ انتظامیہ کی جانب سے اس سے پہلے بھی کئی بار آپریشن کیے جا چکے ہیں اور کئی بار بازاروں کو، سڑکوں کو، گلی محلوں کو تجاوزات سے پاک کیا جا چکا ہے،لیکن تھوڑے عرصے کے بعد نئی تجاوزات قائم کر لی جاتی ہیں اور پہلے سے بڑھ کر، پہلے سے زیادہ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تجاوزات کا فوری خاتمہ تو کیا جائے اور مکمل طور پر، لیکن ایسا انتظام کیا جائے کہ یہ تجاوزات پھر قائم نہ ہو سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ تجاوزات کے خاتمے کے لئے کیے جانے والی آپریشن کو لوگوں کے لئے آزار کا باعث نہ بننے دیا جائے۔ ان لوگوں کو تنگ نہ کیا جائے،جو تجاوزات کے مرتکب نہیں ہیں۔

پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے حوالے سے ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا: احسن اقبال

سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارا مذہب،ہمارا دین ہمیں کسی بھی حوالے سے تجاوزات کی اجازت نہیں دیتا کہ تجاوزات کا مطلب کسی کی حق تلفی ہے۔ دارالافتا کی جانب سے ایک سوال کے جواب میں لکھا گیا ہے کہ،غیر قانونی تجاوزات اور ناجائز قبضہ کی ہوئی غیر مملوکہ جگہوں پر کاروبار کرنا جائز نہیں ہے، اور اس کی وجہ سے اگر راستے تنگ ہو جاتے ہوں اور کچرے کے ڈھیر لگ جاتے ہوں جس کی بنا پر راہ چلنے والوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو یہ مزید سخت گناہ کی بات ہے، کیونکہ اس سے لوگوں کو تکلیف پہنچنے کی وجہ سے حقوق العباد کی خلاف ورزی بھی لازم آ رہی ہے۔ کیا دنیا اتنی غالب آ چکی ہے کہ ہم دین کے احکامات کا بھی خیال نہیں کرتے؟

برطانیہ میں شدید طوفان کی پیش گوئی، انتظامیہ ہائی الرٹ

تجاوزات کی بات ہو رہی ہے تو معاملے کو کسی اور طرف بھی لے جایا جا سکتا ہے کہ تجاوزات اور بھی کئی قسم کی ہیں مثلاً اختیارات کے نا جائز استعمال کو بھی تجاوزات میں شامل کیا جا سکتا ہے اور رشوت وصول کر کے کسی کا کام کرنا بھی تجاوزات میں ہی آنا چاہئے۔ سفارش کے ذریعے اپنا کام کرانا بھی تجاوزات میں شمار کیا جا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کرپشن بھی تو تجاوزات کی ہی ایک شکل ہے۔ کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ زمینی تجاوزات کے ساتھ ساتھ ان معاشرتی اور سماجی تجاوزات کا بھی خاتمہ کیا جائے، اس حوالے سے بھی کوئی پالیسی بنائی جائے اور اس حوالے سے بھی کوئی آپریشن کیا جائے تاکہ ہمارے ملک کے مالی حالات کچھ بہتر ہو سکیں، لوگوں کے لئے کچھ سہولت کچھ گنجائش نکل سکے، ان کی قوت خرید بڑھ سکے اور معیشت کو کچھ فروغ مل سکے؟

سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی پر ووٹنگ تیسرے روز بھی مؤخر

QOSHE -             تجاوزات کے خاتمے کا اعلان - محمد معاذ قریشی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

            تجاوزات کے خاتمے کا اعلان

17 10
21.12.2023

اگرچہ یہ لاہور کا سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن محض لاہور ہی اس مشکل میں مبتلا نہیں۔ ملک کا ہر چھوٹا بڑا شہر اس مسئلے کا شکار ہے۔ مسئلہ ہے بڑھتی ہوئی تجاوزات کا، جن کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ ہر شہر کی معروف سڑکوں، بازاروں، مارکیٹوں، گلی محلوں غرض ہر جگہ پختہ اور عارضی، ہر دو قسم کی تجاوزات نے شہریوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ لاہور کی (اور دوسرے شہروں کی بھی) کشادہ سڑکیں ان تجاوزات کی نذر ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے یہاں اکثر ٹریفک بلاک رہتی ہے اور آمد و رفت میں رکاوٹ کے علاوہ اس سے آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ آپ سوچتے ہوں گے تجاوزات اور آلودگی کا آپس میں کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ تعلق یہ ہے کہ جب تجاوزات کی وجہ سے ٹریفک بلاک رہتی ہے تو کھڑی اور سٹارٹ گاڑیوں کے انجن مسلسل دھواں اگلتے رہتے ہیں، جس سے ہوا اور فضا آلودہ ہوتی رہتی ہے۔ ان بڑے شہروں میں بعض سڑکوں پر تجاوزات اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ ٹریفک پولیس نے گاڑیوں کو ادھر جانے سے روک دیا ہے۔ ہال روڈ، منٹگمری روڈ، لنڈا بازار، شہید گنج بازار، شاہ عالم مارکیٹ، نولکھا مارکیٹ کا شمار ان جگہوں میں ہوتا ہے، جہاں کبھی ٹریفک چلتی تھی‘ لیکن آج صورت حال اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ وہاں سے پیدل گزرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ دہلی دروازے سے سنہری مسجد تک‘ رنگ محل سے ٹیکسالی تک سڑکوں کے دونوں طرف دکان داروں نے پختہ قبضے کے بعد دس دس فٹ کے پھٹے بھی لگا رکھے ہیں،جو جگہ بچ جاتی ہے وہاں ریڑھیوں اور ٹھیلوں والے قبضہ جما لیتے ہیں۔ لاہور میں انار........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play