انتخابی بیانیہ اورعوامی مسائل
پاکستان میں عام انتخابات کا تعین اور اعلان الیکشن کمشن کرچکاہے۔ اس پر کام بھی جاری ہے۔ جوں جوں الیکشن کا وقت قریب آتا جا رہا ہے، سیاسی جماعتیں ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے نت نئے بیانیے سامنے لارہی ہیں۔کبھی تو یہ بھی سنتا اور پڑھتا ہوں کہ ہم نے ’فلاں سال سے فلاں سال، تک عوام کی بھلائی اور ترقی کے لیے فلاں فلاں اقدامات، کیے اور آج وعدہ کرتے ہیں کہ عوام ہمیں ایوان اقتدار تک پہنچنے کے لیے ووٹ دیں تو ہم پھر دودھ کی نہریں بہا دیں گے۔ہر طرف ترقی ہوگی اور غربت ختم کردیں گے۔ میں سوال کرتا ہوں ان پارٹی راہنماؤں سے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے عوامی بھلائی کے یہ کام کئے تھے اور اب بھی ہم اقتدار میں آئیں گے توایک بار پھر زمین و آسمان کے قلابے ملا دیں گے۔ان کے دعووں میں موجود الفاظ ’تھا‘، اور’کریں گے‘ میں فاصلہ بہت لمبا ہے۔ ان دعووں کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ باتیں بے مقصد اور لاحاصل ہیں کہ عوام سے ووٹ لے کر، ہم یہ کریں گے۔کیونکہ عوام ہر جماعت کی حکومت کو آزما چکے ہیں۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ اب دوسرا بیانیہ بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام تک جانے کی بجائے شخصیات کے گھروں میں جا کر اپنے سابق ادوار کے سیاسی مخالفین سے دوبارہ سودے بازی کے لیے حاضری دے رہی ہیں، جن سے ان کی دہائیوں سے قطع تعلقی رہی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک بڑی جماعت کے سربراہ میاں نواز شریف، چودھری شجاعت حسین کے پاس وفد لے کر گئے۔پھروہ پارٹیاں جن کے ساتھ ان کے تعلقات نہیں تھے، بلکہ ان پر دہشت گردی کے الزامات بھی لگا چکے تھے، یعنی مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم۔ دونوں ایک دوسرے کے دفاتر جا کر ہمنوابننے کا اعلان کرتے ہیں،ساتھ چلنے اور وفا نبھانے کے اعلانات کرتے ہیں۔ دوسری طرف ملک کی ایک بڑی نظریاتی جماعت پیپلز پارٹی عوام تک........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website